ہاجرہ مسرور کی فکشن نگاری | Hajra Masroor ki fiction nigari
ہاجرہ مسرور کی فکشن نگاری (۱۹۲۹_۲۰۱۲)
صفرا مہدی کی ایک اہم معاصر ہاجرہ مسرور اردو افسانہ نگاری کے اس دور سے تعلق رکھتی ہیں جب اردو افسانہ ترقی پسند تحریک کے ذریعہ ترقی کی منزلیں طے کر رہا تھا۔ جب حقیقت نگاری کو انفرادی طور پر افسانہ نگاری میں برتنے کے بجائے مجموعی طور پر برتا جارہا تھا۔
اس کے ساتھ ہی افسانہ خارجی حقیقت نگاری کے ساتھ داخلی حقیقتوں کا بھی ترجمان بن گیا تھا۔ اس دور میں افسانے کے موضوعات میں بھی اضافہ ہوا اور یوں افسانہ نگاروں کے سامنے یہ دنیا اور بھی وسیع تر ہو گئی۔ ہاجرہ مسرور اپنے عمیق مطالعے و مشاہدے، ذہانت و فطانت ، زبان و بیان کے باعث محتاج تعارف نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہاجرہ مسرور کی افسانہ نگاری
ہاجرہ مسرور اور جنوری ۱۹۲۹ میں پرانے لکھنو کے ایک متوسط اور شریف گھرانے میں پیدا ہوئیں ۔ ان کے والد کا نام ظہور احمد خان تھا۔ یہ اپنے ماں باپ کی تیسری بیٹی تھیں۔ مقبول و معروف فکشن نگار خدیجہ مستور ان کی بڑی بہن تھیں۔
ہاجرہ مسرور اپنی بڑی بہن سے بے تحاشہ محبت کرتی تھیں ۔ حالانکہ دونوں کے مزاج میں بلا کا تضاد تھا۔ جہاں خدیجہ مستور ایک اچھلتی کودتی ندی تھیں تو وہیں ہاجرہ دھیرے دھیرے بہتا ایک جھرنا تھیں ۔ ان کے والد چونکہ سرکاری ملازم تھے اس لیے ان کا بچپن لکھنو کے ان مختلف دیہاتوں میں گزرا جو کہ دھیرے دھیرے شہر کی شکل اختیار کر رہے تھے۔
ہاجرہ مسرور نے ان مختلف تہذیبوں اور طرز معاشرت میں پرورش پائی اور اس زندگی نے انھیں رنگا رنگ تجربات سے نوازا۔ ان کی بہت سی یادیں یوپی کے ان قصبات سے وابستہ ہیں جب یہ محض آٹھ سال کی تھیں تو دسمبر ۱۹۳۷ میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اچانک والد کا شفیق سائے سے محروم ہو کر یہ دنیا کے سرد و گرم صحرا میں آکھڑی ہو گئیں ۔ والد کی وفات نے انھیں بے حد حساس بنا دیا۔ یہی حساسیت ان کی تحریروں میں بھی در آئی۔
یہ بھی پڑھیں: اردو افسانے کا آغازو ارتقاء
ہاجرہ مسرور نے اپنی افسانہ نگاری کا آغاز اپنی بڑی بہن خدیجہ مستور کے حوصلہ دلانے پر ان کے ساتھ ہی کیا۔ بقول ہاجرہ مسرور کہ ۴۲ میں انھوں نے یہ جراثیم مجھے لگا کر چھوڑے انھوں نے با قاعدہ ۱۹۴۲ سے افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا افسانہ ایک فقیر سے متعلق تھا جس کی زندگی سڑک پر گزری ۔
یہ افسانہ دلی کے ایک شخص کے پاس چھپوانے کے لیے بھیجا گیا تو انھوں نے ہم۔ کے نام سے چھپوا دیا مگر ساتھ ہی نصیحتوں بھرا خط بھی بھیجا کہ شریف اور مسلمان گھر کی لڑکیاں اس طرح رسالوں میں نہیں چھپا کرتیں۔ اس کے علاوہ لکھنو کے رشتہ داروں کو اس کی خبر ملی تو انھوں نے خوب ہنگامہ مچایا مگر ہاجرہ مسرور کی والدہ نے مشورہ دیا کہ تم لوگ لکھنے کا سلسلہ جاری رکھو۔
اس طرح بہت کم عمری میں ہی باجرہ مسرور لکھنے کی طرف مائل ہو گئیں ۔ ہاجرہ مسرور کا بچوں کے رسائل سے لے کر اہم ادبی رسائل تک کا سفر کڑی محنت اور لگن سے بھر پور رہا۔ انھوں نے اپنی ناکامیوں سے سیکھا اور اپنی کامیابیوں سے حوصلہ لیا۔ شاہد احمد دہلوی ، مولانا صلاح الدین احمد اور احمد ندیم قاسمی نے انھیں قدم قدم پر قیمتی ادبی مشوروں سے نوازا۔
یہ بھی پڑھیں: ناول سرگزشت ہاجرہ کا تنقیدی جائزہ
ہاجرہ مسرور کا پہلا افسانوی مجموعہ چر کے“ کے نام سے شائع ہوا۔ اس مجموعے میں کل بارہ افسانے شامل ہیں۔ ان کا دوسرا مجموعہ ہائے اللہ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان چلی گئیں اور وہاں جانے کے بعد ان کے چار مجموعے چوری چھپے اندھیرے اجائے چاند کے دوسری طرف اور تیسری منزل منظر عام پر آئے ۔ ہاجرہ مسرور کے تمام افسانوں کی کلیات ” سب افسانے میرے“ کے نام سے ” مقبول اکیڈمی لاہور سے شائع ہوئے۔
ان کے ڈراموں کا مجموعہ ”وہ لوگ“ کے عنوان سے چھپا۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیاں بھی مجموعے کی شکل میں منظر عام پر آئیں ۔ ۱۹۹۸ میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے چاند بی بی کا گھوڑا، ایک تھی اماں اور پوریاں کے عنوان سے ان کی کہانیوں کے مجموعے شائع کیے۔ انہوں نے ۱۹۶۵ میں خمار بارہ بنگی کی فلم ”آخری اسٹیشن کے لیے کہانی (اسکرپٹ) بھی لکھی۔ جس پر انہیں ” نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
ہاجرہ مسرور کے متعلق عام طور پر یہ خیال عام ہے کہ انہوں نے ابتدا میں جنسی افسانے لکھے اور یہ خیال کسی حد تک درست بھی ہے۔ ان کے افسانوں میں میر جان معاشرتی پس منظر میں اور کبھی معاشی جبر کی صورت میں ابھرتا ہے۔ ”چرکے کے اکثر افسانے عورت کی سماجی حالت کو اجاگر کرتے ہیں۔
عورت جس کا استحصال سماج میں برسوں سے ہوتا آیا ہے۔ اس میں عورت کے استحصال کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے۔ ہاجرہ مسرور عورت کی حالت معاشرے میں بہتر بنانے کی خواہاں ہیں۔ سہارا ، عورت ڈھونگ اور خاک افسانوں میں کہیں نہ کہیں عورت کی ناداری، بے بسی اور دکھ درد کو دیکھا جا سکتا ہے۔
ہاجرہ مسرور کے پہلے مجموعے چر کے کے افسانوں میں بے جوڑ شادیوں اور زبردستی کی شادیوں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ تھیٹر ایک ایسا افسانہ ہے جس میں ایک خوبصورت لڑکی کی بدترین کہانی بیان کی گئی ہے جس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف ایک بدصورت امیر شخص سے کر دی جاتی ہے جب کہ وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے۔ شادی کے بعد جب اس کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے ایک جملے سے سب کے چہروں کا رنگ اڑ جاتا ہے:
بچہ بہت خوبصورت ہے۔ بالکل اپنے باپ کا حسین بچہ ، کاش وہ بھی اسے دیکھ سکتے ۔ ۱۸
ہمارے معاشرے میں عورت ہمیشہ نچلے درجے کی چیز سمجھی جاتی رہی ہے۔ کھلی فضا میں سانس لینا اس کی قسمت میں نہیں ہوتا ۔ ایسے میں باپ بھائی اور شادی کے بعد شوہر کے زیرنگیں رہنے پر وہ مجبور ہوتی ہے۔ ایسا ہی ایک افسانہ چر کے کا اندھیرے میں ہے۔ اس میں ایک متوسط طبقے کی لڑکی کی کہانی ہے جو اپنے بھائی کے دوست جمیل کی آزادی نسواں کی باتیں سن کر اس سے متاثر ہو جاتی ہے ۔
وہ سوچتی ہے کہ اگر اس نوجوان سے اس کی شادی ہو جائے تو اس کو بھی آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع مل جائے گا مگر جب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی شادی کہیں اور ہو رہی ہے تو اس کا یہ خواب ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے اور اس کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دروازوں کی دروں سے آنے والی روشنی کی جگہ اب اندھیرا جھانکنے لگا ہے کیونکہ اس کے لیے روشنی کی وہ کرن بجھ چکی ہوتی ہے۔
ہاجرہ مسرور کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہائے اللہ ہے۔ اس میں کل گیارہ افسانے شامل ہیں۔ اس میں جنسی افسانوں کی تعداد زیاد ہے۔ ہائے اللہ، : تل اوٹ پہاڑ،، میں اس کے اثرات نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
ہائے اللہ میں ہاجرہ مسرور نے ننھی کی نفسیات کا زیادہ گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ نانی کی بے جا روک ٹوک سے منی کے اندر تبدیلیاں آتی جاتی ہیں۔ سیخی اپنی کم عمری کے باعث اپنی ان تبدیلیوں کوسمجھ نہیں پاتی کیونکہ اس کا ذہن
اور اس کی عمر اتنی پختہ نہیں کہ وہ ان باتوں کو سمجھ سکے جس سے اس کی نانی منع کرتی ہیں۔ اس نا کبھی کے سبب وہ بھری دو پہر میں اپنے اندر اٹھنے والے بہت سے سوالوں کا جواب پانے کے لیے صلو بھیا کی کوٹھری میں جاتی ہے اور کچھ دیر بعد اپنی کوٹھری میں سوتی ہوئی نانی جب بھی کو اپنے پاس نہیں پاتیں تو ان کی چھٹی حس انھیں بیدار کرتی ہے اور وہ ننھی کی ٹوہ میں صلو بھیا کے کمرے کی طرف جاتی ہیں
اور وہاں وہ صلو اور ننھی کو جس حالت میں دیکھتی ہیں وہ منظر نانی کے ہوش و ہو اس گم کر دیتا ہے اور ان کے حلق سے بے اختیار ہائے اللہ نکل جاتا ہے۔
ان دو جنسی افسانوں کے علاوہ اس مجموعے میں کتے دلدل سونھی اور کوٹھری اور ننھے میاں پر بھی جنس کا اثر دیکھا جاسکتا ہے۔ ان میں "کتے” سب سے اہم ہے۔ اس افسانے میں دو قسم کی بھوک کو بڑے کامیاب طریقے سے دکھایا گیا ہے۔
اس کا بنیادی موضوع بھوک ہے۔ چاہے وہ جنسی بھوک ہو یا پیٹ کی ۔ دونوں کی ہی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس دنیا میں کچھ بھی مفت نہیں ملتا۔ بازار میں مٹھائیوں کی دکان پر بھی مٹھائیاں ہوں یا پھر بازار حسن میں کوٹھوں پر طوائفیں ان سب کی کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ہوتی ہے۔ بغیر قیمت ادا کیے ان کا لطف نہیں اٹھایا جاسکتا۔ اس افسانے میں کوئی مخصوص کردار نہیں ملتا۔ جس کے متعلق افسانہ نگار نے کچھ بیان کیا ہو بلکہ پورے ایک معاشرے کو اس افسانے کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔ اس میں جو بھی کردار آتے ہیں وہ دراصل علامت کے طور پر ابھرتے ہیں۔
چاہے وہ مرجھلے اور خارش زدہ کتے ہوں یا پھر للوحلوائی اور اس کی مٹھائیاں یا بازار میں موجود چکلے کے دریچوں میں بھی سنوری عورتیں ہوں یا پھر ان دریچوں کے نیچے کھڑے للچائی نظروں سے انھیں دیکھتے ہر طبقے کے مرد، یہ کردار علامت ہیں اس معاشرے اور اس گلے سڑے نظام کی جہاں ہر چیز بکتی ہے۔
اس افسانے میں ہر چیز کو ایک مقصد کے تحت پیش کیا گیا ہے اور یہی اس افسانے کی خوبی بھی ہے۔ بھوک اور غریبی انسان کو انسانیت کی ساری حدوں کو پار کرنے پر مجبور کر دیتی ہے اور انسان درندگی کی تمام حدوں کو پار کرنے مجبور ہو جاتا ہے۔
جنسی بھوک میں انسان کی طرح درندہ بندہ بن جاتا ہے اس کی مثال اس افسانے کے ایک واقعے میں موجود ہے جب چکلے کے نیچے بازار میں کھڑے ایک شخص کی جنسی بھوک ایک طوائف پر چاقو سے حملہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
ادھر کتے ہیں جو للو حلوائی کی دکان پر بھوک سے مجبور ہو کر لپکتے ہیں اور حلوائی ان کی بھوک سے خوفزدہ ہو کر ان کی طرف بچی ہوئی مٹھائیاں ڈال دیتا ہے۔ مجموعی طور پر اس افسانوی مجموعے ”ہائے اللہ میں ہاجرہ مسرور کا فن پہلے مجموعے سے زیادہ کھرا ہوا اور پختہ نظر آتا ہے۔
ہاجرہ مسرور کا تیسرا افسانوی مجموعہ چوری چھپے ہے۔ اس میں کل سات افسانے شامل ہیں۔ اس مجموعے کے زیادہ تر افسانے میاں بیوی کے آپسی تعلقات کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان میں ” کا روبار ” آپ ہی کی دنیا کا ذکر ہے میں میاں بیوی کے رشتے میں جو اتار چڑھاؤ آتا ہے اور ان کے درمیان جو کھٹے میٹھے لمحات آتے ہیں ان کو ہاجرہ مسرور نے بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ چوری چھپے ایک ہال کا پھل کا دلچسپ افسانہ ہے۔
پورے افسانے میں افسانہ نگار قاری کو ایک دلفریب دھوکے میں رکھتی ہیں۔ افسانے میں ایک لڑکی کا کردار سامنے آتا ہے جو کہ کسی سے چھپ چھپ کے ملنے جاتی ہے اور کئی بار پکڑی بھی جاتی ہے مگر آخر میں قاری کے سامنے یہ راز کھل کر آتا ہے کہ یہ لڑکی محض ۸ سے ۱۰ سال کی ایک چھوٹی سی بچی ہے جو گھر والوں کی بے رخی کے سبب گھر کے نوکر سے زیادہ قریب ہو جاتی ہے۔ اس نوکر کو گھر والے سخت نا پسند کرتے ہیں۔ اس لیے وہ لڑ کی چھپ کر ملنے جاتی ہے اور اس کو چرا چرا کر پان دیتی ہے۔
اندھیرے اجالے ہاجرہ مسرور کا چوتھا افسانوی مجموعہ ہے۔ اس میں تقریبا کے افسانے شامل ہیں۔ اس مجموعے کے زیادہ تر افسانے اشترا کی خیالات کو واضح کرتے نظر آتے ہیں۔ افسانہ نگار کی نظر میں ایک صحت مند سماج کے لیے اشتراکی نظام کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ ان میں سند باد جہازی کا نیا سفر پرانا مسح راجہ بال ایسے افسانے ہیں جن میں ترقی پسند تحریک کے اثرات نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
” پرانا مسح سماجی اصلاح کے کھو کھلے جذبات رکھنے والی ایک خاتون کے گرد گھومتا ہے جن کا تعلق اعلیٰ طبقے سے ہے اور جو اپنی مل کی مزدور ہستی میں سماجی اصلاح کے جذبے کی غرض سے جاتی ہے اور ان کو صفائی کے اصول سے آگاہ کرتی ہے مگر جب اس کی کسی بات کا اثر ان پر نہیں ہوتا تو وہ دل برداشتہ ہو کر وہاں کبھی نہ جانے کا فیصلہ کرتی ہے اور اپنے شوہر کے منہ سے ان الفاظ کوسن کر مطمئن ہو جاتی ہے:
جانے دو کمبخت جاہل جانور ہی تو ہوتے ہیں۔ ایسی ہی غریبوں سے ہمدردی ہے تو یتیم خانہ میں
چندہ دے دیا کرو۔ 19
ہاجرہ مسرور کو یہاں یہ دکھانا مقصود ہے کہ ہر چیز کے لیے پیسہ درکار ہوتا ہے اور جن لوگوں کو اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنا مشکل ہو وہ کس طرح اپنی صحت اور صفائی کا دھیان رکھ سکتے ہیں ۔
راجہ ہل افسانہ بھولے بھالے کسانوں کے استحصال کی کہانی بیان کرتا ہے۔ کسی طرح زمیندار اور سرمایہ داریل کر کسانوں کا استحصال کرتے ہیں اور ان کی زمین کے ساتھ ساتھ ان کی ہر چیز ہڑپ کر لے جاتے ہیں۔ کسان کو اپنی معصومیت کی یہ قیمت چکانی پڑتی ہے کہ وہ اپنی زمین ، بل بیل اور یہاں تک کہ اپنے ہونے والے بچے تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔
ہاجرہ مسرور کا پانچواں افسانوی مجموعہ تیسری منزل ہے۔ اس میں تقریباً پندرہ افسانے ہیں۔ اس مجموعے کے افسانوں میں ہاجرہ مسرور کا سماجی شعور زیادہ نکھرا ہوا نظر آتا ہے۔ ان افسانوں کے مطالعے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ عورت کو زندگی گزارنے کے لیے ایک مرد کے سہارے کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔
ان میں بھالو اور کنیز افسانوں میں یہ بات نمایاں طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ ان دونوں افسانوں میں ایک ہی درد مشترک ہے اور وہ ہے زندگی میں کسی سہارے کی تلاش، جو کہ ان کو زندگی کی دھوپ چھاؤں سے بچا سکے جس کے سائے میں آکر اسے تحفظ کا احساس ہوتا ہو۔
بھالو افسانہ میں ایک لڑکی جو کہ وقت کے جبر کے سبب طوائف کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ وہ اپنے گھر میں کمانے والی واحد فرد ہوتی ہے جس کی کمائی سے اس کی ماں بہن کا پیٹ بھرتا ہے مگر ایک گھر کی خواہش اس کو ہر بار اپنے گھر سے بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ وہ ہر بار اس امید کے ساتھ گھر سے بھاگتی ہے کہ اس بار تو شاید کوئی اس کا ہاتھ تھام لے گا اور اس کو ایک گھر کا تحفظ مل جائے گا مگر ہر بار وہ نا کام ہی ہوتی ہے ۔
تیسری منزل اس مجموعے کا شاہکار افسانہ ہے۔ اس افسانے پر ہاجرہ مسرور کو ” آدم جی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ یہ افسانہ کراچی کے فلیٹوں میں مقیم افراد کی زندگی کا آئینہ دار ہے۔ یہ افسانہ ہاجرہ مسرور کی باریک بینی اور گہرے مشاہدے کا ثبوت ہے۔
ہاجرہ مسرور کا چھٹا اور آخری مجموعہ چاند کے دوسری طرف ہے۔ اس میں کل ۸ افسانے شامل ہیں۔ اس مجموعے کے افسانوں میں سماج کی بدلتی ہوئی قدروں کو بڑے حقیقی انداز میں بے نقاب کیا گیا ہے۔ اس معاشرے کی مصنوعی چمک دمک، شان و شوکت، ظاہری دکھا وا تصنع سے مل کر جو تہذیبی فضا بنتی ہے اس کا بھر پورا اظہار ان افسانوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک نعرہ اور پاکستان کے ان سیاسی حالات کو اجاگر کرتا ہے جو ۸۰ کی دہائی میں پائے جاتے تھے۔
ہاجرہ مسرور کے ان افسانوی مجموعوں کا جائزہ لینے کے بعد ہم ان کے فکر وفن کے ارتقا کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ ان کے ابتدائی مجموعے چرکے میں ایک طرح کی کڑواہٹ اور جھنجھلاہٹ پائی جاتی ہے۔ سماج میں سب کچھ بدل دینے کا جذبہ ان افسانوں میں پایا جاتا ہے۔
جیسے جیسے ہاجرہ مسرور کی افسانہ نگاری آگے بڑھتی ہے ویسے ویسے ان کے فن میں ٹھہراؤ کی کیفیت آتی جاتی ہے۔ عام طور پر ان کے ابتدائی افسانوں میں جنس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں مگر چر کے میں ” مینی کو چھوڑ کر کوئی بھی افسانہ ایسا نہیں ہے جس کو ہم جنسی افسانہ کہ سکیں۔
باقی تمام افسانے محبت کے ارد گرد گھومتے ضرور نظر آتے ہیں۔ البتہ دوسرے افسانوی مجموعے ہائے اللہ میں جنس کا اثر ضرور واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں "کتے ، ہائے اللہ نے میاں قتل اوٹ پہاڑ کوٹھی اور کوٹھری وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ فکر اور فن دونوں لحاظ سے اس مجموعے کے افسانے پہلے مجموعے سے بہتر ہیں۔
ہاجرہ مسرور کے فن کی دوسری منزل آزادی کے بعد شروع ہوئی۔ یہاں پر ان کے نظریئے میں ایک خاص قسم کا سیاسی نظریہ پیدا ہو گیا۔ اندھیرے اجالے مجموعے کے افسانوں میں سماجی شعور کے ساتھ ساتھ ان کا سیاسی شعور بھی نکھرا ہوا نظر آتا ہے۔ تیسری منزل تک آتے آتے ہاجرہ مسرور کا فن اپنے عروج پر پہنچ گیا ۔ تیسری منزل کے افسانے اس لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں کہ اس میں انسانی رشتوں اور قدروں کی ٹوٹ پھوٹ کا نوحہ ملتا ہے۔
پی ٹی ایف سے تحریر: محمد احمد رضا
نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔