غزل کی تعریف،مفہوم،اقسام اور لوازمات
موضوعات کی فہرست
؎ غزل اس نے چھیڑی ہے مجھے ساز دینا
زرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا
صفیؔ لکھنوی
؎ ہم غزل میں جو حرف و بیاں بناتے ہیں
ہوائے غم کے لیے کھڑکیاں بناتے ہیں
احمد مشتاق
فیروز اللغات کے مطابق: غزل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں "عورتوں سے باتیں کرنا” یا پھر” عورتوں کے متعلق باتیں کرنا”
لغات کشوری میں تصدق حسین کہتے ہیں۔ "غزل عربی کا ایک مصدر ہے۔ جس کے معنی ہیں سوت کاتنا”
یہ بھی پڑھیں: اردو غزل کا تہذیبی مطالعہ | PDF
ڈاکٹر اشفاق احمد ورک اور ڈاکٹر علی محمد خان اپنی کتاب "اصناف نظم و نثر” میں یوں رقم طراز ہیں۔
"غزل عربی زبان کے لفظ غزال سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں ہرن کا بچہ ۔ جب غزال شکاری جانور کے شکنجے میں آ جاتی ہے تو اس وقت اس کے حلق سے ایک درد بھری آواز نکلتی ہے۔ جسے غزل کہتے ہیں”
یہ بھی پڑھیں: محاکات اور تغزل کی تعریف وضاحت اور مثالیں
غزل اصطلاحی تعریفات
اصطلاح میں غزل وہ صنفِ سخن ہے۔ جس میں حسن و جمال، لب و رخسار ، عشق و عاشقی ،شراب و شباب اور ہجر وصال کا تذکرہ سلیقے سے کیا جائے ۔
غزل کی دوسری تعریف ہم یوں کر سکتے ہیں۔
غزل شاعری کی وہ قسم ہے جو پانچ ،سات ،نو ،گیارہ یا اس سے ذیادہ اشعار پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کا پہلا شعر مطلع ہوتا ہے ۔جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔جب کہ دیگر اشعار کے دوسرے مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔با اعتبارِ موضوع غزل کا ہر شعر مکمل مضمون کا حامل ہوتا ہے۔۔
غزل کے موضوعات
جہاں تک غزل کے موضوعات کا تعلق ہے تو ان پر کوئی پابندی نہیں۔ ابتدا میں غزل صرف عشق و عاشقی کے اظہار تک محدود تھی لیکن اب ایسی کوئی پابندی نہیں ہے ۔جدید شعرا غزل میں عشق و محبت ،ذاتی دکھ درد ،فلسفہ،نفسیات،سائنس ،مذہب ،معاشرت، سیاست الغرض دنیا جہان کے سبھی موضوعات پر طبع آذمائی کر رہے ہیں۔
غزل کے لوازمات
1: غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔
2: پہلے شعر کے بعد دوسرے شعر کے دونوں مصرعے بھی ہم قافیہ ہوں تو اسے حسنِ مطلع ،زیبِ مطلع یا مطلع ثانی کہتے ہیں۔ غزل میں تین مطلعے آ سکتے ہیں۔
3: غزل کے اشعار کی تعداد کم از کم پانچ اور ذیادہ سے ذیادہ کوئی حد نہیں ۔لیکن غزل کے اشعار ہمیشہ طاق میں ہونے چاہیے۔
4: غزل کے سب سے بہترین شعر کو بیت الغزل کہا جاتا ہے۔ غزل کا کون سا شعر عمدہ ترین ہے۔ اس کا انحصار قاری یا سامع کے ذوقِ سلیم پر ہے۔
5:غزل کے آخری شعر کو جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے مقطع کہلاتا ہے۔اگر آخری شعر میں شاعر تخلص استعمال نہ کرے تو وہ آخری شعر ہو گا مقطع نہیں کہلائے گا۔
6: تغزل کو غزل کی روح کہا جاتا ہے۔ ابوالاعجاز حفیظ صدیقی تغزل کی تعریف یوں کرتے ہیں۔
"شعر کے عام اوصاف کے علاوہ غزل کے شعر میں بعض خاص عناصر ہوتے ہیں۔ مثلاً نفاست و نزاکت،بذلہ سنجی،رمز و ایما،تعمیم ، بے ساختگی اور جذبے کا سوز و گداز۔۔ان عناصر کے مجموعے کو تغزل کہا جاتا ہے ۔
غزل کی چند مشہور اقسام
مردف غزل: جس غزل میں قافیہ کے بعد ردیف بھی لائے جائیں مردف غزل کہلاتی ہے۔
؎ بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا
غلام محمد قاصر
غیر مردف غزل: ایسی غزل جس میں قافیہ تو ہو لیکن ردیف نہ ہو۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے یہ درویش کو تاجِ دارا
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
اقبالؔ
مسلسل غزل: جس غزل کے تمام اشعار ایک ہی موضوع کے ہوں۔
غیر مسلسل غزل: ایسی غزل جس کا ہر شعر علاحیدہ مضمون کا حامل ہو۔
قطعہ بند غزل: ایسی غزل جس میں مطلع کے بعد چند اشعار ایک ہی موضوع کے ہوں قطعہ بند غزل کہلاتی ہے۔
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آ گیا
یکسر وہ استخواں شکستوں سے چور تھا
کہنا لگا کے دیکھ کے چل راہ،بےخبر
میں بھی کبھو کسی کا سرِ پُر غرور تھا
میر تقی میر
پابند غزل: جس غزل میں بحر کی پابندی کی جاتی ہے پابند غزل کہلاتی ہے۔
؎ یہ نہ تھی ہماری قسمت کے وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
غالبؔ
آذاد غزل: آذاد غزل میں قافیہ کی پابند تو کی جاتی ہے لیکن بحر کی نہیں آذاد غزل کے مصرعے چھوٹے بڑے ہو سکتے ہیں۔ آذاد غزل کے موجد "مظہر امام”(بھارتی شاعر) ہیں۔
؎ کیوں نگاہوں نے کیا ہے آپ ہی کا انتخاب
کیا زمانے بھر میں یکتا آپ ہیں
(مظہر امام )
موضوع: 🌹🌹🌹 غزل ( Gazal)
مرتبہ 🖋️ ساغر علی ارداسؔ
✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨✨