فسانہ عجائب کا تعارف مختصر نظر

فسانہ عجائب کا تعارف مختصر نظر | Fasana-e-Ajaib ka Taaruf Mukhtasir Nazar

فسانہ عجائب کا تعارف

فسانۂ عجائب ناقدین و محققین كی نظر میں

  • فسانہ ٔعجائب وہ داستان ہے جس نے اپنے تخلیقی پن سے زیادہ اپنی تخلیقی وجوہات کی بنا پر شہرت حاصل کی ہے۔ اردو کے بیشتر ادبی مؤرخین اور اردو داستان کے محققین و ناقدین نے اسے رد عمل کا تخلیقی مظہر قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس داستان کے فنی و موضوعاتی مباحث کو پہلے سے طے شدہ روایت کے زیر اثر پر کھا گیا۔ یہ روایت داستانوں کے فن سے زیادہ باغ و بہار کے فن اور لسانی معیارات کے تحت پروان چڑھی۔ شاید ہی کسی ادبی مؤرخ یا نقَّاد و محقق نے "فسانہ ٔعجائب ” پر ” باغ و بہار” کے طے کردہ معیارات سے ہٹ کر بات کی ہو۔

اگر چہ بیشتر ناقدین و مورخین نے یہ تاویل مرزا رجب علی بیگ سُرور کے تحریر کردہ "فسانہ ٔعجائب” کے دیباچے سے اخذ کی ہے، جس میں سرور ” باغ و بہار ” کی تخلیقی اور لسانی حیثیت کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں،

مگر ایسے مورخین اور ناقدین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فن پارے کا تجزیہ تخلیق کار کے دعوی کے بجائے فن پارے کے متن کے ذریعے کر نازیادہ وقیع ہوتا ہے۔ اگر فن کار کے دعووں کو ہی بنیاد بنانا ہو تو پھر تمام طرح کے تنقیدی اور تخلیقی معیارات کو پسِ پشت ڈال دینا چاہیے۔

تصنیف كا سبب اور زمانہ

"فسانہ ٔعجائب ” كی تصنیف 1824ء میں اس وقت شروع ہوئی، جب سرور کسی مجبوری کے باعث لکھنو سے جلا وطنی اختیار کر کے کان پور میں بسیر اڈالے ہوئے تھے۔ کان پور سرور کے نزدیک لکھنوکے مقابلے میں بے رنگ، پھیکا اور بے ترتیب شہر تھا۔ ایسے شہر میں رہتے ہوئے سرور کی رنگین طبع بہت بد مزہ ہوئی۔

اس بدمزگی کو دور کرنے اور اپنے محبوب وطن کو یاد کرنے کی غرض سے انہوں نے یہ داستان رقم کر نا شروع کی۔ داستان کے شروع میں جو دیباچے یا وجوہِ تخلیق نامی تحریریں ہیں، یہ "فسانۂ عجائب” کی تخلیق کے بعد کی ہیں اور کئی بار ترمیم کی گئی ہیں۔

” فسانہ عجائب ” ایک طرف لکھنو کی رنگینی کی داستان ہے، تو وہیں پر ” باغ و بہار” کی بدولت اہل دلی کی اردو نثر میں قائم برتری کو ٹکر دینے کا اولین نقش بھی ہے۔

فسانہ عجائب ” یوں تو طبع زاد داستان ہے، مگر اس پر عربی، فارسی اور سنسکرت قصوں، کہانیوں اور حکایتوں کے اثرات موجود ہیں۔ بعض ناقدین نے اس داستان پر مثنوی "سحر البیان ” کے اثرات کا ذکر بھی کیا ہے۔

یہ داستان "جان عالم ” یا "قصۂ جان عالم” کے نام سے بھی مشہور رہی۔

زمانۂ طباعت واشاعت

یہ داستان اب تک بیسیوں بار زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکی ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1843ء بمطابق 1259ھ میں منظر عام پر آیا۔

*پروف ریڈر (مصحِّحِ متن): محمد عمَّار زاہد معجز بن عبد الكریم زاہد، نورانی بستی، كورنگی، كراچی، پاكستان*

حواشی

کتاب کا نام: اردو داستان اور ناول (فکری و فنی مباحث)،کوڈ: 9011،صفحہ : 47 تا 48،موضوع: فسانۂ عجائب کا تعارف،مرتب کردہ: ثمینہ شیخ

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں