کتاب۔۔۔۔۔۔میر و غالب کا خصوصی مطالعہ
موضوع ۔۔۔۔۔غالب کے کلام میں تصور حسن کے خاص پہلو
صفحہ ۔۔۔۔۔82تا85
مرتب کردہ ۔۔۔۔۔کنول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غالب کے کلام میں تصویر حسن کے خاص پہلو
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی صورت گری غالب کی شاعری کا موضوع ہی نہیں ہے۔ روایتی تشبیہ سے شاعر نے جا بجا
کام ضرور لیا ہے لیکن یہ تشبیہ فی نفسہ اس کے لیے باعث کشش نہیں ہے۔ بالعموم اُس کا استعمال ضمنی ہے۔ اس کی ہلکی سی بنیاد پر وہ کسی لطیف نکتے کی تعمیر کرتا ہے۔ لیکن پیکر حسن کی مفصل عکاسی جو روایتی سراپا سے مخصوص ہے غالب میں کہیں نہیں ملتی۔ فارسی کلیات کے دس ہزار کے قریب اشعار کا خیال کیجیے تو اس بات پر کچھ اچنبھا ہوتا ہے۔
۱۸۲۷-۲۸ء میں کلکتے جاتے ہوئے غالب کو بنارس میں قیام کا موقع ملا اور یہاں نسوانی حسن و جمال کے نظاروں نے اسے بیتاب کر دیا۔ کو چہ بازار، در بام، کنار دریا جدھر نظر اٹھتی، شاعر کی آنکھ کھلی کی کھلی رہ جاتی۔ مثنوی ” چراغ دیر” اسی زمانے کی یادگار ہے۔ مسلسل نظم اور پھر عورت کے حسن کا پر جوش بیان ، جزئیات حسن کی مرقع نگاری کی کوئی تقریب اگر ہو سکتی تھی، تو یہ تھی لیکن غالب کا تخیل حسن و جمال کے اس جمگھٹے کے قریب آ کر، اس کے گرد گھوم کر ، اس کے چاروں طرف پرواز کر کے، کچھ تاثرات ، کچھ جذبات لیتا ہے اور کہیں دور نکل جاتا ہے۔ فارسی مثنوی ” چراغ دیر” کے اشعار حسینان بنارس کی تصویر پیش نہیں کرتے لیکن سرور د اضطراب کی اس کیفیت سے ضرور لبریز ہیں جو اس حسن کے نظارے سے غالب کے دل پر طاری ہوئی۔ دراصل غالب کو حسن چکی تصویر سے نیں، اس کی تاثیر سے سروکار ہے۔ جہاں کہیں اسے حسن کی مصوری مقصود ہے، وہاں اس نے صرف اشارات سے کام لیا ہے اور بہت کچھ پڑھنے والے کے تخیل پر چھوڑ دیا ہے اس طرح پڑھنےوالے کا شعور تخلیق کے عمل میں شاعر کے ساتھ شریک رہتا ہے۔ مثلاً یہ شعر لیجئے :
الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ
جوتم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیونکر ہو؟
اب یہ ہمارے تصور کا کام ہے کہ آئینے میں دمکتے ہوئے اس شوخ و شنگ چہرے کے خال و خد کی نقش بندی کرے۔ شاعر نےدوسرے مصرع میں ہماری رہنمائی کے لیے ایک ہلکا سا اشارہ اس کے متعلق کر دیا ہے کہ شہر بھر میں اس
چہرے کی مثال نہیں ہے۔ اسی قسم کے اور اشعار اردو اور فارسی کلام میں بآسانی مل جائیں گے۔
کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پرتو خورشید عالم شہنمستاں کا
منہ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منہ پر کھلا
لیکن یہ اشارات کسی پیکر حسن کے قریب پہنچ کر میسر آتے ہیں۔ بعض دفعہ اس پیکر کے صرف بیرونی حاشیے کی جھلک ہم کو دکھا دی جاتی ہے۔ وہ پیکر کیسا ہے، جس کا یہ حاشیہ ہے، اس میں ہمارے تخیل کی رسائی کا امتحان ہو جاتا ہے:
ترے جواہر طرف گلہ کو کیا دیکھیں
ہم اوج طالع لعل و گہر کو دیکھتے ہیں
ایک منزل اس سے بھی آگے ہے جہاں غالب حسن کی توصیف تو کیا، اس کا ذکر تک نہیں کرتا۔ لیکن کسی ایسی لطیف چیز سے اس کی نسبت تلاش کرتا ہے کہ ہمارا تصور خود سے پیکر حسن کی لطافت تک جا پہنچتا ہے :
ایجاد کرتی ہے اسے تیرے لیے بہار
میرا رقیب ہے نفس عطر سائے گل
اس سلسلے میں ایک دلچسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اشعار سے غالب کی ذاتی پسند یا
رجحان کا اندازہ کرنا ممکن ہے یا نہیں ؟ غالب کے لیے نسائیت کے حسن کا معیار کیا ہے؟ اس کی نظر حسن کے کن پہلوؤں پر جاتی ہے؟ اس سوال کا جواب
ڈھونڈنے کے لیے ہمارے پاس دو ہی ذریعے ہیں: اشعار متعلقہ میں انداز بیان کی انفرادیت اور تکرار مضمون جہاں ان دو کیفیتوں میں سے کوئی ایک موجود ہو یا دونوں جمع ہوں ، وہاں یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ غالب کے شخصی ذوق کا اظہار ہوا ہے۔
اس خاص نکتے کی چھان بین کے لیے بیشتر مواد "نسخہء حمیدیہ” میں ملتا ہے۔ حسن کے وہ پہلو جن کا خطاب روح کے بجائے
حواس سے ہے "نسخہء حمیدیہ” میں رہ رہ کر سامنے آتے ہیں۔ بعد کے کلام میں حسن کی رو در رو ملاقات کم میسر ہوتی ہے، اس
کے بجائے شاعر کے ذہن میں حسن کی پیدا کی ہوئی کیفیتیں زیادہ ملتی ہیں ان ابتدائی اشعار کا تعلق غالب کی نو جوانی سے بلکہ بار ہا اس دور بلوغ سے ہے جو تمہید شباب ہوتا ہے۔ اس پُر جوش زمانے میں حسن ظاہری کی کشش عروج پر تھی اور اردو غزل کی مقبول عام روش سے نوعمر شاعر کی بغاوت نے اظہار و بیان کے معاملے میں اُسے بہت کچھ ڈھیل دے رکھی تھی اس زمانے میں ہاتھ پاؤں کی مہندی اور ہونٹوں کی مسی کا کثرت سے ذکر ہے مگر یہ آنی جانی دلچسپیاں معلوم ہوتی ہیں۔ برعکس اس کے نسوانی حسن کے تین عصر ایسے ہیں جنھیں غالب کے تخیل میں نمایاں اور مستقل جگہ ملی ہے۔ ہم ان کا ذکر یہاں الگ الگ کریں گے۔
ایک خاص کیفیت جو اس زمانے میں ، اور اس کے بعد بھی توجہ کو بدستور دعوت نظر دیتی رہی قامت یار کی رعنائی ہے :
اگر وہ سرو قد گرم خرام ناز آ جاوے
کف ہر خاک گلشن شکل قمری نالہ فرسا ہو
دوسرے اجزائے حسن مثلاً چہرے کی خوبی کا ذکر بھی ضرور ہے لیکن بارہا اس ذکر کے ساتھ خوبی قامت سے شاعر کی
دلی وابستگی کا اظہار شامل ہوتا ہے :
اسید بہار تماشائے گلستان حیات
وصالِ لالہ غذاراں سرو قامت ہے
شاعر کے ذوق نگاہ میں ” قد ورخ” کی لطافت کا یہ امتزاج عنفوان شباب کے بعد کی منزلوں میں بھی قائم رہا لیکن اس سے قطع نظر، حسن قامت کو بجائے خور اس کے تخیل میں ایک مستقل حیثیت حاصل ہے۔ پورے کلام کو اس فرض سے دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے بدن کی لچک اور موسیقیت یعنی پورے پیکر کی شوخی ورعنائی پر غالب کی نظر بار بار اٹھتی ہے :
ہے صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم
آنا ہی سمجھ میں مری آتا نہیں گو آئے!
یہ وہ عالم ذوق ہے جہاں پہنچ کر غالب کے لیے خواہش کی تسکین سے کہیں زیادہ پیکر محبوب کا لطف نظارہ عزیز ہے۔
نہیں نگار کو الفت نہ ہو، نگار تو ہے
روانی روش و مستی ادا کیے!
"شکل نہالی” "سرو قامت” وغیرہ تشبیہات یا اس قسم کے مضامین سے غالب کے پڑھنے والے مانوس ہیں۔
ان کو محض ایک شاعرانہ رواج کی قید قرار دینا بالکل ممکن ہے۔ لیکن جب ایک ہی خیال عالم شعر میں بار بار نمودار ہو تو صرف اس بنا پر کہ کوئی دوسرا بھی اس احساس میں شریک ہے، اسے شاعر کے ذاتی نقطہ نظر سے وابستہ نہ سمجھنا غلط قسم کی احتیاط ہے۔
"لطف خرام "کی ترکیب غالب نے یہ تکرار استعمال کی ہے۔ اسے محض اتفاقی تکرار ماننا دشوار ہے۔ اس کے پیچھے ایک دلی
کیفیت کا لطف و ذوق ضرور موجود ہے۔ غالب کے لیے عورت کے موزوں پیکر میں وہ سحر ہے کہ اس کا عکس سطح آب پر پڑ جائے تو موجیں دم بخود ہو کر وہیں تھم جائیں۔ یہ مبالغہ ہے مگر لطف سے خالی نہیں :
تا در آب افتاده عکس قد ول جویش
چشمہ ہم چو آئینه فارغ از روانی ہاست
جب سے اس کے دل کش قد کا عکس پانی میں پڑا چشمے نے روانی چھوڑ دی اور وہ آئینہ بن گیا ۔ تناسب اعضا کی مستی و ذوق کا شعور ایام شباب کے ایک شعر میں انتہا کو پہنچ گیا ہے، جہاں سیہ نام بدن کی نزاکت اعضا کی یوں داد دی ہے ۔
رچ گیا جوش صِفائے زلف کا اعضا میں عکس
ہے نزاکت جلوہ اے ظالم سیہ نامی تری!
بدن کی طرف یہ واضح اشارات عنفوان شباب کے بعد بتدریج کم ہوتے گئے لیکن قامت یار کی رعنائی کا لطف شعور ولا شعور
میں اپنے جھلملاتے نقش چھوڑ گیا ہے۔
اس قامت موزوں کی ایک اور خصوصیت ایسی ہے جس کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس خصوصیت کو غالب نے جا بجا اس طرح واضح کیا ہے کہ اسے شاعر کی شخصی پسند سے منسوب کرنا قرین قیاس ہے۔ یہ خصوصیت قامت کی درازی ہے جو غالب کو ہر رنگ میں، خواہ اس کا بھرم کھل جائے یا بنا رہے، عزیز ہے۔ او پر جو شعر ہماری نظر سے گزرا "اوج طالع لعل و گہر”
کا اشارہ اسی درازی دکی طرف نکلتا ہے۔
دور اول ہی کے ایک ایسے شعر میں قامت بلند کا ذکر ملتا ہے جس میں ذاتی احساس کی شدت بڑی وضاحت سے موجود ہے بیان کی عمومیت کے باوجود شعر کا رخ ایک خاص موقع کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ ایک عورت آرائش جمال میں مصروف بیٹھی ہے۔ اس دوران وہ کسی ضرورت سے اٹھتی ہے۔ گدرائے ہوئے بدن کی یہ نیم جنبش اس کے لیے قد کو لطافت کا وہ ہچکولا دیتی ہے کہ اس کے حسن کے خطوط اور دائرے زندہ ہو جاتے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے گویا کسی صناع نے اپنے شاہ کار کی تخلیق کردی :
اسد اٹھنا قیامت قامتوں کا وقت آرائش
لباس نظم میں بالیدنِ مضمون عالی ہے
یہاں "مضمون عالی” سے قامت بلند مراد ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ مضمون قافیے کا سمجھایا ہوا نہیں بلکہ قافیہ مضمون کی مناسب سے تلاش کیا گیا ہے۔ ” قد و گیسو” کا یہ ساتھ جوانی کے دنوں میں شروع ہوا اور عمر بھر قائم رہا۔ سیاہ، لمبےبالوں کی چمک غالب کی شاعری کے ہر دور کو اس طرح منور کرتی ہے کہ سرسری مطالعہ کرتے ہوئے بھی اس کی جھلکیاں بار بار سامنے آتی ہیں۔” زلف سیاہ” یوں بھی اردو اور فارسی شاعری کا خاص الخاص سرمایہ ہے۔ لیکن غالب نے حسب معمول اس پر بہت سے ذاتی اضافے کیے ہیں اور اپنی شخصیت کے پیچ و تاب کو اس خلوص و جوش سے شامل حال کیا ہے کہ اس پامال مضمون میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے۔