حفیظ جالندھری کی گیت نگاری

کتاب کا نام ۔۔۔۔اردو شاعری 2
کوڈ۔۔۔۔۔۔ 5608
صفحہ۔۔۔۔163 سے 169
موضوع: حفیظ جالندھری کی گیت نگاری
مرتب کردہ۔۔۔۔۔۔ اقصیٰ طارق

حفیظ جالندھری کی گیت نگاری

گیت ہندی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی گانا راگ اور نغمہ وغیرہ کے ہیں ۔ ہندی زبان و ادب میں گیت ۔ ان منظوم بولوں یا مکڑوں کو کہتے تھے جن میں عورت کی طرف سے مرد کے لئے جذبات محبت کا اظہار کیا جاتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ جب گیتوں کو ایک صنف سخن کی حیثیت حاصل ہوگئی تو محبت اور متعلقات محبت کے ساتھ ساتھ گیتوں نے اپنے دامن میں موسموں، تہواروں سماجی رسموں مناظر فطرت کی نیرنگیوں اور اپنے ماحول کی تمام جزئیات کو اس طرح سمیٹ لیا کہ غزل کی طرح گیتوں کو بھی اب کسی خاص موضوع تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اردو کی دوسری اصناف سخن مثلا غزل، قصیدہ، مثنوی اور مرثیہ تو فارسی سے آئیں لیکن گیت کی صنف کو اردو شاعری نے ہندی سے لیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا ہی سے گیتوں کے لئے دو عناصر کا ہونا لازمی قرار دیا گیا ۔ ایک ہندی الفاظ کا استعمال اور دوسرا موسیقیت ۔ جس طرح ڈرامہ اسٹیج پر پیش کرنے کے لئے لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح گیت کی تخلیق بھی اس لئے ہوتی ہے کہ اسے گایا جائے گا۔ گیت لکھتے وقت بحروں کے چناؤ اور الفاظ کے داخلی آہنگ میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ گیت جب تحریر کے مرحلے سے گزر کر آواز کی دنیا میں داخل ہو تو موسیقی کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہو سکے۔
اردو میں گیت نگاری کی روایت کے آثار دکنی دور ہی سے مل جاتے ہیں کیونکہ وہاں دوسری منظومات میں بھی ہندی زبان کے الفاظ استعمال ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ دکنی شاعری ہندی گیتوں کے مزاج سے قریب تھی ۔ جب اردو شاعری کا مرکز دکن سے شمالی ہند منتقل ہوا تو اردو گیت کا ارتقاء قریب قریب رک گیا کیونکہ دہلی اور لکھنو کے دبستانوں پر فارسی شاعری کے گہرے اثرات تھے اور گیت کی شاعری وہ پودا ہے جو مقامی زمین اور مقامی آب و ہوا میں پروان چڑھتا ہے۔ پھر جب واجد علی شاہ کے دور میں اردو ڈرامے کی بنیاد رکھی گئی تو اردو گیت کو بھی ایک نئی زندگی مل گئی ۔ خاص طور پر امانت لکھنوی کے ڈرامے اندر سبھا سے اردو گیتوں کا ایک نیا دور شروع ہوا کیونکہ اندر سبھا میں سب سے زیادا ہمیت گیتوں ہی کو حاصل ہے۔ پھر امانت لکھنوی سے لے کر آغا حشر ے اور ایک آیت ہر ڈرا ہے کے جز ولازم کے طور پر شامل رہے۔ گو کہ ان گیتوں کا ادبی معیار کوئی بہت زیادہ بلند نہیں تھا لیکن ان ڈراموں کا یہ کارنامہ کچھ کم نہیں کہ ان کی وساطت سے گیتوں کو اردو میں ایک باقاعدہ صنف سخن کا درجہ حاصل ہو گیا ۔

163
اردو گیت نگاری کا دور جدید عظمت اللہ خان سے شروع ہوتا ہے ۔ پھر آرزو لکھنوی ساغر نظامی اختر شیرانی اور میرا جی کے علاوہ بہت سے شعراء نے گیت نگاری کی طرف توجہ دی ۔ حفیظ جالندھری کا شمار بھی دور حاضر کے اہم گیت نگار شعراء میں ہوتا ہے۔
حفیظ جالندھری کے گیتوں کی سب سے قابل ذکر خوبی ان کی رنگارنگی اور موضوعات کا تنوع ہے ۔ ان میں مناظر فطرت کی تصویر کشی بھی ہے اور جذبات کا والہانہ اظہار بھی ۔ شباب کی سرمستیاں بھی ہیں اور شعور کی گہرایاں بھی لیکن ہر جگہ انہوں نے بیان کی سادگی، نرمی، لوچ اور لطافت کو قائم رکھا ہے۔ ان کے ابتدائی گیتوں میں انسانی حسن کی مصوری ملتی ہے لیکن ان کی بنائی ہوئی تصویروں میں حرکت بھی ہے اور آواز بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ان تصویروں کے سینے میں دل بھی رکھ دیا ہے۔ اس طرح ان کے گیتوں کی مخلوق جذبات سے عاری نہیں ہوتی بلکہ الفاظ کی جادوگری سے وہ ان میں جان ڈال دیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ان کے ایک گیت برسات کا یہ بند دیکھئے۔

آموں کے آم ڈالے ہے جھولے

     مہ پیکروں نے

سمیں تنوں نے برق افکتوں نے

گیت ان کے پیارے میٹھے ریلے

ہلکی صدائیں ساده ادائیں
گل پیرین ہیں غنچه دہن ہیں
خود مسکرانا خود منہ چڑانا

پھر جھینپ جاتا الهر پنے

آموں کے نیچے ڈالے ہیں جھولے

نظموں کی طرح حفیظ نے گیتوں میں بھی اپنا رشتہ اپنی زمین اور اپنے ماحول سے پوری طرح قائم رکھا ہے۔ انہوں نے اپنے شاعرانہ تخیل کے بل بوتے پر کوئی خیالی دنیا تخلیق کرنے کے بجائے اپنے گردو پیش کے مناظر کو گیتوں میں اس طرح ڈھال دیا ہے کہ فطرت ایک جیتی جاگتی شخصیت بن کر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔

164
هر برگ گل پر موتی۔ جڑے ہیں
موتی ہی موتی بکھرے پڑے ہیں

قدرت کی ہر شے دلہن ہے

باریک ململ تاریک آنچل

چہرے پہ ڈالے گھونگھٹ نکالے

شب کی روا میں دھندلی ضياء
میں

اپنی حیا میں
چپ ہے

گویا دلہن ہے

حفیظ کے گیتوں کی فضا موسیقی و نفسگی سے تعمیر ہوئی ہے۔ اس کے لئے انہوں نے مترنم بحروں، خوش نما فارسی تراکیب کے ساتھ ہندی کے نرم شیریں اور رسیلے الفاظ کے انتخاب سے کام لیا ہے۔ ان کے گیتوں کی اس خوبی کے بارے میں ضمیر جعفری نے لکھا ہے :

"اس کے یہاں موسیقیت میں رچی بسی بہترین الفاظ کی بہترین ترتیب اس حسن تناسب اور لطافت کے ساتھ ملتی ہے کہ اس کے بغیر ہم اس کے آرٹ بلکہ خود حفیظ کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ ایک لطیف و متوازن نغمگی اس کے آرٹ کا سب سے بڑا حسن ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ حواس میں بہتی ہوئی ایک بے نام لذت کو اس کی پوری مٹھاس، رس اور لوچ کے ساتھ اشعار میں نچوڑتا چلا جاتا ہے۔ اس کے الفاظ گاتے ہیں اور مصرعے گنگناتے ہیں” ۔
حفیظ جالندھری نے اپنی قوت اختراع سے کام لیتے ہوئے گیت کی تکنیک میں بھی تبدیلیاں کیں ۔ کہیں مصرعوں کی ترتیب اور قطع و برید سے اور کہیں ایک ہی گیت میں دو بحروں کا ملاپ ہے اور کہیں ٹیپ کے مصرعوں کی تکرار ہے انہوں نے اپنے گیتوں میں ایک نغماتی وحدت پیدا کی ہے جو اردو کے گیتوں میں ایک نئی چیز ہے ۔ حفیظ کے قلم نے گیت کو وہ مقام بخشا ہے کہ اردو زبان ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی ۔

165
5- پریت کا گیت کی تشریح

حفیظ جالندھری کے گیتوں پر تبصرہ آپ نے پڑھا۔ یوں تو حفیظ کا لکھا ہوا ہر گیت اپنی جگہ لا جواب ہے لیکن ان صفحات میں ہم ان کے ایک گیت پریت کا گیت کی تشریح کر رہے ہیں ۔ آئیے پہلے آپ یہ گیت پڑھئے ۔

(1)

اپنے من میں پریت با لے اپنے من میں پریت

من مندر میں پریت بسالے

او مورکھ او بھولے بھالے

دل کی دنیا کر لے روشن

پریت ہے تیری ریت پرانی

اپنے گھر میں جوت جگا لے

بھول گیا او بھارت والے

بھول گیا او بھارت والے
پریت ہے تیری ریت
بسا لے اپنے من میں پریت

              *(2)*

اپنے من میں پریت بسا لے اپنے من میں پریت
کرودھ کبٹ کا اترا ڈیرا شیخ
چھایا چاروں کھونٹ اندھیرا

کرودھ کیٹ کا اترا ڈیرا

شیخ برہمن دونوں رہزن
ایک سے بڑھ کر ایک لٹیرا

ظاہر داروں کی سنگت میں
کوئی نہیں ہے سنگی تیرا

کوئی نہیں ہے سنگی تیرا
من ہے تیرا میت

بسا لے اپنے من میں پریت

166

(3)

اپنے من میں پریت بسا لے

بھارت ماتا ہے دکھیاری
دکھیارے ہیں سب نر ناری

تو ہی اٹھا لے سندر مرلی
تو ہی بن جا شام مراری

تو جاگ تو دنیا جاگے
جاگ اٹھی سب پریم پجاری

جاگ اٹھیں سب پریم پجاری
گائیں تیرے گیت

بسالے اپنے من میں پریت

(4)

اپنے من میں پریت بسالے
اپنے من میں پریت

نفرت اک آزار ہے پیارے
دکھ کا دارو پیار ہے پیارے

آجا اپنے روپ میں آجا
تو ہی پریم اوتار ہے پیارے

یہ بارا تو سب کچھ ہارا
من کے ہارے ہار ہے پیارے

من کے ہارے ہار ہے پیارے

من کے جیتے جیت بسالے
اپنے من میں پربت
(5)
اپنے من میں پریت بسالے
اپنے من میں پریت

دیکھ بڑوں کی ریت نہ جائے
سر جائے پر میت نہ جائے

میں ڈرتا ہوں کوئی تیری

جیسی بازی جیت نہ جائے
ترزا وقت ہے بیت نہ جائے

میں ڈرتا ہوں کہ کوئی تیری
جیتی بازی جیت نہ جائے

جو کرنا ہو جو جلدی کر لے
تھوڑا وقت ہے بہت نہ جائے

تھوڑا وقت ہے بیت نہ جائے
وقت نہ جائے بیت
بسالے اپنے من میں پریت

167
گیت کی تشریح :

بند نمبر 1

حفیظ جالندھری نے اس گیت میں ہندوستان کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے دلوں کو محبت کے اس جذبے سے آباد کر لیں جو انسان کی پہچان ہے۔ یہ گیت غیر منقسم ہندوستان کے اس دور میں لکھا گیا جب فرقہ ورانہ اختلافات نے انسان کو انسان سے دور کر دیا تھا۔ حفیظ ایک انسان دوست شاعر ہونے کی حیثیت سے اس صورت حال پر خوش نہ تھے وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ہر انسان کے دل میں شرافت، خلوص و محبت اور انسانیت کی ایک شمع ہمیشہ روشن رہتی ہے لیکن سیاستدانوں کی فریب کاریاں بھولے بھالے انسانوں کو اپنے مذموم مقاصد کی خاطر استعمال کر کے اس شمع کو بجھانے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ حفیظ لوگوں سے کہتے ہیں کہ محبت تو تمہاری فطرت میں شامل ہے لیکن تم اس بات کو بھول گئے ہو۔ اب تمہیں چاہئے کہ تم اس محبت کے جذبے کو پھر سے اپنے دل میں بسا لو اور آپس کی نفرتوں کو ختم کر دو ۔ ان کے خیال میں انسان کا دل ایک ایسی عبادت گاہ ہے جس میں محبت کا چراغ ہمیشہ روشن رہنا چاہیے۔

بند نمبر 2
حفیظ کہتے ہیں کہ آج کل نفرت نے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا ہے جس سے چاروں طرف تاریکی پھیل گئی ہے ۔ وہ شیخ و برہمن دونوں کو ایک سے بڑھ کر ایک لیر اقرار دیتے ہیں ۔ یہاں شیخ مسلمانوں کے اور برہمن ہندوؤں کے ان رہنماؤں کے استعارے ہیں جو اپنی اپنی قوم کو دھوکا دے رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اپنے عوام سے مخلص نہیں ہے ۔ حفیظ عوام سے کہتے تھے کہ تم ان خود غرض اور ظاہر پرست لوگوں میں پھنس گئے ہو۔ ان میں کوئی بھی تمہارا دوست نہیں ہے اس لئے تم صرف اپنے دل پر بھروسہ کرو کہ انسان کا دل ہی اس کا سچا دوست ہوتا ہے اور اپنے دل کو محبت سے معمور کر لو۔

بند نمبر 3

تمہارا وطن ایک ماں کی طرح ہے جو آج کل دکھوں اور تکلیفوں میں مبتلا ہے۔ یہ اس زمانے کے سیاسی حالات سے پیدا ہونے والی صورت حال کی طرف اشارہ ہے۔ جہاں ایک طرف تو مادر وطن پر انگریزوں کی غلامی کا سایہ مسلط تھا اور دوسری جانب ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان سیاسی کشمکش نے پورے ملک کی فضا کو مکدر کر رکھا

188
تھا۔ ان حالات میں کیا مراد اور کیا عورت سب ہی پریشان تھے ۔ حفیظ کہتے ہیں کہ اسے ہندوستان کے رہنے والے تو ہی امن کی بانسری اٹھانے اور تو خود ہی شمام مراری بن جا ( شام مراری ہندوؤں کے ایک اوتار کرشن جی کا لقب ہے جن کی بانسری بہت مشہور ہے ) شاعر نے یہاں کرشن جی کی بانسری کو امن اور محبت کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر لوگ خود اپنے رویے میں لچک پیدا کریں ۔ خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں، محبت کی تبلیغ کریں۔ خود حسن سلوک کا مظاہرہ کریں تو سارا ہندوستان جاگ اٹھے گا لیکن اس کے لئے دلوں میں محبت کا جذبہ بسا نا ضروری ہے۔

بند نمبر 4

حفیظ لوگوں سے کہتے ہیں کہ محبت کو اپنے دل میں جگہ دو کیونکہ نفرت تو ایک بیماری ہے۔ تمہارے دکھوں کا علاج صرف محبت میں پوشیدہ ہے۔ اے لوگو تم اپنی اصل شکل میں سامنے آؤ۔ اپنا سچا روپ دکھاؤ ۔ تم ہی تو ہو جس کے ذریعے خدا نے محبت کو دنیا میں بھیجا ہے۔ اگر تمہارا دل حالات سے شکست کھا گیا تو سمجھو کہ تم سب کچھ ہار گئے۔ دل کی ہار میں زندگی کی ہار ہے اس لئے اپنے دل میں ‘مایوسی’ بے زاری اور نفرت کو جگہ نہ دو۔ امید کی شمع روشن رکھو اور اپنے حوصلوں کے بل بوتے پر محبت اور انسانیت کے دشمنوں کو شکست دے دو۔ اپنے دل کو محبت سے آبا د رکھو۔ جس دل میں محبت ہوتی ہے اس میں امید اور حوصلہ بھی ہوتا ہے۔

بند نمبر 5

حفیظ لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دیکھو کہیں تم اپنے بزرگوں کی روایات کو فراموش نہ کر دینا ۔ اگلے وقتوں کے لوگ دوستوں کی خاطر جان کی بازی لگا دیتے تھے۔ وہ کہتے ہیں مجھے ڈر ہے کہیں تم اپنی جیتی ہوئی بازی ہار نہ جاؤ تمہیں جو کرنا ہے جلدی کر لو ۔ وقت بہت کم ہے ۔ اگر وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پھر کچھ نہ ہو سکے گا۔ اس وقت کی قدر کرو۔ اپنے دل سے نفرتیں ختم کر کے محبت کو جگہ دو۔ آپس کی محبت اتفاق اور اتحاد وہ طاقت ہے جس کی مدد سے تم اپنے دشمنوں پر فتح حاصل کر سکتے ہو ۔ اس نظم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ہمیں محبت کے جذبے کو فروغ دینا چاہیے ۔ یہی بات جگر مراد آبادی نے اپنے اس شعر میں کہی ہے

ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں