غزل کب تک دل کی خیر منائیں کب تک راہ دکھلاؤ گے کی تشریح
کب تک دل کی خیر منائیں کب تک راہ دکھلاؤ گے
کب تک چین کی مہلت دو گے کب تک یاد نہ آؤ گے
لغت : چین: آرام و سکون
مہلت : چھوٹ، اجازت
تشریح
مطلع میں شاعر کہ رہا ہے کہ دل وصل یار کے لیے ہر دم تڑپتا ہے۔ کسی اور راستے پر لگا کر دل کو وقتی طور پر کہیں اور متوجہ کیا جا سکتا ہے مگر طویل عرصہ تک ایسا ممکن نہیں۔
کچھ دیر کے لیے تو محبوب کا خیال بھلایا جا سکتا ہے جس سے دل کو سکون میسر آسکتا ہے مگر جو نہی یاد آئی ، بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہو جائے گا۔ دوست کے ہجر میں عاشق کا ہر وقت کڑھنا ہی مقدر بن چکا۔
جتنے بھی جتن کر لیے جائیں اس کی یادوں کو لوح قلب سے مٹایا نہیں جاسکتا ۔ لہذا محبوب کی یاد سے بچاؤ ممکن نہیں۔ اس شعر میں خوبصورت نکتہ یہ ہے کہ شاعر یاد آنے یا نہ آنے کا اختیار محبوب سے منسوب کر رہا ہے، یعنی محبوب ہمیں کب تک مہلت دیتا ہے اور کب تک ہم چین سے رہ سکتے ہیں، یہ سب محبوب پر منحصر ہے۔
شعر 2
بیتا دید امید کا موسم خاک اُڑتی ہے آنکھوں میں
کب بھیجو گے درد کا بادل کب برکھا برساؤ گے
لغت: دیدامید: نظارہ کی آس محبوب سے ملنے کی توقع
بیتا گزر گیا
برکھا: بارش، برسات
تشریح
آنکھوں میں معشوق کے ملنے کی جو توقع تھی، وہ مدھم پڑ گئی ہے۔ اس آس پر کہ ملاقات ضرور ہوگی ، آنکھوں کا موسم خوشگوار تھا۔ جب سے یہ آس ٹوٹی ہے دل پریشان ہے، آنکھیں بے رونق ہیں۔ اے دوست اب کب کوئی نیا زخم دو گے اور تازہ دکھ دو گے تا کہ مجھے پھر سے چین آجائے ۔
اس شعر میں شاعر نے محبوب کی طرف سے دی گئی تکلیف کو بادل سے تشبیہ دی ہے کہ پھر آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات ہوتی ہے۔ عاشق معشوق سے جفا کا طالب ہے۔ شاعر نے جفا اور زخم کو اپنے لیے چین کہا ہے۔ محبوب کے دیے ہوے زخم بھی آرام و راحت کا باعث ہیں ۔
شعر 3
عہد وفا یا ترک محبت جو چاہو سو آپ کرو
بس کی بات ہی کیا ہے ہم سے کیا منواؤ گے اپنے
لغت: عہد : وعده
ترک : چھوڑنا
تشریح
اے محبوب! آپ کی مرضی ، محبت میں کیے گئے وعدے کی پاسداری کرنی ہے یا اسے توڑنا ہے ، یعنی دوستی نبھانی ہے یا محبت کو چھوڑنا ہے۔ مجھ سے پوچھتے ہو تو کچی بات ہے میرے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ وعدہ خلافی مشکل ہے اور محبت کو بھلانا یہ دل کے اختیار میں نہیں ہے۔
لہذا دونوں میں جو بھی راہ اپنانی ہے وہ معشوق پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ وفاداری کا وہ دعوی ہے جو عاشق ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ فیض بھی اپنے محبوب سے صرف اس کی رضا کا طالب ہے۔ دوست کے ہر فیصلے کی پاسداری اس کا جزو ایمان ہے۔
شعر 4
کس نے وصل کا سورج دیکھا ، کس پر ہجر کی رات ڈھلی گیسوؤں والے کون تھے کیا تھے ان کو کیا جتلاؤ گے
لغت :وصل :ملاقات
ہجر : دوری
گیسو : زلفیں
جتلانا: یاد کرانا
تشریح:
اس شعر میں محبوب سے ملنے کو سورج سے تشبیہ دی گئی ہے جب کہ جدائی کو رات سے جوڑا گیا ہے۔ یعنی عاشق و معشوق کی ملاقات روشنی ہے اور دوری اندھیرا ہے ، مگر یہ سب باتیں محبوب کو کہاں سمجھ آتی ہیں۔ وہ لا پرواہ ہے۔
خوبصورت بالوں والا کس کو کہا جا رہا ہے وہ حسین کون ہے، ان سب باتوں کا شاعر کے معشوق کو یاد کرانا بے کار ہے۔ اس لیے کہ اسے ان بکھیڑوں سے لینا دینا ہی نہیں یہ دردسر فقط عاشق کا ہے۔
شعر 5
فیض دلوں کے بھاگ میں ہے گھر بھرنا بھی لٹ جانا بھی
تم اس دل کے لطف و کرم پر کتنے دن اتراؤ گے
لغت بھاگ: بخت مقدر
تشریح:
لطف : عنایت و مهربانی
اترانا: فخر کرنا۔ غرور کرنا
اس شعر میں فیض نے ایک ابدی حقیقت کو بیان کیا ہے۔ دل کبھی خوشی حاصل کرتا ہے اور کبھی اسے غم نصیب ہوتے ہیں۔ یہی زندگی کا اصول ہے کہ وقت بدلتا رہتا ہے۔
اس لیے دل کو جو اطمنیان اور خوشی ملی ہے اس پر غرورمت کرنا کیونکہ کسی بھی وقت یہ کسی بھی معمولی بات پر غمگین ہو جائے گا۔ تھوڑے دنوں کی دولت پر تکبر اچھی بات نہیں ہے۔ بقول
افتخار عارف
ذرا سی دیر کا ہے یہ عروج مال منال
ابھی ے ذہن میں سب زاویے زوال کے رکھ۔
حواشی
کتاب کا نام: شعری اصناف تعارف و تفہیم,کوڈ : 9003,صفحہ: 135,موضوع: فیض کی غزل,مرتب کردہ: ثمینہ شیخ