غالب کی غزل ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے کی تشریح

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے کی تشریح

غالب کی غزل

                 (1)

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے !

تمھی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے!

میں جونہی کوئی بات کرنے لگتا ہوں۔ تم فوراً بول اٹھتے ہو تم کون ہو، یعنی تمھاری حقیقت کیا ہے ! اب تم خود ہی بتاؤ بھلا ایسے کیسے میں اپنی بات کروں ، اپنے دل کا غم سناؤں۔ شاعر نے محبوب کے رویے کو خوبصورتی سے بیان کر دیا ہے کہ وہ کس قدر نالاں اور تلخ نوا ہے۔

غالب کو عموماً مشکل پسند شاعر کہا جاتا ہے مگر یہ پوری غزل غالب کے اُس دور کی ہے۔ جب وہ نہایت آسان لہجے میں ، شگفتہ انداز سے شعر کہنے لگے تھے۔ اس شعر میں بظاہر کوئی گہرا فلسفہ نہیں مگر محبوب کی بے وجہ ناراضی اور حد درجہ غیر شائستگی کے رویے کو عیاں کیا گیا ہے۔

                        (۲)

نہ شعلہ میں یہ کرشمہ ،نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہے !

یہاں شاعر اپنے محبوب کو بجلی اور شعلے سے تشبیہ دینا چاہتا ہے مگر وہ ان دونوں میں محبوب کی ادائیں اور خاصیتیں نہیں پاتا۔ گویا ایک لمحے میں اُسے محبوب کی شعلہ مزاجی اور عشوؤں میں بجلی کی سی تیزی و طراری نظر آتی ہے مگر دوسرے ہی لمحے وہ سوچتا ہے کہ بھلا بجلی اور شعلہ محبوب کی طرح کیسے ہو سکتے ہیں۔ شاعر پر جو بجلی اور شعلے کی خاصتیوں نے محبوب کے جلوؤں سے متاثر کیا ہے وہ کسی اور سے کہاں مطمئن ہو سکتا ہے۔

اب شاعر سوال کرتا ہے کہ وہ شوخ تندو، پھر کیا ہے؟ شعلے میں اُس جیسے کرشمے نہیں اور برق میں اس جیسی ادائیں نہیں تو پھر میرا محبوب جیسا کون ہے؟ شاعر اس طرح اپنے محبوب کو سب سے مختلف اور نمایاں دکھانا چاہ رہا ہے۔

                   (۳)      

یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنه خوف بد آموزی عدو کیا ہے !

شاعر کہتا ہے کہ مجھے صرف یہ رشک ہے کہ تم میرے دشمن سے باتیں کر رہے ہو۔ یہ باتیں مجھ سے کرنی چاہیے تھیں۔ مجھے صرف اس پر رشک آ رہا ہے ورنہ مجھے اس بات کا قطعاً کوئی خوف نہیں کہ میرا دشمن تم جیسے محبوب کو غلط راستے پر ڈال دے گا۔ شاعر اپنے محبوب کو مضبوط ارادے کا مالک سمجھتا ہے۔

غالب نے ایک منفر دنکتہ نکالا ہے کہ اسے رشک نے تنگ کیے ہوئے ہے، ورنہ وہ محبوب کی پختہ ارادیت سے آگاہ ہے اور وہ کسی عدو کے بہکاوے میں نہیں آئے گا۔

                   (۴)

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے !

جس زخم سے خون نکل آئے اور اس سے کپڑا تر ہو جائے ۔ وہ بدن کے تمام چاک وغیرہ کو ڈھانپ لیتا ہے۔ اگر قمیص کہیں سے پھٹی ہوئی بھی ہو تو لہو کے چپکنے سے وہ عیاں نہیں ہو پاتی۔ یہ بہت مختلف مضمون ہے۔

غالب کہہ رہا ہے کہ مجھے اپنے گریبان کو سینے کی حاجت ہی نہیں رہی۔ گریبان پھٹنا سے مراد ہے کہ محبوب کو پانے کی تگ و دو میں مصائب اور تکالیف اٹھانا، مال اسباب اور عزت و ناموس سے ہاتھ دھونا ۔ شاعر کہتا ہے : میرے اپنے خون نے مجھے چاک گریبانی کی اذیت سے بچالیا۔ میں اب کسی کا محتاج نہیں رہا
(۵)

جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا

کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے !

سوز عشق نے ہمارے جسم کو جلا کے راکھ کر دیا ۔ یعنی جسمانی طور پر اتنا تھک گئے ہیں کہ ہمارے اندر سے تمام خواہشیں ختم ہو گئی ہیں۔ جہاں جسم جلا ہے وہاں ہمارا دل بھی جل گیا ہو گا ۔

اب تم ہماری راکھ کرید کے کیا دیکھنا چاہ رہے ہو۔ کیوں کہ جسم کے ختم ہونے سے دل کے زندہ رہنے کی کیا امید ہو سکتی ہے؟ یہاں شاعر محبوب کی پشیمانی کونشان زد کرنا چاہ رہا ہے، یعنی محبوب جب اپنے ظلم سے پشیمان ہوا تو عاشق کے پاس خواہشیں بھی ختم ہو گئی تھیں ۔

                 (٦)

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

یہ شعر غالب کے کمال فن کا اعتراف کر رہا ہے۔ غالب کہتا ہے کہ ہم اس لہو کے قائل نہیں جو ہر آدمی کی رگوں میں موجود ہوتا ہے اور دوڑ رہا ہوتا ہے۔ اصل لہو وہ ہے جو آنکھ سے ٹپکے۔ شاعر نے ایک عامیانہ زندگی پر اس زندگی کوترجیح دی ہے جو محنت اور سخت کوشی سے عبارت ہے۔

آنکھ سے لہو آنا محاورہ استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے اتنی محنت اور تگ و دو کرنا کہ آنکھوں سے لہو بہنے لگے ۔ شاعر نے لہو بہنے کی ارفع حالت کو بیان کیا ہے۔ ایسی زندگی جس میں تگ و دو نہ ہو۔وہ بے کار زندگی ہے۔ محنت اور ہمت عالی سے حاصل کی گئی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔ غالب اس زندگی سے قائل ہوتے ہیں۔

               ( ۷)

رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی

تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے

ہمارے محبوب نے عمر بھر ہم سے کوئی بات نہ کی ۔ اب صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ زندگی کا آخری وقت آگیا ہے۔ بولنا بھی دشوار ہے۔ اب بھی ہم کچھ کہنا چاہیں تو ہمیں امید نہیں کہ وہ ہماری بات سنے گا۔ گویا ایک امید مسلسل شامل حال ہے۔ شاعر کے سامنے ایک ایسا محبوب ( یا مقصد ) ہے جس کو کبھی حاصل نہیں کیا جا سکتا مگر وہ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا۔ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک یہ جانتا کہ وہ اُس کا محبوب اُس سے بات نہیں کرے گا ،جواب نہیں دے گا مگر وہ پھر بھی امید لگائے بیٹھا ہے۔

غالب ہمیں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ نا امید نہیں ہونا چاہیے۔ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بلند ہمتی اور مستقل امید رکھنا ہی عاشق کی طاقت ہے۔ ایسے لوگ جو جلد ہار جاتے ہیں ، خدا ان کی قسمت میں کامیابیاں نہیں لکھتا۔ فطرت کا بھی یہی اصول ہے، جو مسلسل محنت کرتا ہے وہ اپنی منزل کو پالیتا ہے۔

                  (۸)

ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے

غالب اپنے آپ کو بادشاہ کا مصاحب کہہ رہا ہے اور وہ اس بات پر اترا تا یعنی فخر کرتا ہے۔ غالب اپنی قدر و منزلت اس میں بتاتے ہیں کہ وہ بادشاہ کا مصاحب ہے ورنہ شہر میں غالب کی کیا عزت ہے، اُسے کیا سمجھا جاتا ہے۔ یہ شعر غالب اپنے دوست بادشاہ کو عزت و احترام دینے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ غالب کی تمام عزت و آبرو بادشاہ کے دم سے ہے، ورنہ غالب کو کون شہر میں پوچھے۔

غالب نے یہاں عاجزی کا اظہار کیا ہے۔ ورنہ وہ بہت بڑے شاعر تھے۔ اپنے وقت میں بھی انھیں بہت عزت و احترام حاصل تھا۔

پروف ریڈنگ: ساغر علی ارداسؔ

حواشی

کتاب کا نام: بنیادی اردو
کوڈ: 9001
موضوع : غالب کی غزل
صفحہ : 196 تا 199
مرتب کردہ: ثمینہ شیخ

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں