غزل: سانول رمضان

غزل: سانول رمضان

وقت بے وقت صحرا کے ٹیلوں کی صورت اے شکلیں بدلتی ہوئی روشنی !
آ دکھاوں تجھے دل کی درزوں سے چھن چھن چھنا چھن نکلتی ہوئی روشنی

چودھویں رات سا ہر طرف ہے سماں، چاند نکلا مگر چھپ رہا شام سے
تو نے گھونگھٹ اٹھایا ہے حیرت میں گم سر تا پا آنکھیں ملتی ہوئی روشنی

اک زمانہ ہوا آنکھیں موندھے ہوئے، کب تلک ان اندھیروں میں بھٹکیں گے ہم
ڈوبے سورج کی کب واپسی ہے بتا، غیر دیپک میں جلتی ہوئی روشنی!

تیری آشا میں نکلے تھے پروانے گھر سے سبھی الجھنوں کو سمیٹے ہوئے
ان کے زخموں کا کوئی مداوا ہوا یا نہیں اے پگھلتی ہوئی روشنی

حبس موسم میں جیتے رہے اس لیے تاکہ یہ جھلملاتی رہے چار سو
باد سحری تلک کو نہ چلنے دیا، ورنہ کیا تھی اچھلتی ہوئی روشنی

سانول رمضان🍀
M Sanwal Ramzann

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں