فیض احمد فیض مضمون مسائل کاتنقیدی جائزہ| Faiz Ahmad Faiz Mazmoon "Masail” ka Tanqeedi Jaiza
فیض احمدفیض نےشاعری میں جونام کمایاہےوہ تنقیدکےحصےمیں نہ آسکا۔لیکن میزان ان کی پہلی نثری کتاب ہے۔جس سےانھوں نےتنقیدکےمیدان میں قدم رکھا۔میزان اردوتنقیدنگاری میں کوئی بلندوبالاجگہ نہ بنا سکی۔میزان کےموضوعات پرنگاہ مرکوزکرنےسےاندازہ ہوجاتاہےکہ فیض احمدفیض کامطالعہ کتنا گہرا اور ان کی نظرنہ صرف جدیدتنقیدپرتھی بلکہ قدیم تنقیدپربھی انھوں گہری نظرڈالی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فیض احمد فیض شخصیت اور فن
ساتھ ساتھ ان کے مضامین میں جامعیت کی چاشنی بھی نظرآتی ہے۔فیض احمدفیض تنقید کےمیدان میں بھی حقیقت نگاری اورترقی پسندانہ نظریات کوہاتھ سےجانے نہیں دیتے۔ان مضامین میں سےبیشتربیسویں صدی کی تیسری وچوتھی دہائی میں قلم بندکیےگئےہیں جن کی اشاعت کےحق وہ خودبھی نہیں تھے۔فیض خوداس کےدیباچےمیں رقم طرازہیں:
’’ادبی مسائل پرسیرحاصل بحث کرنےکےلیےنہ کبھی فرصت میسرتھی نہ کبھی دماغ۔ریڈیواورمختلف محفلوں میں ان مسائل پرباتیں کرنےکےمواقع البتہ ملتے رہے۔یہ مضامین ان ہی باتوں کامجموعہ ہےاس لیےان میں سخن علما سے نہیں، عام پڑھنےلکھنےوالوں سےہےجوادب بارےمیں کچھ جاننا چاہتے ہیں۔ان میں سےبیشترراب سےپچیس برس پہلےجوانی کےدنوں میں لکھے گئےتھے۔بہت سی باتیں جواس وقت نئی تھیں اب پامال نظرآتی ہیں اوربہت سے مسائل جوان دنوں بالکل سادہ معلوم ہوتےتھے،اب کافی پیچیدہ دکھائی دیتے ہیں،
چنانچہ اب جودیکھتاہوں توان تحریروں میں جگہ جگہ ترمیم ووضاحت کی ضرورت محسوس ہوتی ہےلیکن میں نےیہ ردوبدل مناسب نہیں سمجھا۔اول اس لیےکہ بنیادی طوران تنقیدی عقائدسےاب بھی اتفاق ہےاوردوئم اس لیےکہ ایک مکتب فکرکی عکاسی کےلیےان مضامین کی موجودہ صورت شایدزیادہ موزوں ہو۔‘‘(۱)
بالاسطورمیں انھوں نےنہایت دیانت داری کےساتھ اپنےنقطہ نظرکی توضیح کی ہےاوران کےمضامین میں سےبعض پڑھ کراندازہ لگانامشکل نہیں ہوتاکہ انھوں نےواقعی ان مضامین کوسرسری طورپرلکھاہے۔
ان کی تنقیدکی خصوصیات کااندازہ ان کےدیباچےمیں بیان سےبھی کیاجاسکتاہے۔ان کی تنقیدکی ایک خصوصیت یہ ہےکہ تنقیدکےلیےسب سےاہم چیزسچائی ہےیعنی کھرےکھوٹےکوالگ الگ کرنایاپرکھنا،یہی چیزفیض کےہاں نظرآتی ہےاور’’میزان‘‘میں انھوں نےتنقیدکےاس نکتےکی طرف توجہ مرتکزکی ہے۔انھوں نےذرےکوآسمان اورآسمان کوذرہ بنانےکی کوشش نہیں کی بلکہ جوکچھ ہےاسےبالکل آئینےکی طرح پیش کیاہے،
یہ بھی پڑھیں: فیض احمد فیض کے فرانسیسی تراجم | PDF
ان کےہاں ایک چیزیہ بھی ہےکہ وہ اہم اورضروری چیزکوپیش کرتےہیں،مثال کےطورپرانھوں نےترقی پسندنظریہ ادب کااعلان بڑی وضاحت اورایمان داری سےکیاہے۔ان کےمضامین ادب کاترقی پسندنظریہ،خیالات کی شاعری اورفنی تخلیق اورتخیل میں ایک فلسفیانہ فضاجھلکتی ہے۔ان کی نثرنگاری وتنقیدنگاری پرپروفیسرسحرانصاری روشنی ڈالتےہوئےکہتےہیں:
’’ادب کی فطری اورعملی تنقیدپربھی فیض نےغوروحوض کیاہے۔ان موضوعات پرانھوں نےایک خاص اندازسےقلم اٹھایاہےاورایسی باتیں پیش کی ہیں جونامورناقدین کی تحریروں کےمطالعےیااردوتنقیدکےمزاج پر غور وفکر کرنے سے پیدا ہوتاہے۔مثلاًہماری زبان میں تنقیدکےاصول کس طرح مرتب کیے جاتے ہیں۔
الفاظ، اصطلاحات اور محاکمے کا انداز کیسا ہے۔کیاہماری موجودہ تنقیدسےتنقیدکی ضرورت پوری ہوتی ہےاوراس طرح کےبہت سےسوالات فیض نےاٹھائےہیں اوراپنےایک جداگانہ نقطہ نظرسےان کےجوابات بھی دیئے ہیں۔اس طرح ان کےتنقیدی مضامین میں خودان کےادبی نظریات بھی سامنےۤگئےہیں۔‘‘(۲)
فیض کی شاعری اورادبی نظریات کوسمجھنےکےلیےمیزان کامطالعہ نہایت ضروری ہے،فیض شناسی میں میزان ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔میزان کی اشاعت کازمانہ وہ ہےجس میں عام ادبی مباحچ کےبرعکس ماورائیت اوروجودیت کی بحث چھڑی ہوئی تھی۔لیکن فیض نےدیباچےمیں وضاحت کی کہ جگہ جگہ ترمیم ووضاحت کی ضرورت محسوس کی گئی لیکن میں نےکوئی ردوبدل نہیں کی کیوں کہ فیض کواپنےموقف پراعتمادتھا۔
یہ بھی پڑھیں: فیض احمد فیض صدی نمبر منتخب مضامین pdf
فیض کی نثرمیں کہیں پربھی گنجلک پن نظرنہیں آتاکیوں کہ وہ قلم برداشتہ لکھاکرتےتھے۔ زیر نظر مضمون میں انھوں سرسری طورہپرکانٹ چھانٹ کی ہےلیکن وہ بہت تیزاورسلجھےہوئےاندازمیں لکھاکرتے تھے۔انھوں نےاپنےزیرنظرمضمون میں بہ عنوانِ ’’پاکستانی تہذیب کامسٔلہ‘‘میں ابتدااس بات سےکی ہےکہ ہمیں قومی اوراجتماعی طورپریہ بھی نہیں معلوم کہ تہذیب ہےکیا؟
لیکن اس کےباوجودہم اپنی تہذیب وثقافت کےحوالےسےروزبہ روزہنگامہ آرائی کرتےہیں ،حالاں کہ ہمیں اول یہ جان لیناچاہیےکہ تہذیب ہےکیا؟۔اس کےبعدہمیں اپنی تہذیبی ورثےکےبارےمیں بات کرنےکاسلیقہ آئےگا۔فیض کی تنقیدمیں ہمیں بوریت کارنگ نظرنہیں آتابلکہ وہ تاحدکوشش کرتےہیں کہ ان کےہاں بوریت اورگھٹن کی فضانہ ہوبلکہ ایسےاسلوب اورایسی زبان کاانتخاب کرتےہیں کہ قاری ان کی بات کودل چسپی کےساتھ پڑھ سکے۔
انھوں نےاس امرکوتنقیدکےزمرےمیں لانےکی کاوش کی ہےکہ ہمیں عام طورپراورقومی سطح پراس بات کاعلم ہی نہیں کہ لفظ تہذیب یاثقافت یاکلچرکہاں سےاخذشدہ ہے۔لہٰذاوہ بےباک اندازمیں کہتےہیں کہ سب سےقبل ہمیں اس بات کویقینی بناناہوگاکہ ہماری تہذیب کی ابتداکہاں سےہوئی ہےیعنی اس کا منبع وسرچشمہ کہاں ہے۔اس کےبعدہمیں اصل مسئلےکی طرف آناہوگا۔ان کےمطابق ہمارےہاں اہلِ نظرکویہ علم نہیں کہ فن کیاہے؟
اورفن کاری کیاچیزہے؟اس لیےلوگ غیرشعور ی طورپرفن اورفن کاری میں تمیزنہ کرتےہوئےبھی فن اورفن کاری سےواقف ہیں لیکن جب فن اورفن کارعیاں ہوتےہیں توپاکستانی لوگ ان پرقسم قسم کے فتوے صادر کرتے ہیں،حالاں کہ غیرشعوری طورپروہ خوداس کےمعترف ہیں۔اس کےبعد زیر نظر مضمون میں انھوں نےطنزیہ وظریفانہ زبان کااستعمال کیاہے۔
فیض نےتہذیب یاکلچرکاعمیق اورگہرامطالعہ کیاہےاس لیےوہ تہذیب کےباطنی وظاہری رخ کےبارےمیں بھی لکھتےہیں کہ جب ہم کسی شخص کومہذب کہتےہیں تواس کامطلب یہ ہوتاہےکہ ہم اس کےظاہروباطن دونوں کااعتراف کرتےہیں۔اس حولےسےتہذیب کی مثال کچھ یوں دیتےہیں کہ:
’’یہی صورت قومی تہذیب کی ہےاس کےباطنی حصےمیں وہ تمام مادّی،اخلاقی اورجمالیاتی قدریں،وہ تمام عقیدے،اُمنگیں،تجربے،خاب اورآدرش شامل ہوتےہیں جنہیں قومم یااس کابااختیارطبقہ تسلیم کرتاہے۔یہ باطنی کیفیتیں تہذیب کی ظاہری صورت میں دوطرح نمایاں ہوتی ہیں۔
اوّل اس بکھری ہوئی ناتراشیدہ صورت میں جسےہم کسی معاشرےکاWay of life رہن سہن یازندگی کاروزمرہ کہتےہیں۔دوم اس منجھی ہوئی،ترشی ہوئی،دُھلی ہوئی صورت میں جوحسن وفن کےذخائراورتخلیق میں متشکل ہوتی ہے۔‘‘(۳)
اس کےبعدانھوں نےبنیادی موضوع کوزیربحث بنایاہےکہ تہذیب کےلیےکسی زندہ قوم کاہونالازمی ہےاوراس سلسلےمیں اقبال کاحوالہ بھی دیاہے۔پھرکہتےہیں کہ پاکستان میں وطنیت یاقومیت کامسئلہ کس اندازمیں پایاجاتاہے۔ان کےمطابق ایک فرقہ ایساہےجوکہ پاکستان کےوجودکوسرےسےتسلیم نہیں کرتایعنی یہ فرقہ عدم وجودکاقائل ہےجس سےبحث کرنابیکارہی ہے۔دوم فرقہ وہ ہےجوصرف مذہبی حوالےسےپاکستانی قوم کوایک دوسرےکےساتھ رشتےمیں باندھتاہے،اس حوالےسےانھوں نےناقدانہ بصارت کاثبوت دیاہےکہ یہ فرقہ مغربی ومشرقی پاکستان کےباشندوں کےدرمیان صرف دین مبین کےرشتےکوجوڑتےہیں،
وہ کہتےہیں کہ مسئلہ کسی حدتک تہذیبی توزیادہ حدتک سیاسی نوعیت کاحامل ہے،اس لیےان لوگوں کی بات صحیح نہیں ہوسکتی کیوں کہ ان لوگوں کوآپسی رشتہ صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ دنیاوی،سیاسی بھی ہے۔اس کےبعددوٹوک اندازمیں گویاہوتےہیں کہ اگریہ نظریہ یوں ہی چلتارہاتوقومی وسیاسی یکجہتی ممکن نہیں۔
الغرض انھوں زیادہ ترزورزمین اورمٹی پردیاہے۔وہ تجزیاتی اندازاپناتےہوئےکہتےہیں کہ اگرہماری تہذیب کی ابتداپانچ ہزارسال ہوئی ہےاوراسےتسلیم کرنےکےبعدیہ مسئلہ ابھرتاہےکہ ترک،ایرانی،مغل، وید،افغانی وغیرہ سب کی اپنی ایک الگ تہذیب وثقافت ٹھہرتی ہےلیکن اصل شےزمین اورمٹی ہےاگرہم اسےتسلیم نہیں کرتےتوپاکستان کووجودمحض ایک خواب ہی ہےیعنی اپنی جڑوں سےپیوستگی بھی تہذیب کےاظہارکاایک اہم ذریعہ ہے۔
پاکستانی جغرایہ کےبارےمیں بھی انھوں نےاپنی جچی تلی رائے کااظہارکیاہےاوراپنانقطہ نظرواضح کیاہے۔ان کےمطابق پاکستان کی تقسیم نےجغرافیائی حدود کے مسئلے کواور بھی پیچیدہ کردیاہےمشرقی پاکستان کولیجئےیہاں زبان،رہن سہن،طرززندگی وغیرہ یعنی خارجی وداخلی تہذیبی پہلومغربی پاکستان سےبالکل منفردالگ ہے۔
لیکن ان کی جغرافیائی اکائی کوڈھونڈنابھی مشکل نہیں،اس حوالےسےانھوں نےبحث کی ہےاورتہذیبی شیرازےکےبارےمیں کہاہے(جوکہ بکھرپڑاہے)کہ اس کےاوراق سےیک امتیازی پاکستانی تہذیب کانسخہ کیونکرتالیف ہوسکتا ہےجو ہمارے ماضی وحال سےمزین بھی ہواورشاہکاروں سےمختلف اورممتازبھی جوہم سےدورگنگ وجمن،دجلہ فرات اور وحش وآموکی وادیوں میں تخلیق ہوئے۔‘‘(۴)
المختصرمجموعی لحاظ سےانھوں نےپاکستانی حال،ماضی اورمستقبل کانقشہ ایک دیدہ ورکی طرح کھینچاہےکہ اس افراتفری اورعدم نطام کےباوجودیہاں بہترین فن کار،موسیقار،شاعر،دست کاراور اداکار وغیرہ موجودہیں۔لیکن ہمارےہاں ایسےلوگ بہت ہیں جومذکورہ فنون جوکہ تہذیبی ارتقامیں اہم کرداراداکرتےہیں کوصرف مواشی ترقی اورقومی خزانےمیں اضافےکاذریعہ ہی سمجھتےہیں کہ اس سےقومی خزانہ کوکیافائدہ یامعاشی لحاظ سےیہ کتنےکاآمدہیں؟وغیرہ۔
’’جہانِ نوہورہاہےپیدا‘‘میں فیض نےزبان وادب کی نمودوترقی اورتنزل پرلب کشائی کی ہےاوریہ واضح کرنےکی کوشش کی ہےکہ سماجی ترقی وزوال اورادبی عروج وزوال کاایک دوسرےسےرشتہ کیاہوتاہے؟اوردونوں میں امتیازکیاہے؟۔اس حوالےسےانھوں نےاپنانقطہ نظرواضح کیاہے۔جس طرح انسانی جسم بھوک اورفاقےسےخراب ہوتاہےاورخون اس میں رک جاتاہےاسی طرح زبان کےلیےبھی غذاکی ضرورت ہوتی ہےکہ اگریہ نہ ہوتوادب کی دھڑکتی دھڑکنیں رُک جاتی ہیں،اس لیےفیض نےسنسکرت،عبرانی اوریونانی زبان وادب کی مثال پیش کی ہے۔
فیض کی تنقیدنگاری کی ایک اہم خصوصیت یہ ہےکہ انھوں نےاپنےتنقیدی مضامین جس بات کوسرسری طورپربیان کیاہےاوربعدمیں انھیں اندازہ ہواہےکہ یہاں کھانت چھانت کی جرورت ہےتوانھوں نےاسےبالکل بھی کاٹنےیادرست کرنےکی کوشش نہیں کی یعنی انھوں نےبعض موضوعات یامسائل قلم برداشتہ صفحہ قرطاس پراتارےہیں۔زیرنظرمضمون میں انھوں نےادبی ارتقااورزبان وادب کی تنزلی کےبارےمیں اپنانقطہ نظرواضح کیاہےکہ بعض زبانیں ایسی ہیں جواب مردےکی حیثیت رکھتی جنھیں لاکھ کوششوں کےباوجودزندہ نہیں کیاجاسکا۔
اس نےکئی زبانوں کاحوالہ دیاہےکہ سنسکرت اورعبرانی زبان بالکل مرچکی ہےاورانھیں زندہ کرنےکی لاکھ کوششیں کی جاری ہیں لیکن جب ایک زبان مرجاتی ہیں تواسےزندہ کرنےکےباوجودزندہ نہیں کیاجاسکتا۔
انھوں نےیہاں زبان وادب کےرشتےکوواضح کیاہےکہ دونوں کاتعلق محض سرسری نہیں بالکل قوی اورگہراہےکیوں کہ زبان اظہارکاوسیلہ ہےاورادب اسےپیش کرنےکاذریعہ ،یہی اظہارادب ہی کےواسطےکیاجاتاہے۔زبان اگرروبہ ترقی ہوتونتیجتاًادب بھی فروغ پائےگا۔لیکن زبان کی انحطاط ادب پربھی اثرات چھوڑتی ہیں۔زبان کےانحطاط اورادب کے حوالےسے لکھتے ہیں کہ:
’’چنانچہ زبان میں انحطاط دوطرح سےہوتاہے۔اگرکوئی زبان سمٹےسمٹےایک بہت ہی محدودطبقہ کی زبان بن کررہ جائےاورجملہ عوام کےتجربات، مشاہدات، جذبات اورخیالات کی ترجمانی چھوڑدےتواس کی وہی کیفیت ہوجائےگی جوکسی مقیدیامبحوس پرندےکی ہوتی ہے۔یہ زبان دھیرےدھیرےدم گھٹ کر مرجائےگی۔ادب زبان ہی کی جذباتی،مزین اورمنّزہ صورت ہےاورادب کا عروج وزاول زبان ہی کےانحطاط و ترقی سےوابستہ ہے،
اتنافرق ضرورہےکہ اچھے ادب کی تخلیق کےلئےاورلوازمات کےعلاوہ انفرادی اوراجتماعی جذباتی ہیجان کا وجودلازمی ہے۔اس کےمعنی یہ ہوئےکہ کسی دورمیں ادب کاجہانِ نوجب ہی پیداہوسکتاہےکہ اوّل تواس دورکےلکھنےوالےذہنی اورجذباتی طورپرکچھ لکھنےکےلئےمضطرب اوربےقرارہوں،دوسرےاس اضطراب کے اظہار کےلئےلسانی صلاحیتیں موجودہوں۔یہ دونوں باتیں اصل میں ایک ہی عمل کےدوپہلوہیں۔‘‘(۵)
اس مضمون میں مزیدزبان وادب کےعلاوہ سیاسی،سماجی،معاشرتی اورمذہبی مسائل وحالات کاذکرکیاگیاہے۔انھوں نےاردوادب کےزوال کےدوریعنی مغلیہ سلطنت کےزوال سےغالب پھر سرسید اور حتیٰ کہ اقبال کےدورکاایجازاًجائزہ پیش کیاہےجس میں یہ ثابت کرنےکی سعی کی گئی ہےکہ ہرزوال کےبعدعروج منتظرہوتاہے
لیکن اس کےلیےکچھ کرناپڑتاہےیعنی محنت شاقہ کی ضرورت پڑتی ہےاوران کےمطابق اگراردوادب وزبان اگرایک طرف انحطاط کےدورسےگزررہی تھی تودوسری جانب جہانِ نوکی پھوبھی پھوٹ رہی تھی۔اقبال کےبعدہمیں پھراردوزبان وادب پراداسیوں کی پرچھائیاں منڈلاتی نظرآتی ہیں ،اس کےبعدادب کےساتھ ساتھ سماج اورمعاشرہ کی حالات بھی مکمل طورپرمنہدم ہوچکی تھی۔اورفیض کےمطابق ایک اورسنگین مسٔلےیعنی آزادئ ہندنےسراٹھایا۔
یہاں انھوں نےاپناترقی پسندنظریہ بھی پیش کیاہےکہ ادب کےجہانِ نوکوفروغ دینےمیں اہم کردارترقی پسندتحریک نےاداکیالیکن یہ کردارزیادہ دیرتک اسی حالت میں برقرارنہ رہ سکااوریہ لےکسی اورطرف روبہ سفرہوگئی اورانھوں نےاپنےاس مضمون’’جہانِ نوہورہاہےپیدا‘‘میں اردوزبان کی حیثیت اورمقام کےحوالےسےبھی رائےدی ہےکہ کسےمعلوم کہ اردوزبان کووہ حیثیت دی جائےگی
جس کی وہ قابل ہےحالاں کہ یہاں توکسی کی بھی اردوکی اصل روح سےواقفیت نظرنہیں آتی۔یعنی یہاں یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ فیض احمدفیض نہایت قابل اورزیرک انسان تھےاوران کامشاہدہ عمیق تھاکہ اس دورمیں انھوں نےبھانپ لیاتھاکہ اردوزبان کےساتھ یہ لوگ اورمابعدنوآبادیاتی نظام تلےپلنےوالےافرادکیارویہ اپنائیں گے۔
فیض احمدفیض کواردوزبان پرعبورحاصل تھااس لیےانھوں نےچندمضامین میں یہ بات ثابت کردی ہےکہ اردوزبان پرانھیں قدرت حاصل تھی۔اس کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہےکہ انھوں نےجہاں جس موضوع پرگفتگوکی ہےاس کےمطابق زبان استعمال کی ہے۔ان کااسلوب سادہ وسلیس اوراردولہجےمعتدل ہے۔
ایسےموضوعات جہاں لہجےمیں ٹھہراؤاوردھیماپن کااحتیاج ہوانھوں نےاس کااستعمال خوب کیاہے۔ہاں البتہ بعض جگہوں پرانھوں اردوکےوہ شانداراوربارعب الفاظ کااستعمال کیاہےجوہمیں چندانشاپردازوں کےہاں نظرآتاہے۔’’خطبۂ صدارت‘‘کےآغازہی میں انھوں نےاس طرف دھیان دیاہے،اقتباس ملاحظہ ہوں:
’’محترم صدراستقبالیہ،پرنسپل صاحب،اساتذہ گرامی،خواتین حضرات،اورینٹل کالج کےاساتذہ وطلبائےقدیم کی جماعت میں اصحابِ علم ودانش کےبہت سےنام مرقوم ہیں۔
اس جماعت میں کسی تقریب میں شرکت بھی کسی اعزازسےکم نہیں صدارت کےمنصب توروئےبایدکےعلاوہ اوربھی بہت سےکمالات چاہتاہےارباب انجمن کی اس مرحمت اورجناب صدراستقبالیہ کےگرم گسترانہ الفاظ کےلئےمیں انتہائی ممنون ہوں۔تاہم اس مشفانہ غلط بخشی کابھیدمجھ پرنہیں کھل سکا،مجھےاپنےکرم فرماوؤں سےزنہاریہ گمان نہیں کہ مسندِصدارت کےلئےان کےانتخاب میں ملیح کاکوئی پہلونمایاں ہے۔
ایساطنزتوعام طوراصحابِ طبل وعلم سےکیاجاتاہےاورمجھےاس طبقےسےدورکابھی واسطہ نہیں۔مجھےیہ بھی گمان نہیں کہ ارباب اس سےمجھےیہ یاددلاناچاہتےہیں کہ وہ جستجومیں مجھ جیسوں کی تگ ودووطپیدن ونرسیدن کےمقام سے نہ بڑھ سکی۔لامحالہ اس توقیروعنایت کاایک ہپی سبب ذہن میں آتاہےاوروہ یہ کہ مجالسِ فضیلت اوربارگہ علومیں کبھی کبھی خاصانِ مدرسہ کےعلاوہ عوام شہرپربھی شرکت ولب کشائی کاموقع عطاہوناچاہئے۔‘‘(۶)
اقتباس بالااورپچھلےصفحات سےکےحوالوں سےبخوبی واضح ہوتاہےکہ ان کےہاں اسلوب اورلہجےکی متنوع صورتیں نظرآتی ہیں لیکن انھوں نےموقع ومحل کےمطابق اس کااستعمال کیاہے۔انھوں نےاپنےاس مضمون میں نہ صرف اپنے تنقیدی نظریات کوپیش کیاہےبلکہ بعض چیزوں ایسی ہیں جن پربحث کرنےکی ضرورت تھی اورانھوں نےاس کی خوب انجام دہی کی ہے۔
اردوشاعری کےحوالےسےبھی انھوں نےبحث کی ہے۔’’اردوشاعری کی پرانی روایتیں اورنئےتجربات‘‘میں فیض نےفیض نےاردوشاعری کوارتقائی صورت میں پیش کیاہے۔انھوں نےاس مضمون میں اردوز بان کی تاریخ اورشاعری کی روایت پرتنقیدی نگاہ ڈالی ہےاوراردوزبان کےفروغ اورترقی پرلب کشائی کی ہے۔انھوں نےیہ بھی بیان کیاہےکہ محکوم قوم کی زبان وادب پرحاکم قوم کی زبان وادب کس طرح غالبہ پاتےہیں
اوراس دوران مغلوب قوم کیسی زندگی گزارتےہیں۔ان کےمطابق اس قسم کےلوگ مذہب،اخلاق اورروایات کی طرف چلےجاتےہیں اوران کا ادبی سرمایہ بھی ان ہی چیزو ں پرمبنی ہوتاہے،چنانچہ اردوادب کی ابتدائی تصانیف اس کاواضح ثبوت ہے۔ان کےمطابق اردوکی ابتدائی شکل جسےہم باقاعدہ اردوتسلیم نہیں کرتےہمیں بھرت کبیر اورتلسی داس وغیرہ کےہاں نظرآتی ہے۔
اس کےبعدگولکنڈااوربیجاپورمیں اردوپھلی پھولی۔بعدمیں جاکرولی دکنی کےہاں ہمیں اس کی اصل صورت دکھائی دیتی ہے۔اس مضمون میں فیض نےاردوشاعری کی روایت کےعلاوہ اردوشاعری میں جونئےتجربات ہوئےہیں اوروقت کےساتھ ساتھ اس میں جوتبدیلی آئی ہےکوبیان کیاہے۔کہ کس طرح اردوزبان اوراردوشاعری میرومرزاکےدورسےگزرتی ہوئی سمندرکےموجوں کی طرح ٹھاٹےمارتی ہوئی ہم تک پہنچی۔اردوشاعری میں جن روایات کوملحوظ رکھاگیاتھاوقت کےساتھ اس میں تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں اورنئےتجربات ہوتےہیں۔
غالب سےقبل اردوشاعری کاجائزہ لیاگیاہےکہ اردوشاری کی نوعیت کیاتھی؟اورغالب کےبعداس کی شکل ہی بدل جاتی ہے۔قصیدہ،مثنوی،مرثیہ،ہجو، واسوخت، شہرآشوب، غزل اورنظم وغیرہ سب اصناف اوران کےاہم شعراکی شاعری پربحث بھی کی گئی ہے۔ان تبدیلیوں اورروایات کےساتھ ان کےاسباب پربھی فیض احمدفؔیض نےطبع آزمائی کی ہے۔
’’میزان‘‘میں شامل ایک اورمضمون ’’جدیدفکروخیال کےتقاضےاورغزل‘‘میں انھوں نےغزل کی افادیت واہمیت اوروسعت کےعلاوہ اس کی ساخت وبناوٹ اورموضوعات کاجائزہ احسن طریقےسےلیاہے،تودوسری جانب انھوں نےمعتریضینِ غزل پرکہیں طنزکیاہےتوکہیں ظرافت کالبادہ اوڑھاہے۔مثلاً:
’’ہمارےادب میں غزل غالباًسب سےزیادہ آزادصنفِ سخن ہے۔ظاہری آداب میں پابندی،داخلی آزادی میں معانی،اسی دورنگی کےسبب غزل کےبارےمیں شاعراورناقددونوں کواکثرمغالطہ ہواہےکسی کودھوکہ ہواکہ چست قبامحض قامتِ محبوب اورتن عاشقی ہی موزوں ہےاورباقی عالم موجودات سےاس کاسروکارنہ ہوناچاہئے۔
اس طبقےکی نگاہ بیشترغزل اورکچھ اپنی افتادطبع پرہی مرکوزرہی اوریہ لوگ کچھ ایک خاص دورکےاسلوب غزل گوئی اورکچھ اپنی افتدادطبع کےباعث غزل کےمعنوی امکانات کااندازہ نہ کرسکے۔انہیں یہ بھی یادنہ رہاکہ ہرچندقصیدہ ،غزل سےزیادہ بسیط چیزہےلیکن غزل کی قصیدہ سےعلیحدگی،آزادی اوروسعت اظہارکی طلب میں تھی نہ کہ اس کےخلاف۔۔۔’’بوئےجوئےمولیاں آیدہمیں‘‘جوغزل کاحرف آغازسمجھاجاتا ہے۔عاشقانہ معاملہ بندی اوررازونیازکاقصہ نہیں بلکہ ایک خالص سیاسی اورہنگامی مصلحت سےمتعلق ہے۔‘‘(۷)
ان کےمطابق ايک گروہ ایساہےجن کاخیال ہےکہ غزل محض تعیش پسندوبےمقصدلوگوں کامشغلہ ہے،فیض نےان کی اس رائےکااظہارکرتےہوئےنقصانات کی نشاندہی بھی کی ہے،اقتباس کچھ یوں ہے:
’’۔۔۔غزل محض تعیش پسندپراگندہ خیال اوربےمقصدلوگوں کامشغلہ ہے۔جسےعصرحاضرکےسیاسی،سماجی اورنفسیاتی تجربات کےاظہارمیں کسی طورکام میں نہیں لایاجاسکتا۔چنانچہ اس مکتب فکرمیں غزل قریب قریب حکماًمردودقرارپائی۔
اس سےیہ نقصان ہواکہ بعض ہونہارلکھنےوالےجن کی تربیت اورمزاج غزل ہی کےلئےموزوں تھااپنےدل کی بات پوری طرح کھل کرکہہ نہ سکے،پھربالکل حال میں مخالف سمت ہواچلی توبیشترلوگ میؔر،سوؔداکےرنگ میں غزل کہنےلگےاوریہ محسوس ہونےلگاکہ
اس تنگنائےسےمرادادھرکوئی میدان قابل اعتناءہی نہیں۔اس سےیہ خرابی ہوئی کہ پچھلےبیس تیس برس میں اسلوب اظہارکےجوجواہم تجربات مشاہدےمیں آئےتھےآگےنہ بڑھ سکےاوران کی امکانی صلاحیتیوں کی مکمل سیاحی نہ ہوسکی۔‘‘(۸)
اس کےبعدانھوں نےغزل کی محدودیت کےحوالےسےکہاہےکہ غزل تنگنائےمیدان اورمحدودیت کی حامل ہے،ان معنوں میں کہ اس میں مثنوی کی طرح کوئی طویل واقعہ نہیں پیش کیاجاسکتا،اسی طرح کسی خیال یانظریےکاتفصیلی تجزیہ،کسی سیاسی وسماجی مسٔلےکی تصویرکشی وغیرہ اس میں نہیں کی جاسکتی کیوں کہ غزل کاروزمرہ زندگی کےروزمرےسےمنفردہے۔لیکن دوسری جانب وہ غزل کی وسعتوں اوراہمیت کےبھی حامی ہیں،چنانچہ کہتےہیں:
’’۔۔۔تنگ دامانی کےساتھ ساتھ غزل کی پنہائیوں اوروسعتوں کاشعوربھی لازم ہے۔اس کےدامن میں نہ صرف پرانی روایتوں اورکنائیوں کاایساذخیرہ موجودہےجن کےمعنوی رموزقریب قریب لامحدوددہیں۔بلکہ اس کےخمیرمیں ایک جزوکیمیابھی ایساہےجس سےالفاظ کی ہرٹکڑی میں ایسی ایسی معنوی تہیں نمودارہوتی ہیں جن کالغت میں دُوردُورتک ذکرنہیں ۔‘‘(۹)
مضمون کےآخرمیں جدیدتقاضوں کاتجزیہ کرتےہوئےکہتےہیں کہ جوعیوب اورکمزوریاں دوسری اصناف میں نظراندازکی جاتی ہیں یاانھیں زیادہ برانہیں سمجھاجاتاغزل میں انہیں بھی بہت بڑی غلطی تسلیم کیاجاتاہےیعنی غزل گوئی کوئی آسان کام نہیں بلکہ اس میں باریک بینی کابہت بڑاہاتھ ہوتاہے۔
ان کےمطابق جدیدفکروخیال کےتقاضےبےشمارہیں اورغزل ان سب سےعہدہ برآتونہیں ہوسکتی لیکن فیض کےمطابق ہمارےہاں ذاتی اورعمومی تجربات کےبہت سےپہلوایسےہیں جن کےاظہارکےلئےغزل ہی بہترین صنف ہےاوراس حوالےسےغزل کامقابلہ کوئی اورصنف نہیں کرسکتی۔
اس کےساتھ ساتھ انھوں نےاردوغزل اورغزل گوئی پرسیرحاصل بحث کی ہےاوراس کاتنقیدی جائزہ لیاہے۔اسی طرح ’’جدیداردوشاعری میں اشاریت‘‘میں انھوں نےاردوشاعری میں علامتیت اوراشاریت پرناقدانہ بصیرت صرف کی ہےاوراردوشاعری کی علامات اوراس کےاستعمال کوبخوبی واضح کیاہے۔فیض علامات کومحض انگریزی اثرنہیں سمجھتےبلکہ وہ اس سےکڑھتےہیں اورہمارےناقدین اورادباوشعراپرطنزکانشترچلاتےہیں یعنی ان کےہاں تنقیدمیں جذباتیت اورحقیقت پسندی وبےباکی کاپہلونمایاں ہے،مثلاً:
’’آج کل ہمارےہاں یہ نیارواج چلاہےکہ ہمارےگھریلوی ادب میں بھی جواچھائی برائی ہےسب انگریزی کےسرمنڈھ دی جاتی ہےگویاہمارےادیب تومحض کاٹھ کےالّوہیں۔ادھرانگریزی میں ایک چیزچبھی ادھرہمارےادیبوں نےاندھادھندنقل کردی۔‘‘(۱۰)
فیض کی نظرمیں علامات سےمرادیہ ہے:
’’علامات سےہم ایسےاستعارےمرادلیتےہیں جنہیں شاعراپنےبنیادی تصورات کےلئےاستعمال کرتاہے۔جس طرح ہم کسی لفظ کواصطلاح قراردے کر اس کےخالص معنی مقررکرلیتےہیں خواہ اس کالغوی مفہوم کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ اسی شاعراپنےتجربات کےاظہارمیں بعض الفاظ کواصلاحات قراردے لیتا ہے۔‘‘(۱۱)
علامات کااستعمال ابتدامیں اردوادب میں کس طرح کیاجاتاتھااورشاعران سےکیامرادلیتےتھے،اس حوالےسےفیض لکھتےہیں:
’’شاعراوراس کےسننےوالوں میں ایک مفاہمت سی ہوجاتی ہےکہ جب شاعرسفاک کہےتواس کی مرادچنگیزخاں نہیں اپنےمحبوب سےہے۔پرانی شاعری کی علامات توآپ جانتےہیں۔رقیب، دربان،صاحب ،قاتل، جلاد، موئےکمر،تیرنظر،گل اوربلبل،ساقی وپیمانہ،شمع وپروانہ،قیس ولیلیٰ،فرہادوشیریں وغیرہ وغیرہ۔
ان میں ایک بات تویہ تھی کہ عام شاعر انہیں علامات کےبجائےمستقل مضامین سمجھنےلگ گئےتھے۔مثلاًشمع وپروانہ یابلبل وصیاداپنی اپنی جگہ مستقل مضامین تھے۔ان کاذکرکرتےوقت یہ ضروری نہیں تھاکہ شاعرکےذہن میں ان کاکوئی بدل بھی موجودہو۔یوں کہہ لیجئےکہ علامات اظہارکاذریعہ نہیں ،اظہارکامقصودبن چکی تھیں۔‘‘(۱۲)
فیض کاخیال ہےکہ ہم نےانگریزی اورانگریزی ادب سےسب کچھ اخذنہیں کیابلکہ یہ فطری طورپرتبدیلیاں آتی ہیں اوریہ تبدیلیاں مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں،حالاں کہ وہ انگریزی اثرات سےمفربھی نہیں لیکن اس بات کی وضاحت بھی کرتےہیں کہ اگرانگریزنہ آتےتب بھی ہندوستان کاسماجی،معاشی، معاشرتی،سیاسی اورادبی ڈھانچےمیں تبدیلیاں رونماہوتی ہیں۔لیکن وہ اس طرف توجہ مرکوزکراتےہیں کہ اس تبدیلیاں میں شایدوقت زیادہ لگ جاتاہےلیکن انگریزی اثرنےاس کی رفتاربڑھادی ہے۔زیرنظرمضمون میں چوں کہ شاعری میں علامتیت کی بحث چھیڑی گئی ہےتو
فیض نےیہ ثابت کرنےکی کاوش کی ہےکہ ابتدامیں شعراجن علامات کااستعمال کرتےہیں اس کی تفہیم بہت سہل ہوتی تھی کیوں کہ اس علامت کےبارےمیں قارئین کوعلم ہوتاتھاکہ کس طرف اشارہ کیاجارہاہےلیکن جدیدشاعری میں علامت کوسمجھناکسی معمےسےکم نہیں کیوں کہ اس علامت کوسمجھنےکےلیےشاعرکی پوری زندگی چھاننےپڑتی ہے۔اسی مضمون میں لکھتےہیں کہ:
’’۔۔۔موجودہ شاعروں کی علامات دن بدن ذاتی اورداخلی ہوتی جارہی ہیں۔ایک مبالغہ آمیزمثال میراجی صاحب کاایک مصرعہ ہےجوافسوس ہےمجھےٹھیک یادنہیں۔کچھ ایساہے ؎
چل بڑا آیا کہیں کا کالا کلوٹا کوّا
قصہ یہ ہےکہ شاعرکی محبوبہ سورہی ہے۔سونےمیں کاجل رخسارتک بہ آیاہےاوراس ڈھلکےہوئےکاجل کی صورت کچھ کوّےکی سی ہوگئی ہے۔چنانچہ شاعرنےکوّےسےیہ کاجل مرادلیاہے۔ظاہرہےکہ اتنی دورکی کوڑی لاناہر پڑھنےوالےکےبس کاروگ نہیں۔‘‘(۱۳)
فیض نےاس مضمون کوطوالت دی ہےاوراس میں شعراکی مقبول علامات اوران کےمفاہیم کاتجزیہ پیش کیاہے،حاؔلی سےاکؔبراوراکؔبرسےاقبال تک انھوں نےمختلف شعراکی علامت نگاری پرناقدانہ نگاہ ڈالی ہے،اقبال کےحوالےسےلکھتےہیں:
’’۔۔۔انھوں نےنئی علامات وضع کرنےکےبجائےپرانی علامات میں نئی روح پھونکنازیادہ مناسب تصورکیاجیساکہ آپ جانتےہیں۔ان کیمرکزی علامت عشق ہےجس سےوہ جنسیاتی کشش نہیں،ایک ایساخدادااوراضطراری جذبہ مرادلیتےہیں جوانسان کوسماجی اوراخلاقی ارتقاکےلئےبےقراررکھتاہے۔‘‘(۱۴)
جوشؔ اوراخترشیرانی کی علامات پربھی فیض نےقلم فرسائی کی ہے،مضمون کےآخرمیں انھوں نےشعراکی داخلیت کاذکرکیاہےکہ ہمارےجدیدشعراعلامت کوداخلیت کی طرف لےگئےہیں جوکہ بعض دفعہ ایک تمثیل کی صورت اختیارکرتی ہےتوکبھی کبھارتجریدیت میں ڈھل جاتی ہےلیکن ان شعرامیں کچھ ایسے بھی ہیں جن کےہاں درمیانی راستہ نظرآتاہےیعنی جنھوں نےدرمیانی راستہ اختیارکیاہے۔
اس کےعلاوہ انھوں نےزیرنظرمضمون میں علامات کےمعنی اوراردوادب میں ابتدامیں انھیں مستقل مضامین کی حیثیت دی جاتی تھی کےحوالےسےاورجدیددورمیں علامت کےمعنی میں تبدیلی کےحوالےسےاپنانقطہ نظرپیش کیاہے،وغیرہ۔
ادب کلچرکاسب سےہمہ گیر،سب سےنمائندہ،سب سے جامع اورسب سےمؤثرجزوہے اور کلچر کےباطنی اورنظریاتی پہلوپہ نظرڈالنےسےثابت ہوتاہےکہ سب سےزیادہ ادیب ہی کےنطق وقلم سے مجموعی عقیدوں،تجربوں اورامنگوں کاتعین وتعریف اورتفسیرہوتی ہے۔‘‘(۱۵)اس کےعلاوہ فؔیض نے ثقافت اورفلم کی تفسیربھی عمدگی سےکی ہے۔اورفلم کی ضرورت اورفروغ کےعلاوہ اس کےثقافتی پہلوپربھی روشنی ڈالی ہے۔
تنقیدکرتےوقت فیض احمدفیض سچائی کادامن ہاتھ سےجانےنہیں دیتے۔ان کےہاں بلندوبانگ دعوےیامصنوعی پن ہرگزنظرنہیں آتابلکہ وہ ایک بیانیہ پیرائےمیں اپنی بات کی وضاحت کرتےہیں اوراپناموقف ظاہرکرتےہیں۔اپنےمضمون’’ادب اورثقافت‘‘میں کلچرکےمفاہیم کچھ یوں واضح کرتےہیں:
’’بعض اوقات ہم کلچرسےمحض روزمرہ رہن سہن اورطریق زندگی مرادلیتےہیں۔بعض اوقات عقائداوردین ومذہب اوربعض اوقات محض فن وادب۔لیکن یہ بات بہرصورت مسلّم ہےکہ قومی تہذیب کےتعیّن میں ان اجزاکاباہمی رشتہ ،ان کی اہمیت یاغیراہمیت،ان کی تقدیم وتاخیرکچھ بھی قائم کرلیجئےانہیں ایک دوسرےسےالگ نہیں کیاجاسکتااورقومی تہذیب کوصحیح طورسےسمجھنےکےلئےان کی مجموعی شکل وصورت ذہن میں رکھناضروری ہے۔
اس مجموعےکےاجزاکیاہیں۔اوّل وہ سب عقیدے،قدریں، افکار،تجربے، امنگیں (Ideals) یا آدرش،جنہیں کوئی انسانی گروہ یابرادری عزیزرکھتی ہے۔دوم آداب،عادات،رسوم اوراطوارجواس گروہ میں رائج اورمقبول ہوتےہیں۔
سوم وہ فنون مثلاًادب،موسیقی،مصوری،عمارت گری اوردستکاری جن میں بھی باطنی تجربے، قدریں،عقائد،افکاراورظاہری طوراطواربہت ہی مرصع اورترشی ہوئی صورت میں اظہارپاتےہیں۔‘‘(۱۶)
اس طویل اقتباس سےثقافت اورکلچرجس کی توضیح کرنانہایت مشکل ہےکی شبیہ ہمارےسامنے آجاتی ہےاورقاری کلچرسےکچھ نہ کچھ واقف ہوجاتاہے۔اسی وہ جامع الفاظ میں کلچریاتہذیب کی تعریف کرتےہیں کہ کسی مخصوص گروہ یابرداری کی جملہ مادی،روحانی اورفنی سرمائےاورکمالات کواس کاکلچر یا تہذیب کہتےہیں۔‘‘(۱۷)
یہاں انھوں نےتین اکائیوں کواکٹھاکیاہےکہ جس کےبغیرتہذیب کاارتقاممکن نہیں۔فیض نےاس مضمون میں کسی کلچرکی واقعی صورت میں اورکسی کلچرکی ارتقائی عمل میں ادب کی اہمیت اورمقام کاتعین کیاہے۔
ان کاکہنایہ ہےکہ ہمارےہاں ایک مغالطہ یہ عام ہےکہ دیہاتی اشیاجوکہ کلچرمیں برابرکےحصہ دارہوتی ہیں کوبعض لوگ اپنےکلچرکاحصہ نہیں سمجھتے،اگرکسی شہرکےعجائب خانےمیں گندھاراتہذیب کاکوئی بیت یاکسی نمائش میں چغتائی کی کوئی تصویرننگی ہوتووہ کلچرہے
لیکن دیہات کسی کےگھرمیں سجےہوئےبرتنوں،چنگیزوں،پھلکاریوں اورپٹیروں،پلنگوں کاکلچرسےکوئی واسطہ نہیں۔اسی طرح غاؔلب،مؔیراقؔبال کےشعرکوادب کہتےہیں۔لیکن مختلف بولیوں کی کہاوتوں،گیتوں،قصوّں کوادب نہیں کہتےیہ بات صحیح نہیں۔فیض احمدفیض قومی کلچرکےسلسلےمیں لکھتےہیں کہ قومی کلچرکسی شہر،گلی،محلے یاچھوٹے سےطبقےیاگھرانےکی پسندیاناپسندکونہیں کہتے۔سارےمعاشرےکےاجتماعی ظاہروباطن کوکہتے ہیں۔‘‘(۱۸)
کیوں کہ کلچرکی داخلی وباطنی محرکات میں ان کابہت بڑاعمل دخل ہے۔کلچرکےساتھ ادب کاکیارشتہ ہے؟یااس حوالےسےادب کی اہمیت کیاہے؟جیسےسوالات کےجوابات بھی فیض نےزیرنظرمضمون میں دیےہیں کہ کسی کلچرکی قدریں خواہ وہ باطنی ہویاظاہری کی تعریف،اس کاتعین اوراس کااظہار،ساتھ ساتھ اس کی تشکیل ،بیان وصورت گری اکثرادیب ہی کےہاتھوں پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے۔مزیدیہ بھی واضح کرتےہیں کہ ہرایک دانش مندادیب ہم عصرکلچرکاترجمان،ناقدبھی ہوتاہے۔وہ عمومی ذوق کی تربیت،تفسیراورتسکین سب ہی کچھ کرتاہے۔بقول فیض:
’’۔۔۔جملہ اہل فن وہنرکی صنف میں ادیب کی حیثیت سب سےزیادہ معتطرہی نہیں سب سےزیادہ ذمہ داربھی ہے۔وہ بیک وقت اپنےکلچرکی تخلیق بھی ہوتاہےاورخالق بھی،اس کی آیت بھی اوراس کامفسربھی،اپنی ہی ذات میں اپنےعہدکی تصویربھی اورمصوّربھی۔‘‘(۱۹)
’’میزان‘‘میں مذکورہ مضامین کےعلاوہ’’ادب اورثقافت،فلم اورثقافت‘‘جیسےمضامین میں فیض نےثقافت اورفلموں کےحوالےسےبھی اپناتنقیدی نظریہ اورتصورواضح کیاہےکلچراورتہذیب کی معنویت اورچوں کہ یہ ایک مرکب واجتماعی شےہےلہٰذااس کی اجتماعیت وغیرہ کابھی انھوں نےتجزیہ کیاہے،ساتھ ساتھ انھوں نےادب پربھی روشنی ڈالی ہے۔
حوالہ جات
۱۔فیض احمدفیض،میزان،کوہ نورآرٹ پریس،۲/عبدالعلی رو،کلکتہ،۱۹۸۲ء،ص ۷
۲۔سحرانصاری،فیض ایک نثرنگار،مشمولہ افکارفیض نمبر،مکتبہ افکار،کراچی،۱۹۶۵ء،ص ۴۵۹
۳۔فیض احمدفیض،میزان،ص ۷۰،۷۱
۴۔ایضاً،ص ۷۳
۵۔ایضاً،ص ۷۶،۷۷
۶۔ایضاً،ص ۸۱
۷۔ایضاً،ص ۱۰۳
۸۔ ایضاً،ص ۱۰۴
۹۔ ایضاً،ص ۱۰۲
۱۰۔ ایضاً،ص ۱۰۵
۱۱۔ ایضاً،ص ۱۰۶
۱۲۔ ایضاً،ص ۱۰۶،۱۰۷
۱۳۔ ایضاً،ص ۱۰۸
۱۴۔ ایضاً،ص ۱۱۰
۱۵۔ ایضاً،ص ۱۱۵
۱۶۔ ایضاً،ص ۱۱۳،۱۱۴
۱۷۔ ایضاً،ص ۱۱۴
۱۸۔ ایضاً،ص ۱۱۵
۱۹۔ ایضاً،ص ۱۱۷
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں