حامد اللہ افسر کی تنقید نگاری

حامد اللہ افسر کی تنقید نگاری | Hamidullah Afsar ki tanqeed nigari

حامد اللہ افسر کی تنقید نگاری

اردو تنقید کے ابتدائی دور اور حالی کے بعد نمایاں ناقدین میں حامد اللہ افسر کا نام بھی شامل ہے ۔، تنقیدی اصول اور نظریے (1954): نورس (1936) ،اور نقد الادب (1933) ان کے تنقیدی مجموعے ہیں ۔
حامد اللہ افسر محض تنقید نگار ہی نہیں بلکہ ایک شاعر اور افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں انہوں نے خصوصاً بچوں کے لیے شاعری کی۔
افسر 29 نومبر 1895 کو میرٹھ میں پیدا ہوئے ۔ان کا اصل نام حامد اللہ تھا انہوں نے ابتدائی تعلیم میرٹھ سے حاصل کی ۔ مدرسہ عالیہ میرٹھ سے عربی ،فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میرٹھ کالج سے بی اے کیا ۔ بعد میں وہ گورنمنٹ کالج لکھنؤ کے ساتھ درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے استاد ہونے کے ناطے وہ بچوں کی ذہنی معیارات کو بخوبی سمجھتے تھے ۔
ان کے شعری مجموعے ٫ پیام روح، جوئے رواں ، جب کہ ، ڈالی کا جوگ، اور، پرچھائیاں ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔
حامد اللہ افسر کا 1974 میں انتقال ہوا۔
ریاض احمد ماہنامہ "اردو دنیا”میں حامد اللہ افسر کی تنقیدی اہمیت کے حوالے سے لکھتے:

” حامد اللہ افسر نے اردو زبان وادب ہر نقطہ نظر سےآبیاری کی تنقیدی نقطہ نظر سے اس کی تین کتابیں بہت معروف ہیں جن میں اردو زبان کے شعر و ادب کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا ہے اُردو زبان وادب کو مغربی و مشرقی دونوں طرزِ فکر سے پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے تنقید پر ان کی پہلی کتاب ٫ نقد الادب ، کے نام سے 1936 میں نول کشور پریس لکھنؤ نے شائع کی ، دوسری کتاب ٫نورس ، کے نام سے 1936 میں ہی بھارگو اسکول بک ڈپو لکھنؤ نے شائع کی ۔
افسر صاحب کی تنقید نگاری بصیرت کا پوری طرح ان کی تیسری تنقیدی تصنیف اصول و نظریے کرتی ہے جس میں انہوں نے تنقید کے تمام تاریخی اور تدریجی پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے اس کے اصول و نظریات پر کھل کر بحث کی گئی ہے بارہ ابواب میں منقسم یہ کتاب ادب اور فنون لطیفہ، تنقید یونان قدیم میں، تنقید ہند قدیم میں ، تنقید زمانہ ما بعد میں ، شاعری ، بت تراشی اور مصوری ، جمالیات اور فنون لطیفہ ، اصول تنقید کی تشکیل ، تنقید کا مقصد اور عمل ، ادب کا مطالعہ اردو کے چند اصناف سخن پر ایک نظر
اور نیا ادب جیسے عنوانات کے تحت کھل کر بحث کی گئی ہے یہ کتاب 1964 میں کوہنور پبلیشر لاہور میں شائع کیا)
حامد اللہ افسر نے اردو دب کی تقریبا ہر سندھ میں کامیاب طبع آزمائی کی لیکن بچوں کے ادب کے لیے زیادہ زیادہ جانے جاتے ہیں ان کی کہانیوں کے مجموعے شائع ہوئے مثلا ڈالی کا جوگ 1927 میں انڈین پریس اللہ باد میں شائع کیا آنکھ کا نور افسانی مجموعہ 1931 میں ہندوستانی پینٹنگ ہاؤس میرٹھ سے شائع ہوا تو چھائیاں ان کا آخری افسانوی مجموعہ ہے حامد اللہ کے ڈراموں کا مجموعہ لغت منظر کے نام سے نول کشور پریس لکھنؤ نے 1931 میں شائع کیا افسر صاحب کے کئی شعری مجموعے میں یکے بعد دیگر شائع ہوتے رہے ان کا پہلا شعری مجموعہ ،روح پیام ، کے نام سے 1927 میں انڈین پریس الہ آباد نے شائع کیا جبکہ دوسرا شعری مجموعہ ٫جوئے رواں، کے نام سے انوار بک ڈپو لکھنو سے 1954 میں شائع ہوا افسر میرٹھی نے بنیادی طور پر نئی نسل خصوصا بچوں کی درسیات کے لیے ان کی نفسیات کے پیش نظر کتابوں اور مضامین کی تصانیف و تالیف کی آسمان کا ہمسایہ ،یوریسٹ کی کہانی، ترقی کی راہیں، عملی نفسیات بچوں کے لیے جانوروں کی عقلمندی، مکانوں کی کہانی جیسی تصانیف میں بچوں کی نصابی ضرورتوں کو ملحوظ رکھا ہے تاکہ ان کی درس ضروریات پوری ہو سکی اور دلچسپیاں بھی برقرار ہیں افسر صاحب کی تصنیف کی ہوئی چھ نصابی کتابیں برسوں تک اتر پردیش کے اسکولوں اور مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہیں انہوں نے ایک مسدر س زوم آخری اور مثنوی آدم نامہ کے علاوہ ذوق ادب کی تربیت بھی لکھی تھی 1967 میں انہوں نے اپنی خود نوش سوانح عمری لکھنا شروع کی تھی لیکن اس کی تشکیل نہ ہو سکی خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ نے مشاعرے ادب اردو کے نام سے تحقیقی کتابیں شائع کی ہیں اصل میں یہ کتابیں رسالہ زمانہ میں 1903 سے 1949 تک شائع ہونے والے تحقیقی علمی ادبی مضامین انتخاب پر مشتمل ہے حامد اللہ افسر کے تین مضامین جو تحقیقی اور ادبی لحاظ سے بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں ادب الکاتب ، مشاعروں کی اصلاح کے فکری اور تحقیقی استدلال کی نشاندہی کرتے ہیں ادب الکاتب رسالہ زمانہ جنوری 1936 کے شمارہ میں مولانا طباطبائی کے ایک مضمون کا جواب ہے مولانا طباطبائی نے کالجوں کے تعلیم و فنہ حضرات کی اردو دانی پر لعن طعن کیا انہوں نے کچھ الفاظ محاورات اور فقروں پر سلاسات کھڑے کیے ہیں افسر صاحب نے ان کے لسانی اور ادبی حقائق بتائے اور عوامی استعمال کی دلیلیں پیش کی ہیں یوں دیکھا جائے تو حامد الافسر نے اردو تنقید کو پہلی دفعہ اصول کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی تنقید
میں بچوں کے ادب کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا اگر چہ اس سے پہلے میرٹھ ہی کے اسماعیل میرٹھی بھی بچوں کے لیے بہت کام کر چکے تھے مگر حامد اللہ افسر نے تنقیدی حوالوں سے بچوں کے ادب کو ایک نیا رخ عطا کیا اردو تنقید میں حامد اللہ افسر کا نام اس حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا
اس کے علاوہ ایک اور کتاب جنگ کے نام سے بھارگو اسکول بک ڈپو لکھنؤ نے شائع کی تھی
میں بچوں کے ادب کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا اگر چہ اس سے پہلے میرٹھ کے اسماعیل میرٹھی بھی بچوں کے لیے بہت کام کر چکے تھے مگر حامد اللہ افسر نے تنقیدی حوالوں سے بچوں کے ادب کو ایک نیا رخ عطا کیا اردو تنقید میں حامد اللہ افسر کا نام اس حوالے سے ہمیشہ روشن رہے گا ۔

نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں