غالب کا تصور عشق

کتاب کا نام :میر وغالب کا خصوصی مطالعہ

موضوع: غالب کا تصور عشق

صفحہ نمبر :70تا71

مرتب کردہ : ارحم

___💐___

غالب کا تصور عشق

یوں تو دیوانے غالب میں ایسے بھی دو چار شعر ملتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ غالب کو حسین لڑکے کے بطور محبوب کے عزیز تھے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اردو غزل کے تین قسم کے محبوبوں میں انہیں صرف عورت بطور محبوب قابل قبول رہی ایک طرف تو وہ ایسے اللہ والے آدمی نہ تھے کہ خدا کو محبوب بناتے دوسری طرف ان کے اندر کوئی ہم جنسی پیدا بھی نہ تھی غالب بعض اوقات کسی کا مرثیہ غزل ان کی شکل میں لکھ ڈالتے تھے چنانچہ دیوان غالب میں وہ مرثیے ملتے ہیں ایک زین العابدین خان عارف کا مرثیہ جو ان کے برادر نسبتی تھے اور انہیں بہت عزیز تھے دوسرا مرثیہ اپنی کسی محبوبہ کی وفات پر جس کی تفصیل ارباب تحقیق کو معلوم نہ ہو سکے

درد سے میرے ہے تجھے کو بے قراری ہائے ہائے

کیا ہوئی ظالم تیرے غفلت شعاری ہائے ہائے

عمر بھر کا تو نے پیمان وفا باندھا تو کیا

عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائے

شرم رسوائی سے جا چپتا نقاب خاک میں

ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے

گوش مہجور پیام چشم محروم جمال

ایک دل نس پر یہ نا امید داری ہائے ہائے

یہ چند اشعار اس مرثیے کے ہیں غالب کا ایک اور شعر بھی دیکھتے چلیے جس میں کسی نوخیز لڑکے کا ذکر کیا گیا ہے

آمد خط سے ہوا ہے سرد جو بازار دوست

دور شمع کشتہ تھا شاید خط رخسار دوست

آمد خط سے مراد سبزہ آغاز یعنی وہ لڑکا جس کے داڑھی مونچھ کے بال نکلنے شروع ہو گئے ہوں بازار سرد ہوا خریدار کم ہو گئے اس کے عاشقوں کی تعداد گھٹنے لگے وہ شمع کشتہ بجے ہوئی شمع کا دھواں علامت تاریخی لڑکے کے چہرے پر داڑھی مونچھ کے بال نکلنے سے اس کے عاشقوں کی تعداد گھٹنے لگی غالب نے اپنے ایک شعر میں عشق کو دماغ کا خلل قرار دیا ہے

عشق کے بارے میں طبی نقطہ نظر بھی یہی ہے

بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

اس میں شک نہیں کہ عشق میں جذبات کے تلاطم ہونے سے آدمی غیر متوازن ہو جاتا ہے

غالب کے دو شعر ایسے بھی ہیں جن میں انہوں نے محبوب کی جلوہ نمائی کو شعلے اور برق سے تشبیہ دی ہے

نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا

کوئی بتاؤ کہے وہ شوخ تند خو کیا ہے

بجلی ایک گوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا

بات کرتے کہ میں لب تشنہ تقریر بھی تھا

ان اشعار سے نہ صرف محبوب کی شوخی ظاہر ہوتی ہے بلکہ وہ پابندیاں بھی منعکص ہو رہی ہیں جو غالب کے زمانے میں عشق و محبت پر عائد تھی عشق کے سامنے محبوب کانہ ٹھہرنا محض ایک ادا نہیں بلکہ احتیاط کی غمازی بھی کر رہا ہے

غالب کی شاعری میں عشق کے سینکڑوں کیفیتیں تو ضرور ملتی ہیں لیکن ایسے اشعار نہ ہونے کے برابر ہیں جن سے ان کے تصور عشق کا اندازہ کیا جا سکتا ہے البتہ اتنا پتہ چلتا ہے کہ وہ محبوب کو خواہ وہ قہر ہو یا بلا ہو ہر حال میں اپنانے کا جذبہ رکھتے تھے

قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو

کا شکے تم میرے لیے ہوتے

اگرچہ غالب کے زمانے تک عشق انسانی زندگی کی سب سے بڑی قدر تھا پھر بھی انہوں نے غم دوراں کے مقابلے میں غم جاناں کہ قدر و قیمت کو سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کی اور ایک بہت بڑے حقیقت پسند ہونے کا ثبوت دیا

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں