کچھ اس تحریر سے
- جہاں تک ہائیکو کی ہیت کا تعلق ہے۔ ہیتی حوالے سے یہ اردو والوں کے لیے بالکل اجنبی یا نامانوس نہیں ہے۔۔۔۔
- جاپانی ہائیکو میں پہلا مصرع پانچ ، دوسرا سات اور تیسرا پھر پانچ ارکان پر مشتمل ہوتا ہے، گویا کل سترہ مقطعات ہوتے ہیں۔۔۔
- زبان کی تبدیلی سے اصوات میں فرق پڑنا لازمی ہے۔ اردو عروض کے قواعد جاپانی عروض سے مختلف واقع ہوئے ہیں۔ اُردو میں جاپانی اصوات کے انداز کو بروئے کار لانا ناممکن نہیں، تو مشکل ضرور ہے۔۔۔
- اختصار ہا ئیکو کی بنیادی صفت ہے۔۔۔
- عموماً ادبی اصول یہی ہے کہ کسی دوسری زبان کی صنف کو اپنی زبان میں اسی طرح رچایا اور بسایا جاتا ہے کہ اجنبیت کا احساس نہ پیدا ہو لیکن یہ بھی مد نظر رکھا جاتا ہے کہ نئی صنف کو بنیادی مزاج تبدیل نہ ہو جائے۔۔۔
- بحر خفیف مسدس ہائیکو کے لیے مناسب ترین بحر ہے، لیکن اس کے باوجود چند ایک شعراء نے فاعلن مفاعیلن اور فاعلن مفاعلن کے اوزان میں بھی عمدہ ہا ئیکو لکھ کر ان اوزان کو بھی ہائیکو کے لئے مناسب اور موزوں اور ان ثابت کیا ہے۔۔۔
ہائیکو کی ہیت
جہاں تک ہائیکو کی ہیت کا تعلق ہے۔ ہیتی حوالے سے یہ اردو والوں کے لیے بالکل اجنبی یا نامانوس نہیں ہے۔
ہائیکو نظم تین مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اُردو کی اصناف ملائی یا مثلث اور سی حرفی اس کے قریب تر ہیں لیکن بعض موضوعاتی اور فنی حوالوں سے ہائیکو اپنا علیحدہ تشخص رکھتی ہے۔
جاپانی ہائیکو میں پہلا مصرع پانچ ، دوسرا سات اور تیسرا پھر پانچ ارکان پر مشتمل ہوتا ہے، گویا کل سترہ مقطعات ہوتے ہیں۔
بعض جاپانی شعراء نے بھی ان میں کمی بیشی کی ہے، لیکن عمومی مروجہ شکل پانچ سات ، پانچ ہی کی ہے۔
زبان کی تبدیلی سے اصوات میں فرق پڑنا لازمی ہے۔ اردو عروض کے قواعد جاپانی عروض سے مختلف واقع ہوئے ہیں۔ اُردو میں جاپانی اصوات کے انداز کو بروئے کار لانا ناممکن نہیں، تو مشکل ضرور ہے۔ دراصل اُردو کا اپنا ایک مزاج ہے۔
جاپانی صنف ہائیکو اُردو میں آ کر اُردو کے مزاج اور اصوات کے حوالے سے اپنی خاص شکل بناتی ہے۔ چنانچہ جاپانی ہائیکو کے پانچ سات ، پانچ کے آہنگ کا اتباع اُردو میں بہت مشکل ہے۔ اگر چہ بعض شعراء نے اسے بنانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً: خالد احمد اور نسیم سحر کے یہ ہائیکو دیکھئے۔
میں بیرا گن تھی
چاند بھی جی بھر کے ڈسا
صبح بھی ناگن تھی
(خالد احمد )
اکثر خوابوں میں
منظر چلنے لگتے ہیں
ساکت آنکھوں میں
(نسیم سحر)
لیکن زیادہ تر شعراء نے اس پابندی کو اردو کے مزاج کے خلاف سمجھتے ہوئے اُسے قبول نہیں کیا۔ البته اختصار ہا ئیکو کی بنیادی صفت ہے۔
لہٰذا اُردو ہائیکو میں اختصار کی خصوصیت کو قائم رکھنے کے لیے مختصر ترین طور کا چناؤ کیا جاتا ہے۔ عموماً ادبی اصول یہی ہے کہ کسی دوسری زبان کی صنف کو اپنی زبان میں اسی طرح رچایا اور بسایا جاتا ہے کہ اجنبیت کا احساس نہ پیدا ہو لیکن یہ بھی مد نظر رکھا جاتا ہے کہ نئی صنف کا بنیادی مزاج تبدیل نہ ہو جائے۔
کسی صنف کے بنیادی مزاج کو اپناتے وقت اپنی زبان کے رواں مزاج کا ایک حصہ بنالیا جاتا ہے۔ یہی ہائیکو کے سلسلہ میں ہوا ہے۔ اب تک اردو جو ہائیکو لکھی گئی ہیں، وہ زیادہ تر بحر خفیف مسدس ( فاعلاتن مفاعلن فعلن ) میں ہیں ۔
محمد امین نے اس بحر میں خوبصورت ہا ئیکو تخلیق کر کے اسے ہائیکو کے لیے ایک موزوں بحر ثابت کیا ہے۔ ان کی کتاب ” ہا ئیکو” میں شامل تمام ہا ئیکو اس بحر میں ہیں۔ مثلا یہ دو
ہا ئیکو دیکھئے۔
رات تنہائی میں طویل سفر
اک مسافر شکسته پازخمی
اپنے ماضی کو یاد کرتا ہے
چار سو اس قدر اندھیرا ہے
جب چمکتا ہے گھاس میں جگنو
تیرا چہرہ بھی تمتماتا ہے
اپنے ماضی کو یاد کرتا ہے
تیرا چہرہ بھی تمتماتا ہے
محمد امین کے علاوہ دیگر کئی ایک شعراء نے اسی بحر میں ہائیکو کے عمدہ نمونے پیش کئے ہیں۔
اس کا لہجہ ہے آج بھی تازہ
اس کی باتوں میں اب بھی نرمی ہے
کتنے موسم گزر گئے مجھ پر
(بشیر سیفی)
پھر کہانی سمجھ نہیں آتی
سرگزشت حیات سے میری
پہلا منظر اگر نکل جائے
(خاور اعجاز )
خوف اب تک نگل نہیں پایا
رات کے سنسناتے جنگل میں
آرزو کی اکیلی دو شیزہ
(انوار فطرت)
آج ماضی کا ایک حسیں جھونکا
ذہن کے ادھ کھلے دریچے میں
ایک تصویر رکھ گیا ہے پھر
(اختر شمار)
بحر خفیف مسدس ہائیکو کے لیے مناسب ترین بحر ہے، لیکن اس کے باوجود چند ایک شعراء نے فاعلن مفاعیلن اور فاعلن مفاعلن کے اوزان میں بھی عمدہ ہا ئیکو لکھ کر ان اوزان کو بھی ہائیکو کے لئے مناسب اور موزوں اور ان ثابت کیا ہے۔ مثلاً:
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعلن
موتیے کی خوشبو کو
جب ہوا چراتی ہے
رات مسکراتی ہے
( عبد القدوس قدسی)
سبز کھیت دھان کے
عورتوں کے دل میں ہیں
راز آسمان کے
(نصیر احمد ناصر )
بحر کوئی بھی ہو، اختصار ہائیکو کا اساسی وصف ہے۔ ہائیکو میں تجربے کو اختصار سے پیش کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس کے لیے بحر بھی مختصر منتخب کی جاتی ہے۔
اگر چہ ہیت کے حوالے سے کئی شعراء نے بعض پابندیوں کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی۔ البتہ ہائیکو میں اختصار کی روایت کو مضبوطی سے قائم رکھا گیا ہے ۔ کسی شاعر نے طویل بحر میں ہائیکو نہیں لکھی ، کیونکہ اختصار ہی اس صنف سخن کا امتیازی نشان ہے۔
اگر چہ جا پانی ہائیکو میں تینوں مصرعے مساوی الاوزان نہیں ہوتے، یعنی ان کی ترتیب پانچ سات پانچ ہوتی ہے لیکن اُردو کے زیادہ تر ہا ئیکو شاعروں نے اس کی پابندی نہیں کی، بلکہ تینوں مصرعے مساوی
الاوزان رکھے ہیں۔ مثلاً :
سمت بھول جاتی ہے
زائچہ پرندوں کا
جب ہو ا بناتی ہے
(علی محمدعرشی)
جب کبھی دور تک چلا جاؤں
میں تربے دھیان کے سمندر میں
اک جزیرہ صدائیں دیتا ہے
(ممتاز اظهر )
البتہ بعض شعراء نے جاپانی ہائیکو کی پانچ سات پانچ کی بھی پابندی کی ہے۔
رہ گیا خالی ہاتھ
جو پیڑ نہیں سمجھا تھا
تیز ہوا کی با ت
(محمد علی عرشی)
اب کے موسم میں
مٹی کی زرخیزی نے
زخم لگائے ہیں
(نسیم سحر)
لیکن اکثر و بیشتر شعراء نے مصرعے مساوی الاوزان رکھے ہیں۔
قافیہ اور ردیف کا التزام بھی ہائیکو میں عموما روا نہیں رکھا جاتا لیکن بعض شعراء نے قافیہ اور ردیف کے ساتھ ہائیکو لکھی ہیں۔ مثلا:
بس آج رو برو نہ ہو
شکستہ آئنوں کے زخم زخم عکس میں
خدا کرے کہ تو نہ ہو
( ادا جعفری)
مجھے ڈھونڈ شہر معاش میں
میرا بچپنا تو بچھڑ گیا
کہیں تتلیوں کی تلاش میں
(سلیم کوثر)
ہائیکو میں قافیہ و ردیف کا لایا جانا ضروری نہیں، لیکن اگر تخلیقی بہاؤ میں یہ آجائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ قافیہ و ردیف ہماری ادبی روایت کا ایک حصہ ہیں۔
فنی چابکدستی سے ان کا لایا جانا قابل اعتراض نہیں ہے۔ اگر قافیہ ہائیکو کی بنیادی حیثیت کو تبدیل نہ کرے، تو اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں۔ البتہ اکثر و بیشتر شعراء نے ہائیکو کا مزاج متعین کرنے کے لیے قافیہ و ردیف کے بغیر ہا ئیکو کہی ہیں۔
یوں تو ہائیکو کے خدو خال متعین ہو چکے ہیں، لیکن پھر بھی ہائیکو شاعر اس صنف سخن کے مخصوص مزاج اور لہجے کو برقرار نہیں رکھ سکے۔ محض تین مصرعوں کی وجہ سے اسے ہائیکو نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اُردو میں تین مصرعوں والی ہیتں پہلے سے موجود ہیں۔ مثلاً : ما بیا، ثلاثی یا سہ مصرعی نظم ۔ ان اصناف کی موجودگی کے باوجود ہائیکو اپنا الگ تشخص رکھتی ہے اور یہی اسکا جواز ہے۔ ویسے بھی ملائی کے لیے مختصر بحر کی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی اس میں مظاہر فطرت کو حوالہ بناتا ہے،
جبکہ ہائیکو میں یہی دو باتیں اس کی پہچان کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یعنی اول اس کی بحر انتہائی مختصر ہوتی ہے اور دوسرے شاعر اپنے باطنی تجربات اور تخلیقی واردات کو مظاہر فطرت کے حوالے سے بیان کرتا ہے۔
پنجابی زبان کی کوک صنف سخن ماہیا اُردو میں بھی موجود ہے۔ ماہیا حسن و عشق کے موضوعات سے متعلق ہے۔ ماہیے کا مخاطب محبوب ہوتا ہے۔
ماہیا محبت کے موضوعات تک محدود ہے، جبکہ ہائیکو کے موضوعات محدود نہیں ہیں۔ مزید برآں ماہیا میں ایک ہی وزن مروج ہے، جبکہ ہائیکو کی بھی مختصر بحر میں لکھی جاسکتی ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ ہائیکو کی اپنی ایک پہچان ہے اور اس کے حدود حقین ہیں۔
ایک اور حوالے سے بھی ملائی اور سی حرفی سے ہائیکو کا امتیاز واضح ہو سکتا ہے۔ ملائی اور سی حرفی نظم ۔ میں تینوں مصرعے یکساں اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
خیال کا ایک تسلسل ہوتا ہے، جو تینوں مصرعوں کے ذریعے تکمیل کو پہنچتا ہے، جبکہ ہائیکو میں تیسرا مصرع نہ صرف بنیادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے، بلکہ پہلےدونوں مصرعوں کو مربوط کر کے معنی کی اکائی مکمل کر دیتا ہے۔
ہائیکو میں نا تمامیت ہوتی ہے۔ لہذا ہا ئیکو کا تیسرا مصرع پہلے دو مصرعوں میں بیان کیے گئے خیال کو ایک نیا موڑ دے کر ایک امکان کی طرف اشارہ کر دیتا ہے۔ یہ امکان تینوں مصرعوں کو ایک نئے معنی سے آشنا کرتا ہے۔ تیسرا مصرع پہلے دو مصرعوں میں ایسا ربط پیدا کرتا ہے، جو تینوں مصرعوں کونئی تخلیقی جہت عطا کر دیتا ہے۔ تیسرے مصرعے کی بنیادی حیثیت کے بغیر ہائیکو کا مزاج اور پہچان مکمل نہیں ہوتی ۔
تیسرے مصرعے کی یہی انفرادی حیثیت اسے ثلاثی اور سی حرفی سے جدا کرتی ہے۔ ہائیکو ہیت کے اعتبار سے ملائی یا مثلث سے قریب ہونے کے باوجود اپنی مختلف حیثیت کو منواتی ہے۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل ہائیکو دیکھی جاسکتی ہیں۔
حواشی
کتاب کا نام: اردو ادب کا پاکستانی دور
کوڈ: 5615
موضوع: ہائکو کی ہیت
صفحہ: 36تا 40،مرتب کردہ:ثمینہ شیخ