پشتو ادب میں انشائیہ
انشائیہ (Essay) انگریزی ادب کی ایک مقبول صنف ہے جسے پشتو میں” تکل” کہا جاتا ہے۔
اس کی خصوصیات مضمون اور مقالے سے مختلف ہوتی ہیں۔ پشتو ادب میں اسے آج سے تقریباً پچاس سال پہلے صنوبر حسین مومند اور سید راحت زاخیلی نے متعارف کرایا۔
جنھوں نے اولسی ادبی جرگے ( قیام 1951) کے زیر سایہ کئی اور بھی نئی اور مغربی ادبی اصناف کو پشتو میں متعارف کرایا۔
بعد ازاں کئی پشتون اہل قلم نے اس صنف سخن میں طبع آزمائی، تاہم دوست محمد خان کامل نے باقاعدگی سے انشائیے کو وسیلہ اظہار بنایا اور فنی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر انشائیےلکھے۔
بحیثیت مجموعی پشتو میں لکھے گئے انشائیوں میں مصنفین نے اپنی معاشرتی روایات کو سمونے کے علاوہ پشتو ضرب الامثال اور محاوروں کا بھی بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا
دور جدید میں ” عبد الخالق خلیق کے دو انشائیے، "خلیق” اور” انقلاب زندہ باد” امیر حمزہ خان شنواری کے دو انشائیے” اگر میں وزیر ہوتا "
اور ” نسوار” دوست محمد خان کامل کا "تاترہ "سید محمد تقویم الحق کا کا خیل کا "پتہ” اور قلندر مومند کا ” پلوشہ "اس صنف ادب کے اعلیٰ نمونوں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔
حواشی:
کتاب کا نام:پاکستانی زبانوں کا ادب 2،کورس کوڈ:5618،ص:70،موضوع:انشائیہ ،مرتب کردہ:رومیصہ