غالب کی شاعری کا فکری اور صوفیانہ عناصر پر بحث

غالب کی شاعری کا فکری اور صوفیانہ عناصر

غالب کا تصور عشق حقیقی و مجازی

غالب کی شاعری کا فکری اور صوفیانہ عناصر پر بحث، کلام غالب میں جس قسم کا عشق ملا ہے وہ عشق کا وسیع تر تصور ہے۔ عشق حقیقی اور عشق مجازی میں غالب کے نزدیک کوئی امتیاز نہ تھا۔ وہ صوفی اس گردانتے ہیں کہ جو کائنات کی ہر چیز میں جلوہ ربانی کا نظارہ کرے۔

منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی

قسمت کھلی ترے قدد رخ سے ظہور کی

ایسے اشعار کی غالب کے ہاں کمی نہیں۔ اسی شعر پر غور کرنا دووراس نتائج تک پہنچا سکتا ہے-

گوپی چنگ نارنگ کے بقول :

عشق کا بنیادی جذبہ میر کی طرح غالب کے ہاں بھی مجازی ہے ۔مگر ان دونوں کے ہاں عشق و محبت کے انسانی جذبات کی سطحیں ان کی الگ الگ شخصیت اور تخلیقی وجدان سے باہم مختلف ہے۔ غالب کی عشقیہ شاعری میں ایسے لمحے نہ ہونے کے برابر ہیں جہاں دل پر قابو نہ رہے۔


ان کی انانیت انہیں ہر وقت لیے دیے رہتی ہے۔ ان کے ہاں عشق ایک فطری تقاضا ہے جس کی تسکین ضروری ہے۔ اس میں جذباتیت سے زیادہ عقلیت ہے اور روحانیت سے زیادہ مادیت

غالب کا تصور عشق حقیقی و مجازی

کلام غالب میں جس قسم کا عشق ملا ہے وہ عشق کا وسیع تر تصور ہے۔ عشق حقیقی اور عشق مجازی میں غالب کے نزدیک کوئی امتیاز ن تھا۔ وہ صوفی اس گردانتے ہیںکہ جو کائنات کی ہر چیز میں لوہ ربانی کا نظارہ کرے۔

یہ بھی پڑھیں: منظوم ترجمے کی نارسائی اور فکر غالب کی تفہیم | pdf

منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی

ترے قدد رخ سے ظہور کی قسمت کھلی ترے قدد رخ

ایسے اشعار کی غالب کے ہاں کی نہیں۔ اسی شعر پر غور کرنا دو ور ا نتائج ایک پہنچا سکتا ہے۔ 6

یہ بھی پڑھیں: غالب کی شاعرانہ خصوصیات pdf

گوپی چنگ نارنگ کے بقول :

عشق کا بنیادی جذبہ میر کی طرح غالب کے ہاں بھی مجازی ہے مگر ان دونوں کے ہاں عشق و محبت کے انسانی جذبات کی مسلمیں ان کی الگ الگ شخصیت اور تخلیقی وجدان سے باہم مختلف ہے۔

غالب کی عشقیہ شاعری میں ایسے لمحے نہ ہونے کے برابر ہیں جہاں دل پر قابو نہ رہے۔ ان کی انانیت انہیں ہر وقت لیے دیے رہتی ہے۔ ان کے ہاں عشق ایک فطری تقاضا ہے جس کی تسکین ضروری ہے۔ اس میں جذباتیت سے زیادہ عقلیت ہے اور روحانیت سے زیادہ مادیت

دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز

پھر ترا وقت سفر یاد آیا

حواشی

غالب کی شاعری کا فکری اور صوفیانہ عناصر پر بحث

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں