ہاشم شاه تعارف اور خدمات

ہاشم شاه تعارف اور خدمات

موضوع "ہاشم شاه تعارف اور خدمات” کا تعارف ، وارث شاہ کی طرح اس عظیم شاعر کے حالات زندگی بھی بہت کم معلوم ہوئے ہیں۔

کوئی ان کو مہا راجہ رنجیت سنگھ کا دوست ظاہر کرتا ہے تو کوئی درباری شاعر اور کوئی دونوں باتوں سے انکار کرتا ہے۔

محتاط اندازے کے مطابق ان کو 1161-1260 ہجری کے درمیان موجود سمجھا جا سکتا ہے۔ اس پر اب تقریباً سب کا اتفاق ہے کہ وہ امر تسر ضلع کے گاؤں جگہ یوکلاں کے رہنے والے تھے

لیکن ان کی اپنی وصیت کے مطابق ان کو ھر پال میں دفن کیا گیا جو ضلع نارووال کا ایک گاؤں ہے اور مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ان کو عطا کیا تھا۔

ان کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف ہر کسی نے کیا ہے۔ اپنی اثر آفرینی میں بلاشبہ اپنے عہد کے بہت بڑے شاعر تھے۔

ان کی زیادہ معروف تصنیفات یہ ہیں: سسی سوہنی مہینول، شریں فرہاد، دو ہے۔ تاہم اصل وجہ شہرت سنتی کی منظوم داستان ہے۔

وہ بابا فرید لکھے شاہ کی طرح کے صوفی نہیں تھے البتہ صوفی منش ضرور تھے۔

ان کی روح صوفیہ ہی کی طرح حسن مطلق کی تڑپ اور طلب لیے ہوئے تھی جسے عشق مجازی کی داستانیں لکھ لکھ کر دو ٹالتے اور سنبھالتے رہے یا پھر دوہوں کے روپ میں دل کی گئی کو بجاتے رہے۔

ترجمه کلام

یہ دل مجھے ہمیشہ خوار کرتا ہے۔ اس نے میرے حواس گم کر دیے ہیں۔ یہ دریا کی طرح ہے کہ سدا اپنے کناروں کو ہی ڈھاتا رہتا ہے۔

اس دل کو اپنی خبر نہیں ہے جس طرح چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے۔

اسے ہاشم ! اگر یا مل جائے تو اس سے کہوں کہ تجھ سے دل لگار کر میں نے خوب سکھ پایا ہے۔

اے قاصد میری گزارش مان اور جلدی سے پیغام لے کر چلا جا۔ اُس کے پاس جو پہلے میں گھاس اور سرکنڈوں کے بیچ بھینسیں چراتا ہے اور چاکر کہلاتا ہے۔

اسے کہنا کہ کھلے بال کیسے سوختہ بخت ہیر انتظار میں چشم براہ ہے لیکن ہاشم میں اسے آنے پر مجبور نہیں کر سکتی ۔

وہ نہیں آسکتا تو نہ آئے مگر دل سے تو نہ بسارے۔
اے ماں کہاں تخت ہزارا اور کہاں جھنگ سیال ۔

اتنے فاصلے پر آباد گاؤں سے اگر رانجھا چل کر یہاں آ گیا ہے تو یہ خدا کی لکھی ہوئی تقدیر کے مطابق تھا کہ رانجھا بیر کو مل جائے۔

اس لیے اب چند نصیحت کرنے سے اے ماں مجھ سوختہ بخت کا نوشتہ تو نہیں بدل سکتا

اسے ہاشم کی تو یہ ہے کہ ڈوری کسی کے ہاتھ میں ہےوہ جدھر چاہے لے جائے ۔ اس ڈوری کے مطابق چلتے ہیں تو ہمارا کیا قصور ہے۔

ایک عرصہ تک میں نے دل کے اندر حرص کا باغ لگائے رکھا۔ وہ باغ پھلا پھولا اور گلوں سے بھر گیا۔

جب میں نے ایک ایک پھول کو سونگھا تو سارے چمن کا راز معلوم ہو گیا کہ اے ہاشم مجھے ان گلوں سے بے بنیادی کی بو آئی ۔

اگر دوستوں کے ساتھ دوزخ میں جانا پڑے تو خوش ہو کر اس طرف قدم اٹھانا چاہے اور اگر ان کے بغیر تمام بہشت ملے تو اسے قبول نہیں کر چاہیئے ۔

جو دم دوستوں سے دور گذرے اسے دوزخ میں گذرا مجھے ۔ اسے ہاشم دوستوں کا ساتھ نہیں چھوڑ چاہیے خواہ اس میں ڈوبتا مقدر ہو خواہ تیر کر پار اترنا۔

خدا کا عشق ہونا آسان کام ہے کہ یہ کھیل بہت آسان ہے۔ بس صابر بن کر گوشہ گیر ہو جاؤ ۔

تیج ہاتھ میں پکڑ او اور غازی بن جاؤ۔ سکھ آرام سے رہو۔ زمانے میں اچھے نام سے یاد کئے جاؤ گے اور دنیا آپ کو دیکھ کر خوش ہو گی ( اس کے برعکس ) اے ہاشم یہ کا فر عشق مجازی تو گلیوں کی خاک بنا دیتا ہے۔

اے دوست اتفاق سے ملتے ہیں جو کبھی آنکھ نہ پھیر میں۔

پر دلیں ڈھونڈ نے پر بھی دو نہیں ملتے اور لاکھوں روپے خرچ کرنے پر بھی ہاتھ نہیں لگتے۔

وہ اپنا جنون چھپائے ہوئے بے حالسے پھرتے رہتے ہیں جس طرح خاشاک میں آگ چھپی ہوتی ہے۔ لیکن اسے ہاشم تو اس کو دل
میں رکھ جو دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔

سے پھرتے رہتے ہیں جس طرح خاشاک میں آگ چھپی ہوتی ہے۔ لیکن اے ہاشم تو اس کو دل میں رکھ جو دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔

ندیوں میں پانی صدا لبا لب رہتا ہے اور کبھی کم نہیں ہوتا ۔ لیکن جو پانی آج اس راہ سے گذرا ہے وہ پھر کل نہیں آتا۔ یہ جہان اسی طرح آبا ور ہے گا صرف ہم ہی نہ مل کر بیٹھ سکیں گے۔

اے ہاشم ہم سب خاک ہو جائے گے تو پھر ہمارے نازکون اٹھائے گا۔

ببار سدا ایک ہی انداز پر نہیں رہتی ، نہ زمانہ ایک حال پر رہتا ہے۔

ہمیشہ آدمی کی چال البیلی نہیں رہتی ، اور نہ مردم جوانی والا زور رہتا ہے۔ نہ یہاں سدا روٹا اور سوگ کرنا مقدر ہوتا ہے، اور نہ سدا سہانے راگ سننے نصیب ہوتے ہیں۔

اے ہاشم یہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے ۔ یہاں جھنڈ بن بن کر پنچھی آئے اور اُڑ گئے۔

مفید مشورہ

یہ کام پروفیسر آف اردو نے صرف شائع کیا ہے۔ تمام تر ذمہ داریاں اس میں درج مرتب کردہ ممبر کی ہیں۔ سو فیصد اصلی متن کے لیے حواشی سے مدد لے۔ پروفیسر آف اردو بھی آپ کو پی ڈی ایف فراہم کر سکتا ہے۔

حواشی

کتاب کا نام : پاکستانی زبانوں کا ادب،کوڈ نمبر : 5618،موضوع : ہاشم شاہ ،صفحہ نمبر : 195،مرتب کردہ : عارفہ راز

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں