حافظ برخوردار سوانح اور خدمات

حافظ برخوردار

موضوع "حافظ برخوردار” کا تعارف ،اس نام کے یوں تو متعدد شاعر ہوئے ہیں لیکن اولیت قصہ مسلمانی والے کو حاصل ہے۔

ان کی تین منظوم پنجابی تصنیفات ملتی ہیں ۔ فرائض ورثہ، یوسف زلیخا اور قصہ مرزا صاحباں۔ اول الذکر ہیں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔

اسلامی قانون وراثت کی بنیادی باتیں بیان کی گئیں ہیں جبکہ دوسری دونوں کتا بیں طویل منظوم داستانیں ہیں ۔

فرائض ورثہ 1081 ہجری میں، یوسف زلینی 1090 ہجری میں اور مرزا صاحباں دونوں سے پہلے تصنیف کی گئی بلکہ برخودار کی شہرت کا باعث یہی آخر الذکر کتاب ہے۔

کہ اس قصے میں ہیرو اس مردانہ جرات مندی اور بے خوفی کا مظہر ہے جسے پنجاب کی اکثریت کا پر تو کہا جاتا ہے۔

یہ قصہ اس سے پہلو پیلو“ کے نام کے ایک شاعر کا لکھا ہوا بھی ملتا ہے جو حافظ برخوردار کی پیدائش سے تقریباً چونسٹھ سال پہلے یعنی 1605ء میں وفات پا چکا تھا۔

دونوں شاعروں نے بحر ایک ہی برتی ہے کہ صاحباں کی روح نے پیلو کی قبر پر جا کر فریاد کی کہ اس قصے کے اشعار لوگوں نے موڑ توڑ دیئے ہیں

اور میرے عشق کو داغدار کر دیا ہے۔ چارہ کار کے طور پر پہلو اسے برخوردار کے پاس جانے کو کہتا ہے جو تعمیل ارشاد کرتا ہے۔

برخوردار نے قصے میں کوئی تراش خراش نہیں کی اور ایک لحاظ سے تمام قصے ہی کو اپنے زور بیان سے دوباہ زندگی بخشی ہے۔

پہلی بار اہتمام کے ساتھ سراپا نگاری فارسی شاعری کے زیر اثر ہمیں برخوردار کے ہاں ملتی ہے جب وہ کہتا ہے کہ ” صاحباں کا رنگ ایسا ہے جیسے مجیٹھ کا رنگ ہوتا ہے،

اس کی ناک دشنہ کی نوک ایسی ہے، زلفیں لہراتے ہوئے ناگ ہیں اور جب وہ باتیں کرتی ہے تو منہ سے پھول جھڑتے ہیں۔

قصہ یوسف زلیخا میں بھی زلیخا کے جمال کی تعریف کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ:

اس کا چہرہ مہتاب ہے تو قامت صنوبر ۔ آنکھیں روشن دیے ہیں اور صورت اسے خدا نے ایسی دی ہے کہ اس کا بیان ممکن نہیں ۔

اب اس کی کیا صفت کی جائے ۔ پلکیں تیر ہیں تو ابرو کمانیں ۔

دانت چنے کی کلیاں ہیں ۔ نازک بدن ، صراحی ایسی گردن اور پھلیوں ایسی انگلیاں۔

حافظ برخودار جذبات و احساسات کی تصویر بھی ایسے ہی باکمال انداز میں پیش کرتا ہے کہ جب مرزا کے
مارے جانے پر صاحباں سے بین کی صورت کہلواتا ہے کہ :

مجھے کھارے سے تھام کر نہ اتارا گیا ، نہ تیل پھلیل ملا گیا نہ چوٹیاں گوندھی گئیں نہ مانگ میں سیندھور بھرا گیا نہ مولی مہندی نہ سر دھڑی ۔

کوئی بھی باقاعدہ بیاہ کی سدھر (آرزو) پوری نہ ہو سکی۔
یہ وہ باتیں ہیں جن کی بجا طور پر ہر نوجوان عورت آرزو کرتی ہے اور وہ لمحے کی زندگی کے تاریخی لمحے ہوتے ہیں لیکن یہ لمحے انہی کا مقدر ہوتے ہیں جن کو ماں باپ خود رخصت کرتے ہیں ۔

” نکل جانے والیوں کے مقدر میں جب لے جانے والا انتقام کا شکار ہو جائے تو سوائے افسوس اور اندوہ بھری پشیمانی و پریشانی کے کچھ نہیں ہوتا اور وہ صاحباں کی ہم زبان ہو کر اسی طرح اظہار حسرت کرتی ہیں ۔

ویسے دونوں منظومات میں شاعر نے زندگی اور موت ، حسن اور عشق ، دولت اور حکومت کو رب کی دین اور ملکیت ثابت کرنے کی جگہ جگہ کوشش کی ہے۔

کلام کا ترجمہ :

عشق جن کے وجود میں رچ جاتا ہے ان کے بدن پر اس کے لگائے ہوئے زخم کا نشان نہیں ملتا۔ عاشقوں کو نہ نیند آتی ہے

نہ بھوک لگتی ہے اور نہ ان کو موت کا دھڑ کا ہوتا ہے۔ صاحباں کو پریم کی مستی یوں چڑھی ہوئی تھی جیسے انسان کو بھنگ کا نشہ چڑھ جاتا ہے۔

لیکن عقل نہ ڈھونڈے سے ہاتھ آتی ہے نہ مول سے اور نہ مانگے ہے۔ اسے تو یوں کا نٹا لگا ہوا تھا جیسے مچھلی کو لگتا ہے جب سے مرزا اسے چھوڑ کر چلا گیا تھا۔

لیکن چراغ کو کیا پروا اگر پروانہ اپنی جان ہار دے۔

جب لکھنے والا لکھ دے تو اس لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔ عشق آنکھیں چار کر کے عاشقوں کو ذبح کرواتا ہے۔

زہر کے ناوک یوں چلتے ہیں کہ تن کے پار ہو جاتے ہیں۔ یہاں ایک ترستے رہتے ہیں، ایک تڑپتے رہتے ہیں اور ایک پار جا پہنچتے ہیں۔

عاشق ہونا پروانوں کی طرح جل جانے اور خوشی خوشی جل جانے کا نام ہے۔ نخاس کی طرح اس کے عشق کا بازار گرم ہے۔

انتباہ

اس تحریر میں کمپوزنگ کی غلطیاں قابل قبول ہیں۔ مکمل سو فیصد اصلی متن کے لیے حواشی سے مدد لے۔ پروفیسر آف اردو بھی آپ کو وہ پی ڈی ایف فراہم کر سکتا ہے ۔

حواشی

حافظ برخوردار،کتاب کا نام || پاکستانی زبانوں کا ادب،کوڈ کورس 5618،صفحہ نمبر 183 2.3،مرتب کرده… مسکان محمد زمان

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں