غزل: میں مر کر بھی زندہ ہی پایا گیا ہوں | Ghazal: Even After Death, I Was Found Alive
میں مر کر بھی زندہ ہی پایا گیا ہوں
سنا تھا میں مرنے کو لایا گیا ہوں
سخن میرا اور ذکر تیرا تھا باہم
تبھی تو میں اونچا سنایا گیا ہوں
کبھی پوچھ مجھ سے کہ تجھ کو بتاؤ
نہ تھا جو وہ تم کو بتایا گیا ہوں
تری محفلوں میں بھی ویرانی جھانکے
میں محفل سے تیری اٹھایا گیا ہوں
نہ تھا کچھ مگر خاص تھا دل میں میرے
جو ہر طرز پر میں جلایا گیا ہوں
رموزِ جمالت کی سی جستجو میں
کئ چہروں پر میں رلایا گیا ہوں
اسی واسطے مجھ کو پتھر پڑے ہیں
شجر جو سمجھ کر اگایا گیا ہوں
کبھی آ نکھ کھلتی کبھی آ نکھ لگتی
میں تو نیند میں بھی ستایا گیا ہوں
کہیں میں حقیقت کو رد ہی نہ کر دوں
کئ خوابوں سے میں جگایا گیا ہوں
کہاں جائوں اب زندگی کو اٹھائے
میں کم بخت قاسم ستایا گیا ہوں