افسانہ اندھیرا کا تنقیدی جائزہ | Afsana Andeehra ka tanqidi jaiza
تحریر: علی حنظلہ اور مریم اشرف
موضوعات کی فہرست
افسانہ اندھیرا کا مجموعی جایزہ
غلام عباس کے موثر افسانوں میں "اندھیرے میں” کا بھی نام لیا جا سکتا ہے۔اس افسانے میں ایک نوجوان اور اس کے بوڑھے باپ کی کہانی بیان کی گئی ہے۔
اس میں وارد ہوئے کرداروں کو کوئی مخصوص نام نہیں دیا گیا ہے۔ایک بوڑھا شرابی ہے جو ہر وقت نشے میں دھت رہتا ہے جبکہ اس کا جوان بیٹا پابند صوم و صلاۃ ہے۔اس کے چھوٹی سی داڑھی ہے سر پر ٹوپی اور نیک خصلت نوجوان اپنے باپ کو ہر وقت سمجھاتا رہتا ہے مگر شرابی باپ کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔
ایک دن تنگ اکر نوجوان گھر چھوڑنے کو تیار ہو جاتا ہے۔مجبورا باپ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اب کبھی شراب نہیں پیے گا۔مگر نوجوان کسی طرح ماننے پر رضامند نہیں ہوتا اور بوتل اپنے بڈھے باپ سے مانگ لیتا ہے۔مجبور ہو کر باپ کہتا ہے "بیٹا!بوتل بھری ہوئی ہے اگر اسے بیچ دو تو تین چار روپے مل ہی جائیں گے۔یوں پھینکنے سے کیا فائدہ۔”
اس افسانے کے اخری جملوں سے غلام عباس کی فن افسانہ نگاری پر مضبوطی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے اور انہی سے افسانے کا انجام سامنے اجاتا ہے۔
"رات کے کوئی ڈھائی بجے ہوں گے کہ نوجوان لڑکھڑاتا ہوا اپنے گھر کے دروازے پر پہنچا اور بے تحاشہ کواڑ کھٹکھٹانے لگا۔باپ انتظار کرتے کرتے سو گیا تھا اواز سنتے ہی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ "کون؟”
"میں۔۔۔۔”
ایک بھدی سی اواز جو انسان سے زیادہ حیوان کی اواز سے ملتی جلتی تھی۔ نوجوان نے جواب دیا۔دروازہ کھلا باپ کی نظر بیٹے کے خالی ہاتھوں پر پڑی
"بیچ آئے؟” "اونہہ” اور نوجوان نے بے تکا قہقہہ لگایا۔
"کیا ہوئی پھر ؟”
"یہ رہی۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔۔”
بڈھے کا منہ کھلے کا کھلا اور انکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
غلام عباس کا یہ افسانہ ایک شاہکار افسانہ ہے اس افسانے میں کہانی ایک زوایے پر چلتی ہے۔
فنی جائزہ
اسلوب
اس افسانے کا اسلوب سادہ ہے ایک قاری کو بہت متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ حیرت میں بھی ڈالتا ہے۔
پلاٹ
پلاٹ اکہرا ہے کہانی ایک زوایے پر چلتی ہے اور آخر میں کہانی جو ہے وہ تجسس کا شکار ہے۔
منظر نگاری
اس افسانے میں منظر نگاری آیک گھر کی ہے ایک باپ اور بیٹے کی ہے
جزئیات نگاری
اس میں جزئیات نگاری بھی پائی جاتی ہے جس میں شراب کی بوتل اوہ دروازے تک کے کھلنے کا عمل ہے۔
فکری جائزہ
اصلاح
اس میں ایک نوجوان اپنے والد کی اصلاح کرتا ہے اس کو شراب سے اجتناب اور سیدھے رستے پر چلنے کا درس دیتا ہے۔
برائی کی تباہی
اس کا بوڑھا باپ شراب کی برائی میں اس قدر گم ہوتا ہے کہ دین کے رستے سے ہٹ کر تباہی کے راستے پر کھڑا ہے
حقیقت
اج کے معاشرے میں برائی عام ہے کرنے والے بہت ہیں لیکن روکنے والا کوئی نہیں لیکن جب باپ سہی راستے پر نہیں آتا تو بیٹا بھی اسی راستے پر چل پڑتا ہے پھر باپ کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کس قدر تباہ ہو گیا ہے۔