غالب جدید تصور کا اولین نمائندہ

کتاب کا نام : میر و غالب کا خصوصی مطالعہ
کوڈ: 5612
صفحہ: 72
موضوع: غالب جدید تصور کا اولین نمائندہ

مرتب کردہ: ثمینہ شیخ

غالب جدید تصور کا اولین نمائندہ

اردو شاعری کی تاریخ میں ۱۹۳۶ ء ایک نئے موڑ یعنی Tuming Point کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ۱۹۳۶ء سے اردو ادب میں جس ترقی پسند تحریک کی ابتدا ہوئی اس نے اپنی پیش رو تحریک ، سرسید تحریک کی طرح اردو شعر و ادب کے مزاج و میلان کو بدلنے میں ایک انقلابی کردار ادا کیا۔ اس تحریک کی بدولت اردو شاعری میں جو ایک بنیادی تبدیلی پیدا ہوئی وہ یہ ہے کہ اردو شاعری غم جاناں کی بجائے غم دوراں کی شاعری بن گئی۔ اس تحریک سے پہلے غم کی طرف اردو شاعری کا رویہ یہ تھا کہ جو غم ہوا اسے غم جاناں بنا دیا۔ اس تحریک کے طفیل شاعروں نے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے ہوا۔ یہ طرز احساس کی ایک بڑی تبدیلی تھی جو ترقی پسند تحریک کی بدولت عمل میں آئی اور عام ہوئی گو طرز احساس کی اس تبدیلی کا ایک مضحکہ خیز نتیجہ اور بہت سے افسانہ نگار محبوبہ سے اپنی محبت کو بالائے طاق رکھ کر محافہ جنگ کی طرف جانے لگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محاذ جنگ کوئی تخصیلی محافظ جنگ نہ تھا۔ دوسری جنگ عظیم نے بہت سے محاذ کھول دیے تھے ممکن ہے عام لوگ صرف پیسے کمانے اور کیریئر بنانے کے لیے محاذ جنگ پر جا رہے ہوں لیکن شعرا اور دوراں کو غم جاناں پر ترجیح دے رہے ہیں یا یہ کہ ان افسانہ نگار اپنے قارئین کو یہ تاثر دے کر محاذ جنگ کے نزد یک غم زندگی غیم محبت سے عظیم تر حقیقت ہے جس کے ایک معنی یہ ہیں کہ غم دوراں کی موجودگی میں آدمی غم جاناں کو بھول سکتا ہے یا بھول جانے پر مجبور ہو سکتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اردو شعر و ادب میں اس طرح کے میلانات و رجحانات ترقی پسند تحریک ہی کی بدولت آئے ۔ ترقی پسند تحریک اردو ادب کی حالیہ تاریخ سے تعلق رکھتی ہے لیکن جب ہم تاریخی طور پر ان رجحانات و میلانات کا سراغ لگاتےہیں تو کاری میں بات شیخ سعدی تک جانا کہتی ہے جنھوں نے یہ کہہ کر حقیقت کا حق ادا کر دیا تھا کہ:

شعر کے:

چناں قحط سالی شد اندر مشق

که باران فراموش کردند عشق

اور اردو میں ان میلانات در جھانات کا سلسلہ غالب تک پہنچتا ہے جنھوں نے اردو میں پہلی مرتبہ اس طرح کے

غم زمانہ نے جھاڑی نشاط عشق کی مستی

وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذت الم آگے

تری وفا سے کیا ہو تلاقی کہ دہر میں !

تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے

اس طرح کے شعر کہنے کے لیے ضروری ہے کہ زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر شاعر نہ صرف نظر رکھتا ہو بلکہ ان حقیقتوں کو قبول کرنے کی جرات بھی۔ اس طرح کے شعر رومانی اور تخیلی دنیا میں میں رہنے والا شاعر کبھی نہیں کہہ سکتا۔ لیکن کون سا شاعر ہے جو رومانی اور خیلی دنیا میں نہیں رہتا؟ غالب کے سینکڑوں اشعار ان کے رومانی ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ یہ ان کی رومانیت ہی تھی جس نے ان سے کہلوایا تھا کہ :
کم جانتے تھے ہم بھی غم عشق کو پراب
دیکھا تو کم ہوئے پہ غم روزگار تھا
جب رومانیت غم عشق کو Idealize کرتی ہے تو اسے کم از کم غم روزگار کے برابر ٹھہراتی ہے۔ ورنہ وہ غم عشق کو غیم روزگار سے کئی گنا عظیم تر قرار دیتی ہے۔ لیکن زندگی میں جب آدمی کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ غم روزگار غم عشق سے بڑا غم ہے۔ آدمی کو زندگی کے جو ظلم سہنے پڑتے ہیں ان کی تلافی محبوب کی محبت سے بھی نہیں ہو پائی ۔ غم زمانہ آدمیروزگار سے کئی گنا عظیم تر قراردیتی ہے۔ لیکن زندگی میں جب آدمی کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ تم روزگار غم عشق سے بڑا غم ہے ۔ آدمی کو زندگی کے جو ظلم سہنے پڑتے ہیں ان کی تلافی محبوب کی محبت سے بھی نہیں ہو پائی۔ غم زمانہ آدمی کو عشق کے عیش غم سے دست کش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔ جو تم ہوا اسے غم جاناں بنا دیا شعری صداقت ہو تو ہو سماجی صداقت ہر گز نہیں ہے۔ غم زمانہ انسانی زندگی کی کتنی بے رحم اور بے درد حقیقت ہے اس کا اندازہ غالب کے اس شعر سے کیا جا سکتا ہے:

غم زمانہ نے جھاڑی نشاط عشق
کی مستی
وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذت الم آگے

کے اس شعر میں لفظ جھاڑی کا استعمال غالب کے فنی کمالات میں سے ہے۔
گو کہ غالب سے پہلے بھی مختلف شعرا کے ہاں غم زمانہ کا مضمون کہیں کہیں دکھائی دیتا ہے اور شعرا نے اپنے معاشی حالات کی خرابی اور زبوں حالی کا رونا رویا ہے۔ قدیم شعرا کے ہاں غم زمانہ اپنی مختلف شکلوں میں موجود ہے۔ مثلاً غم زمانہ کی مالی شکل کا عکس ولی کے ایک شعر میں یوں ملتا ہے :

مفلسی سب بہار کھوتی ہے

مرد کا اعتبار کھوتی ہے۔

یا نظیر اکبر آبادی کی بیسیوں نظمیں ہیں جن میں غم زمانہ کی مالی صورت حال کے بیسیوں پہلو ملتے ہیں مثلاً :

کوڑی کے سب جہان میں نقش و نگین ہیں

کوڑی نہ ہو تو کوڑی کے پھر تین تین ہیں

پیسا ہی رنگ و روپ ہے پیسا ہی مال ہے

پیسا نہ ہو تو آدمی چرخ کی مال ہے

ع سب کے دل کو فکر ہے دن رات آٹے دال کا

یا میر کی غزلوں میں غم زمانہ کی سیاسی اور تہذیبی شکلیں موجود ہیں مثلاً :

جہاں آگے بہاریں ہو گئی ہیں

وہیں اب خارزاریں ہوگئی ہیں

شاہاں کہ کل جواہر تھی خاک یا ان کی

بھی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں

کیسی کیسی محبتیں آنکھوں کے آگے سے گئیں

دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا یکبارگی

جن بلاؤں کومیں سنتے تھے

ان کو اس روزگار میں دیکھا

روائے لالہ و گل میں جھلک رہی تھی خزاں

بھری بہار میں رویا کیے بہار کو ہم

غرضے کہ غالب سے پہلے بھی شاید ہی کوئی شاعر ایسا ہو جس کی شاعری میں غم زمانہ کے نقوش نہ مل سکیں لیکن غالب کا امتیاز یہ ہے کہ اردو کے شاعروں میں غالب پہلے شاعر ہیں جنھوں نے غم جاناں کے مقابلے میں غم دوراں کی برتری کو تسلیم . کیا یعنی غم دوراں کی برتر قوت کو مانا ۔ غالب کی شاعری کا یہ رجحان ۱۹۳۶ء کی ترقی پسند تحریک کے ہاتھوں اردو شاعری کی ایکروایت بن گیا۔ چونکہ غالب اپنی قسم کے ترقی پسند ہونے کے باوجود اردو ادب کے موجودہ ترقی پسندوں سے مختلف تھے۔ اس لیے وہ غم جاناں کے مقابلے میں غم دوراں کی برتری کو ماننے کے باوجود غم جاناں کی اہمیت سے منکر نہ ہوئے ۔ دور حاضر کےترقی پسندوں کی طرح انھوں نے اپنی محبت کو نہ ملتوی کیا نہ موقوف انھوں نے اپنے سماجی یا سیاسی فرائض کو بہانہ بنا کر نہ محبوب سے چھٹی لی نہ محبت سے ۔ انھیں یہ جھوٹ بولنے کی ضرورت بھی محسوس نہ ہوئی کی

تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

غم روزگار غم عشق سے بڑی قوت یا بڑا دباؤ تو ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ غم عشق سے زیادہ دل فریب ہر گز نہیں ہو سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ غم روزگار میں دل فریبی کے پہلو دیکھنا خود فریبی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اپنے محبوب سے ان کا یہ اعتراف نہایت دیانت دارانہ اور مخلصانہ ہے کہ :

گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار

لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

اس اعتراف میں غم دوراں کی برتری کے باوجود نیم جاناں کی دل کشی موجود ہے۔ انسان اگر غم دوراں سے بیچ نہیں سکتا تو وہ غم جاناں کے بغیر بھی رہ نہیں سکتا۔ کم از کم غالب کی شاعری ہمیں یہی بتاتی ہے اور ان کی یہی بات اردو شاعری کی روایت میں ایک لازوال اضافہ ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں