کتاب کا نام ۔۔۔میر و غالب کا خصوصی مطالعہ ۔۔۔۔
کورس کوڈ ۔۔۔۔۔5612
موضوع ۔۔۔۔ غالب کی شاعری میں معنی آفرینی
صفحہ نمبر۔۔۔ 138.142
مرتب کردہ۔۔۔ الیانا کلیم 🌼
غالب کی شاعری میں معنی آفرینی
غالب بڑے ذہین آدمی تھے۔ ان کی ذہانت سے مضمون آفرینی یا معنی آفرینی کے بیسیوں طریقے ایجاد کیے۔ اخیر عمر میں ان کی قوت سماعت جاتی رہی ۔ بہرے ہو گئے اور کوئی بات دہرائے بغیر سن نہیں پاتے تھے۔ اُنھوں نے اپنے اس نقص اور معذوری کو بھی اپنے ایک فائدے کا ذریعہ بنا لیا۔ محبوب سے کہتے ہیں کہ اب جبکہ میں بہرا ہو چکا ہوں مجھے زہری توجہ کی ضرورت ہے۔ جو بات مجھ سے کہی جائے دو مرتبہ کہی جائے کیونکہ جب تک بات قدرے بلند تر آواز سے دوسری مرتبہ نہیں کہی جاتی ہیں سن نہیں پاتا :
بہرا ہوں میں تو چاہیے دونا ہو التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر
عام طور پر بہرے لوگ دوسری مرتبہ کہی ہوئی بات سنتے ہیں۔ اس طریق گفتگو میں غالب کا فائدہ یہ ہے کہ محبوب کی شیریں آواز دو مرتبہ سکنے ، میں آتی ہے۔ ایک مرتبہ قدرے آہستہ آواز ۔ دوسری مرتبہ قدرے بلند آواز ۔ سب کو معلوم ہے کہ غالب شراب پیتے تھے۔ وہ اپنی عادت کی بنیاد پر ایک ظریفانہ مضمون تراشتے ہیں:
کہاں میخانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
کہتے ہیں کہ واعظ کا میخانے سے کیا تعلق؟ میخانے کے دروازے اور واعظ کے درمیان عام طور پر بڑا فاصلہ تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے کل میخانے سے نکلتے ہوئے واعظ کو وہاں داخل ہوتے دیکھا۔ بظاہر غالب واعظ کے خلاف کچھ نہیں کہتے ۔ دراصل واعظ کا میکدے میں داخل ہونا ہی اپنی جگہ پوری کہانی ہے۔ میکدے میں اس کے داخل ہونے سے ظاہر ہو گیا کہ واعظ کا متقی اور پارسا ہونا ضروی نہیں ۔ ہم جیسے عام آدی کی طرح وہ بھی شراب نوش ہو سکتا ہے۔ یہ شعر طنز اور ظرافت کے امتزاج کی ایک اچھی مثال ہے۔ میکدے میں واعظ کا داخل ہونا محض ایک واقعہ . نہیں بلکہ اس واقعے پر ایک طنزیہ تبصرہ بھی ہے۔ عام طور پر واعظ سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ میکدے میں جائے گا۔ لیکن میکدے میں اس کا جانا اس بات کا غماز تھا کہ وہ بھی چھپ چھپا کے شراب نوشی کرتا ہے۔ عہد حاضر کے ایک شاعر وہ نشور واحدی نے ایسے ہی موقع کے لیے کہا ہے :
نشور آلوده عصیاں سہی پھر کون باقی ہے
یہ باتیں راز کی ہیں قبلہ عالم بھی پیتے ہیں
اس شعر میں یا غالب کے شعر میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جس طبقے کے لوگوں کو پارسا اور پر ہیز گار سمجھا جاتا ہے ان کی پارسائی اور پرہیز گاری اتنی حقیقت نہیں جتنی ہماری خوش گمانی اور ہمارا حسن ظن ہے۔ زیادہ تر انسان ایک ہی طرح ہوتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ لوگوں کے دامن کی داغ داری پوشیدہ ہوتی ہے اور کچھ لوگوں کی داغ داری عیاں۔
غالب اور نشور کے شعر حقیقت اور صداقت سے بہت قریب ہیں۔ اس قسم کی حقیقتوں اور صداقتوں نے انسان کے حسن ظن کو دھی کا ضرور لگتا ہے۔ غالب کے شعر کا پہلا مصرع دھچکے کی عکاسی بھی کر رہا ہے۔ رہا۔
واعظ کا میکدے میں جاتا بننے کی بات تو ضرور ہے لیکن اس میں واقعیت کم ہے۔ اگر کسی واعظ کو شراب نوشی کی عادت پڑ بھی جائے تو اس کی کوشش یہ ہوگی کہ وہ چھپ چھپا کر شراب پی لے نہ کہ شراب پینے کے لیے میکدے میں داخل ہو جائے جہاں اس کی رسوائی یقینی ہے۔ لیکن غالب نے ظرافت پیدا کرنے کے لیے ایسے مضمون بھی باندھے ہیں جن میں واقعیت کی کمی نظر نہیں آتی ۔ مثلاً اس شعر کو دیکھیے :
میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تبہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں
ہر عاشق کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ جہاں وہ ہو اور اس کا محبوب ہو وہاں رقیب نہ ہو۔ ایک عاشق نے محبوب کی محفل میں رقیب کو دیکھا اور محبوب سے کہا کہ آپ کی محفل کو غیر یعنی رقیب سے خالی ہونا چاہیے ۔ محبوب ستم ظریف واقع ہوا تھا اور اس کا میلان خاطر بھی رقیب ہی کی طرف تھا۔ چنانچہ اس نے عاشق سے کہا۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔ میری محفل میں رقیب کو نہیں ہونا چاہیے۔ لہٰذا تم اٹھو اور اپنے گھر جاؤ ۔ عاشق کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے گا۔ اس سلوک پر عاشق کے ساتھ ہمدردی اتنی نہیں ہوتی جتنی ہنسی آتی ہے۔ ظریفانہ عصر کے لحاظ سے یہ شعر غالب کے بہترین شعروں میں سے ہے۔
عاشق اور محبوب کے درمیان جو معاملات ہوتے ہیں ان میں غالب نے ظرافت کے بڑے دلچسپ پہلو نکالے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں:
نہ کہو طعن سے پھر تم کہ ہم ستمگر ہیں
مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو بجا کہیے
اردو شاعری ( اور فارسی شاعری میں بھی محبوب کا ایک تصور ظالم کا تصور ہے۔ وہ بے رحم، بے درد اور ستم گر سمجھا جاتا ہے۔ اس کا کام عاشق کو صرف ستانا ہی نہیں بلکہ اسے قتل تک کر دینا ہے۔ ایک حد تک یہ تصور صیح ہو تو اس کے بعد مبالغہ آمیز اور مضحکہ خیز ہو جاتا ہے۔ مثلاً اگر محبوب عاشق کے سامنے نہیں آتا تو یہ بھی عاشق پر ایک طرح کا ظلم ہے گو یہ ظلم محبوب کی اس مجبوری کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے ہاں پردہ داری کا رواج سخت ہو۔ لیکن محبوب کو عام ظالموں کی طرح بے رحم اور بے درد دکھانا دراصل عاشق کا ظلم محبوب پر ہے۔ ویسے جہاں تک اردو شاعری کا تعلق ہے اس میں محبوب ہی کو ظالم مانا گیا ہے۔ کسی موقع پر کسی محبوب نے اپنے عاشق سے طنزاً کہا کہ ہاں بھئی ہم تو ستم گر ہیں ہی۔ یعنی ہم ستم گر تو نہیں ہیں لیکن آپ کہتے ہیں تو خیر یوں ہی سہی۔ اس پر غالب جیسا ذہین عاشق کہتا ہے دیکھیے اپنے آپ کو ستم گر نہ کہیے ورنہ آپ کے لیے یہی لفظ میری زبان سے بھی نکل جائے گا کیونکہ مجھے تو یہ عادت ہے کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں میں اسے بجال درست ، جائز ) کہتا ہوں ۔ ایسی صورت میں میرا آپ کو ستم گر کہنا الزام دینے کے برابر نہ ہوگا بلکہ خود آپ کے قول کی تائید کے برابر ہوگا۔ اس شعر میں عاشق اور محبوب کے درمیان جو مکالمہ ہے وہ ظرافت پر مبنی ہے نہ کہ طنز پر۔
غالب نے عشق و عاشقی سے ہٹ کر بھی یعنی دوسرے موضوعات کے حوالے سے بھی اپنی شاعری میں ظرافت پیدا کی ہے۔ ایک شعر میں تو اس کمال کا مظاہرہ بھی ہے کہ اگرچہ شعر ایک غزل کی شکل میں ایک مریے کا شعر ہے لیکن اس کے باوجود مضمون ایسا باندھا ہے کہ اس شعر کو پڑھتے وقت غم کی بجائے مزاح کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ غالب کی سواغ عمری سے متعلق یونٹ میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ ان کے سات بچے پیدا ہوئے اور ان میں سے کوئی زندہ نہ رہا۔ اس لیے اُنھوں نے اپنے ایک ہم زلف غلام حسین خان سرور کے بیٹے زین العابدین خاں کو متعینی کر لیا۔ زین العابدین بڑے ہو کر خوش فکر شاعر بنے اور اپنے نانا الہی بخش خاں معروف کے تخلص کی رعایت سے عارف تخلص اختیار کیا۔ مگر عارف جوانی ہی میں اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ ہر شخص میں کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی ہے۔ عارف کی کمزوری غالبا یہ تھی کہ وہ کسی سے قرض لیتے تھے تو قرض کی واپسی کے معاملے میں قرض خواہ کو ٹالتے رہتے تھے۔ ان کی اس کمزوری کے پیش نظر غالب نے کیا دلچسپ شعر کہا :
تم کون سے ایسے تھے کھرے دادو ستد کے
کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور
یعنی تم لین دین کے معاملے میں کوئی کھرے (صاف معاملہ ) آدمی تو تھے نہیں۔ لہذا تم نے اپنی موت کے معاملے میں بھی اپنی اس عادت سے کام لیا ہوتا۔ جب موت کا فرشتہ تمھارے پاس تمہاری جان لینے کے لیے آیا تھا۔ تو تم نے اپنی عادت کے مطابق لیت ولعل سے اے ٹال دیا ہوتا اور وہ کچھ عرصے تک تمہاری جان کے لئے تقاضا کرتا رہتا ۔ مگرافسوس کہ تم نے ایسا نہیں کیا۔
غالب نے اس غزل نما مر جیسے میں قیامت کے دوتین شعر کہے ہیں۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں عارف سے کتنی شدید محبت تھی۔ان اشعار میں شاعری کی بلندی اور محبت کی شدت دیکھنے کے قابل ہے مثلاً
لازم تھا کہ دیکھو مرا راستہ کوئی دن اور
تنہا گئے کیوں؟اب رہو کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ہائے اے فلکِ پراجوان تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش وناخوش
کرنا تھا جواں مرگ،گزارا کوئی دن اور
اگر چہ غالب کے مذہبی عقائد عام لوگوں سے کچھ مختلف عقائد تھے۔ ان کے ہاں شیعہ سنی عقائد کا امتزاج نظر آتا ہے۔ شیعہ ہونے کے باوجود وہ تصوف کے قائل اور شاعر تھے۔ لیکن بہر صورت وہ ایک مذہبی آدمی تھے۔ اس کے باوجود وہ روزے نہیں رکھتے تھے۔ ممکن ہے وہ زندگی کے کسی دور میں روزے رکھتے بھی ہوں اور کسی دور میں اُنھوں نے روزے رکھنا ترک بھی کر دیے ہوں وہ بھی عقیدے میں تبدیلی کی بنا پر نہیں بلکہ کسی جسمانی یا مالی معذوری کی بنا پر ایک شعر میں اُنھوں نے روزے نہ رکھنے کو اپنے مالی حالات کا نتیجہ قرار دیا ہے لیکن اس طرح کہ شعر میں ظرافت کی شان پیدا ہوگئی ہے :
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزه اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
غالب کے حالات سے خصوصاً غدر کے بعد کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی زبوں حالی کبھی کبھی اس مرحلے تک بھی پہنچی ہو کہ وہ رمضان کے زمانے میں افطار کا انتظام نہ کر سکتے ہوں۔ ایسی حالت میں وہ روزے کیا رکھتے ۔ فاقہ کش انسان روزے کو بھی کھا جاتا ہے کیونکہ وہ روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے۔ ناچار کا قافیہ غالب کے بعد اگر کسی شاعر نے بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے تو وہ ہیں ظریف الطبع شاعرا اکبرالہ آبادی ان کا ایک شعر ہے۔
بوڑھوں کے ساتھ لوگ کہاں تک وفا کریں
بوڑھے جو مرنہ پائیں تو ناچار کیا کریں
غالب کی نظر اردو کے عام شعرا کی طرح صرف حسن و عشق کے معاملات پر مرکوز نہ تھی۔ اُنھوں نے مذہب اور خدا کے حوالے سے بھی بہت سے شعر کہے ہیں۔ کہیں کہیں مزاحیہ شعر اور کہیں کہیں طنزیہ شعر بھی ۔ ان کے بہترین طنزیہ شعروں میں بھی وہ بلندی اور لطافت ملتی ہے جو ان کے مزاحیہ اشعار میں موجود ہے۔
مغلیہ سلطنت کا آخری دور انتظامی امور میں جس تاخیر و تاویل کا نمونہ ہوگا اس کا تصور کیا جاسکتا ہے کیونکہ ہم لوگ بھی انحطاط وز دال ہی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ زندگی اور حکومت کے ہر شعبے کی حالت خراب ہے۔ وعدوں میں کوئی استواری نہیں۔ انتظام میں کوئی مستعدی نہیں ۔ غالب نے کسی موقع پر اس صورت حال کی شکایت کی تو کسی نے مشورہ دیا کہ اب اپنی حاجت روائی کے لیے اپنے حال خدا سے کہیں نہ کہ خدا کے بندوں سے۔ اس پر انھیں خیال آیا کہ خدا تو خود ہی صبح و شام کرنے والی ہستی ہے۔ وہ بھلا میری مدد جلد سے جلد تر کیا کرے گا۔ صبح و شام کرنے کے محاورے سے غالب نے کیا خوب فائدہ اٹھایا اس محاورے کے معنی ہیں لیست واعل کرنا ۔ وعدہ وعید کرنا ۔ ٹالتے رہنا۔
عام آدمیوں کے ذہن میں کعبے سے بتوں کی کوئی نسبت نہیں آسکتی۔ لیکن غالب کے شاعرانہ ذہن نے یہ نسبت ڈھونڈ نکالی کہ ایک زمانے میں کعبہ بتوں کا گھر تھا۔ وہاں بے شمار بہت رہتے تھے۔ جب اسلام آیا تو کعبے سے بہت نکالے گئے ۔ اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے غالب کہتے ہیں کہ اب اگر چہ بت کعبے میں نہیں رہتے لیکن انھیں بھی کعبے سے ایک دور کی نسبت ہے :
گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی۔۔۔
اس شعر کو پڑھتے وقت غالب کے ذہن کی شوخی پر آدمی مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اچھی ظرافت کی ایک پہچان یہ بتائی جاتی کے شوخی پر بغیر ہے کہ وہ تبسم آفریں ہوتی ہے نہ کہ قہقہہ آفریں
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں