موضوعات کی فہرست
حمد کا پس منظر
مذاہب عالم کی تاریخ گواہ ہے کہ خدا کا تصور کسی نہ کسی صورت میں ہر عہد میں موجود رہا ہے۔ قرآن کریم کی تمہیدی آیت الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِین دنیا کی تمام قدیم و جدید زبانوں کے ادب میں حمد یہ اظہار میں نمایاں رہی ہے۔
انسانی معاشرہ اوائل تاریخ و تمدن ہی سے خالق و مالک ازل کی حمد وثنا کرتا چلا آ رہا ہے۔ دنیا کی ہر مہذب و غیر مہذب قوم میں خدائے واحد کی پرستش کے آثار نمایاں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : اردو حمد و نعت پر فارسی شعری روایت کا اثر pdf
حمد کی تعریف و مفہوم
حمد کے معنی اللہ کی تعریف کے ہیں۔ اصطلاح میں نظم و نثر کے اس ٹکڑے کو حمد کہتے ہیں جس میں ذات باری تعالیٰ کی تعریف کی گئی ہو۔
حمد سے اللہ کی توصیف مقصود ہے۔ اس توصیف میں اس کی ذات اور اس کی گوناگوں صفات کا ذکر ہوتا ہے۔ اس کی خالقیت ، اس کی قدرت و اختیارات، اس کا ازلی و ابدی ہونا ، وحدہ لا شریک ہونا ، اس کی تقدیس و تسبیح ، اس کی شان رزاقی ، اس کے حیسی و قیوم ، رحیم و کریم ، حاضر و ناظر، کارساز اور بندہ نواز ہونے کا ذکر۔
لفظ محمد عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مطلب خدا کی تعریف و توصیف کرنا ہے۔ یہ لفظ صرف خدا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
ثنا کسی انسان کی بھی ہو سکتی ہے مگر حمد صرف خدا کی۔ حمد یہ شاعری مختلف شعری اصناف میں کی جاتی ہے۔ نظم ہو یا غزل، مرثیہ ہو یا مثنوی ، رباعی ہو یا قصیدہ سب میں حمد یہ شعر لکھے جاتے رہے ہیں۔ شعری مجموعوں ، دیوان یا کلیات کا آغاز بھی عموماً محمد یہ اشعار سے کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اسلامی معاشرے میں تصور توحید کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
حمد کی روایت
حمد کا تصور تمام ادیان میں ملتا ہے ۔ اسلام میں خدائے واحد کا اقرار، غیر خدا کے انکار سے ہوتا ہے۔ گویا اسلام میں داخل ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ پہلے” لا” یعنی نفی کے ذریعے دل سے تمام غیر اللہ کے وجود کو مٹا دے۔
اور پھر اس ذات کا اقرار کرے جو وحد و لا شریک ہے۔ قرآن کی صورت اخلاص میں اللہ کی وحدت کا اعلان بڑے پر اثر پیرائے میں ہوا ہے۔
ترجمہ"کہہ دو اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا۔ نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس کا ہم سر ہے ۔”
انسان جب اس بزرگ و برتر ہستی کے آگے خود کو بے بس و مجبور تصور کرتا ہے تو پھر اللہ کا خوف اس کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی خوف کے ساتھ جب عقیدت کا جذ بہ بھی شامل ہو جائے تو پھر اللہ کی بڑائی اس کی زبان سے نکلتی ہے۔
خوف و عقیدت کا یہی اظہار حمد یہ شاعری میں پایا جاتا ہے۔ جس سے ادبیات عالم کا بیشتر حصہ بھرا پڑا ہے۔
اردو ادب میں حمد کی روایت
اردو ادب میں عقیدت و ایمان کے گلہائے معطر حمد یہ اشعار کی لڑیوں میں پرو کر باری تعالیٰ کے اوصاف حمد یہ اور اسمائے حسنہ کے ساتھ سجائے گئے ہیں۔
خدائے عز وجل کی حمد وثنا کے یہ نقش ہائے دل پذیر بے نظیر شعری پیکر میں ڈھل کر ادبی سرمائے میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔
اردو شاعری کے آغاز کی ایک اہم مثنوی فخروالدین نظامی کی تصنیف ” کدم راؤ پدم راؤ” ہے۔ نظامی نے اللہ کی حمد سے ہی قصے کا آغاز کیا۔
نظامی کے بعد شمس العشاق نے "خوش نغز "، خوش نامہ، شہادت التحقیق اور چہار شہادت تصنیف کیں ۔ ان سب میں مذہب و تصوف کی روح سمائی ہوئی ہے۔
شہادت التحقیق کا آغاز حمد یہ اشعار سے ہی ہوتا ہے۔ یہ حمد یہ اشعار دلوں کو گرما دیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں متصوفانہ عناصر زیادہ پائے جاتے ہیں۔
سولہویں صدی عیسوی میں شیخ بہا الدین با جن، سید شاہ، اشرف بیابانی، علی محمد جیو گام دھنی اور برہان الدین جانم نے بھی حسب روایت اپنے بیشتر کلام کی ابتداء حمد ونعت ہی سے کی ہے۔ مثلاً با جن کے یہاں سلیس اور دل آویز اسلوب میں لکھے ہوئے یہ اشعار ملاحظہ ہوں ۔
تیرا کوئی انت نیادے
ایک جوت سیس ہرادے
با جن لکھ نا لکھیا جاوے
ان اشعار میں انھوں نے کہا، اے خدا تیرا کوئی ” انت نہیں ہے اور ہم تیری عظمت و بزرگی کو کما حقہ بیان کرنے سے قاصر ہیں تو ایک ” جوت ہے۔ جس نے ہزاروں روپ اختیار کر لیے ہیں۔
سید اشرف بیابانی اس عالم فنا میں بھی سامان بقا کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ان کی نوسر ہار، واحد باری تعالیٰ اور قصہ آخری الزماں اللہ جل شانہ سے محبت اور عقیدت کی مظہر تصانیف ہیں۔
بالخصوص نوسر باز کا آغاز حمد یہ اشعار سے ہوتا ہے۔
الله واحد حق سبحان
جن یہ سرجیا بہو میں سمان
چندر سورج تارے روکھ
بادل کھلی مینہ اچوک
دوزخ جنت عرش فلکحیوان انسان ماده تران
آتش سوزاں باد بیران
گجرات کے مشہور صوفی شاعر "خوب محمد چشتی” نے اپنی تصنیف ” خوب ترنگ” میں بڑے فلسفیانہ انداز میں اللہ کی حمد وثنا کی ہے۔ ان کے یہاں حمدیہ اشعار میں روحانیت کے ساتھ ساتھ علمیت بھی پائی جاتی ہے۔ خوب ترنگ کی ابتدا ان حمد یہ اشعار سے ہوتی ہے۔
بسم اللہ کیوں چھت ذات
جس رحمن رحیم صفات
ذات صفات اسماء افعال
جمع مفصل چنہ اک حال
جس نسبت یہ عالم ہوئے
اسم الہی کہنے ہوئے
اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر "محمد قلی قطب شاہ "نے جہاں مختلف موضوعات پر نظمیں لکھی ہیں وہاں حمد ونعت بھی لکھی ہے۔ اللہ کی تجلیاتی صفات کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے:
چندر سور تیرے نور تھے، اس دن کوں نورانی کیا تیری صفت کن کر سکے ، تو آپی میرا ہے جیا
اس عہد میں بیسیوں مثنویاں مختلف موضوعات پر لکھی گئیں۔ اکثر کا آغاز حمد یہ اشعار سے ہوتا ہے۔ اردو شاعری
کے میر کارواں ولی دکنی کی شاعری کا بیشتر رنگ عاشقانہ تھا لیکن ان کے کلام میں ہلکا سا مذہبی رنگ بھی نمایاں ہے ولی کے ہاں حمد کے مختلف رنگ ظاہر ہوتے ہیں اور وہ خالق ارض و سما کے حضور مختلف انداز سے نغمہ سرا ہوتا ہے:
حسن تھا پردہ تجرید میں سب سوں آزاد
طالب عشق ہوا صورت انسان میں آ
عیاں ہے ہر طرف عالم میں حسن بے حجاب اس کا
بغیر از دیده حیراں نہیں جنگ میں نقاب اس کا اے ولی غیر آستانہ یار
جبہ سائی نہ کر خدا ہوں ڈر
دکن میں ولی کے معاصرین شعراء میں اورنگ آباد کے صوفی شاعر سراج الدین سراج منفرد اہمیت کے حامل ہیں۔ اوائل عمری میں ہی عشق کی سرشاری نے ان کے اندر جذب و محویت کی کیفیت طاری کر دی اور اسی عالم بے خودی میں اشعار کا چشمہ ان کی زبان سے پھوٹ پڑا۔
عشق کے والہانہ جذبے اور درویشانہ جذب و شوق پر جب سراج کے ہاں مذہب غالب ہوا تو ان کی شاعری توحید و معرفت کے حقائق کے بیان اور ندرت مضامین کے لحاظ سے بصیرت افروز بنی۔ ان کی شاعری واردات قلبی کا بہترین نمونہ ہے۔ اور اس میں حق سبحانہ تعالی کی صفات محمودی کا پر تو(عکس)نظر آتا ہے۔
عجب قادر پاک کی ذات ہے
کہ سب ہے نفی اور وہ اثبات ہے
دیا چاند سورج کوں نورونیا
فلک پر ستارے کیا خوش نما
اردو شاعری میں مرزا "محمد رفیع سودا "قصیدہ گوئی کے لیے مشہور ہیں ان کے ہاں مذہب و اخلاق کے مضامین کے بیان میں متانت و سنجیدگی حد درجہ پائی جاتی ہے۔ سودا کے نزدیک خدا کا اظہار کائنات کے ذرے ذرے میں ہے۔ وہ ہر
شخص کے دل میں موجود ہے لیکن اسے دیکھنے کے لیے دل بینا کی ضرورت ہے۔
کیا مچائی ان نے میرے دل کے کاشانے میں دھوم
شور ہے جس کے لیے کیے میں، بت خانے میں دھوم
حمد یہ شاعری کی پرورش و پرواخت میں خانقاہوں کا نظام بھی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ وجد و سماع کی محفلوں کے انعقاد کا مقصد خود فراموشی اور ذکر اللہ رہا۔
خواجہ میر درد ایک صوفی شاعر تھے۔ اور ان کی شاعری خانقاہی تھی ۔ خواجہ میر درد تصوف کے اس کتبے کے اسیر دکھائی دیتے ہیں۔ جس کے تحت تمام کائنات میں اللہ تعالی کی جلوہ نمائی ہے اور مجموعی طور پر تمام جہاں خدا تعالی کی ہستی کا عکاس ہے۔ درد اپنے دیوان کی ابتدا ہی حمد سے کرتے ہیں۔
مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کے رقم کا
حق که خداوند ہے تو لوح قلم کا
اس مند عزت پر کہ تو جلوہ نما ہے
کیا تاب گزر ہو دے تعقل کے قدم کا
لوح و قلم هم حور و ملک
حواشی
موضوع۔۔۔۔اردو میں حمد کی روایت کتاب کا نام۔۔۔۔شعری اصناف کورد کوڈ۔۔۔۔۔9003 صفحہ نمبر۔۔۔۔۔10تا 12 مرتب کردہ۔۔۔کوثر بیگم فخر عالم مشائخ اُردو میں حمد کی روایت