حالی کی مختصر سوانح اور نظم نگاری کا پسمنظر

حالی کی مختصر سوانح اور نظم نگاری کا پسمنظر

کتاب کا نام اُردو شاعری 2

کوڈ 5608
صفحہ نمبر 134/135
موضوع حالی کی مختصر سوانح اور نظم نگاری کا پسمنظر
مرتب کردہ الیانا کلیم

1- حالی کی مختصر سوانح

الطاف حسین حالی (1837 ء تا 1914ء) پانی پت کے ایک غریب انصاری گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کر سکے البتہ اپنی ذاتی کوششوں سے فارسی اور عربی زبانوں میں بے مثال مہارت حاصل کی ۔

ا حالی نے اپنی شاعری کا آغاز بطور غزل گو گیا ۔ انہیں غالب اور شیفتہ کی صحبتیں میسر آئیں ۔ وہ کلاسیکی انداز میں بہت اچھی غزل کہتے تھے لیکن وہ ایک اخاذ اور ترقی پذیر ذہن کے مالک تھے ۔ پہلے غالب اور شیفتہ سے استفادہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنی قدیم غزلوں سے دروغ گوئی اور مبالغے کے عناصر کو کم کیا پھر وہ لاہور چلے گئے جہاں گورنمنٹ بکڈپو کی ملازمت اختیار کر لی۔ انگریزی ادب کے اردو تراجم کی زبان درست کرنے کا کام ان کے سپرد ہوا چنانچہ اس ذریعے سے انہیں مغربی ادب سے واقفیت ہوئی ۔ لاہور میں ان دنوں جدید نظموں کے مشاعرے شروع ہوئے جن میں موضوع کا تعین کر کے نظمیں لکھوائی جاتی تھیں ۔ حالی نے چار مشاعروں میں شرکت کی ۔ پھر وہ اینگلو عر بیک سکول دلی میں مدرس بن کر چلے گئے ۔ وہاں سرسید تحریک سے وابستہ ہوئے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنی مشہور ترین مسدس مد و جزر اسلام لکھی جو مسدس حالی کے نام سے شہرت رکھتی ہے۔ مسدس کے بعد انہوں نے علی گڑھ تحریک کے مقاصد کو مد نظر رکھ کر بہت سی اصلاحی اور اخلاقی نظمیں لکھیں ۔ اصلاحی نظموں میں تعصب اور انصاف کلمتہ الحق، مناظرہ واعظ و شاعر ننگ خدمت، پھوٹ اور ایکے کا مناظرہ خاص طور پر قابل اور ذکر ہیں ۔ عورتوں کے مسائل و مصائب پر توجہ دلانے کے لئے انہوں ۔ نے دو نہایت اہم ہایت اہم نظمیں لکھیں ۔ منہ ھیں۔ مناجات بیوہ میں ہیوگان کے مسائل کا ذکر بڑی دردمندی سے کیا گیا ہے جب کہ چپ کی داد میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ عورتیں بڑی مظلوم رہی ہیں ۔ اب ان کی تعلیم کا بندوبست ہو رہا ہے جو ان کی فلاح کے لئے پہلا اہم قدم ہے۔

حالی نے بہت سے قطعات بھی لکھے ہیں جن میں زیادہ تر اصلاحی مضامین ہیں ۔ یہ قطعات سرسید تحریک کے مقاصد سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں ۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ ہمیں مختلف قسم کے تعصبات ترک کرنے چاہئیں اور اپنی بہت سی سماجی خرابیاں دور کرنی چاہئیں ۔

مجموعی طور پر حالی اردو کی مجموعی طور پر حالی کی شاعری اردو کی جدید شاعری کو آگے بڑھانے میں بہت معاون ثابت ہوئی ۔ ان کی نظموں، قطعوں اور مسدس مدوجزر اسلام کی مقبولیت کی وجہ سے جدید نظم نگاری کی تحریک ہر طرف پھیل گئی ۔ شبلی،اسمعیل میری اکبرالہ آبادی وغیرہ نے ان کے بعد نظم نگاری شروع کی اور حالی کے چراغ سے اپنا چراغ جلایا ۔

حالی چونکہ جدید شاعری کے پیش رو ہیں اور اردو میں ان سے قبل اس قسم کی نظموں کا کوئی نمونہ موجود نہیں تھا ( نظیر کے سوا ) اس لیے ان کی نظمیں بعض اوقات فن کے بلند معیاروں تک نہیں پہنچ سکیں تا ہم ان کی متعدد نظمیں فنی ا اس لیے انکی بعض اوقات کے بلند معیاروں میں بھی کیں تاہم ان کی مد فنی خصوصیات سے مالا مال ہیں۔

اردو میں مقدمہ شعر و شاعری کے ذریعے نظریاتی تنقید کی بنیاد ڈالی اور جدید انداز کی سوانح عمریوں کو بھی متعارف کرایا۔

2- نظم نگاری کا پس منظر

اردو شاعری حالی سے پہلے متعدد مراحل سے گزر چکی تھی ۔ وکی نے دلی میں اپنی غزلیات کے ذریعے اردو شاعری کو مقبول بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ میں سودا اور درد کی شاعری نے اردو شاعری کی متعد د اصناف مثلا غزل، قصیدہ شہر آشوب و غیرہ کو وقار اور معیار عطا کیا۔ ان کے بعد لکھنو میں مثنوی اور مرھیے نے اوج کمال تک رسائی حاصل کی ۔ اس عہد میں نظیر اکبر آبادی نے نظم نگاری شروع کی اور نظموں میں کلاسیکی ہیتوں کو برقرار رکھتے ہوئے موضوعات کا بے مثال تنوع پیش کیا مگر نظم نگاری کی یہ روایت یہیں ختم ہو گئی اور آگے نہ چل سکی ۔ کچھ عرصہ بعد غالب، مومن اور ذوق کا دور شروع ہوا اور غزل کی صنف شعری فضا پر چھائی رہی۔

1857 ء میں انگریزوں کے خلاف ملک بھر میں بغاوت ہو گئی مگر ایک ہی برس کے عرصے میں وہ پورے ملک پر دوبارہ قابض ہو گئے ۔ اس مرتبہ انگریزوں کی مکمل فتح تھی۔ چنانچہ انگریزوں کے ساتھ مقامی باشندوں کے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کا آغاز ہوا جس کا مقصد لوگوں کو انگریزوں کے ظلم وستم سے بچاتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں انگریزی تعلیم دے کر ان کی معاشی اور معاشرتی حالت میں بہتری پیدا کرنا تھا۔ سرسید تحریک اس سلسلے میں دیگر تحریکوں کے مقابلے میں ہمہ گیر تھی ۔ سرسید تحریک کا ایک پہلو اردو ادب کی ترقی بھی تھا مگر بنیادی طور پر اس کا میلان اردو نثر کی بہتری کی جانب تھا۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں