غزل: میں نہ مانا، وہ تو کہتی رہی اچھا کر لے

میں نہ مانا، وہ تو کہتی رہی اچھا کر لے
میں بکھرتی ہوئی دھن ہوں مجھے یکجا کر لے

ہر طرف پھیل چکے ہیں مری حسرت کے نقوش
میں ‌ہوں کھلتا ہوا منظر مجھے دھندلا کر لے

دھوپ بڑھنے سے کبھی سائے نہیں کم ہوتے
جا کے آکاش سے کہہ دو جو ہے کرنا کر لے

میں جو اک عمر سے اِس جسم کی تحویل میں ہوں
اس سے بہتر ہے مجھے موت ہی اپنا کر لے

دسترس پوری نہیں دیتا کسی کو مجھ تک
بس اگر اس ‌ کا چلے کاٹ کے آدھا کر لے

مری خواہش ہی رہی دوست کوئی شہزادی
کسی دن آئے کہیں سے، مجھے اغوا کر لے

سانول رمضان || M Sanwal Ramzan

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں