کتاب کا نام:میر و غالب کا خصوصی مطالعہ
موضوع: شرح غزلیات غالب
صفحہ نمبر :207تا209
مرتب کردہ : ارحم
___💐___
(غزل 3)
شعر نمبر1
ایک ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
مطلب: حالی مرحوم لکھتے ہیں کہ میں نے جو معشوق کے حسن کی تعریف کی تو جو شخص میرا محرم راز اور ہم نشین تھا وہی شخص تعریف سن کر میرا رقیب بن گیا کیونکہ اول تو ایسے پری وش کی تعریف کی تھی اور وہ بھی مجھ سے جادو بیاں کی زبان سے پہلے مصر کا دوسرا رکن یعنی اور پھر بیاں اپنا سارے شعر کی جان ہے
بنیادی تصور :دلکشی حسن محبوب
شعر نمبر دو
میے وہ کیوں بہت پیتے بزم غیر میں یا رب
آج ہی ہوا منظور ان کو امتحان اپنا
مطلب :اگر وہ بزم غیر میں شریک ہوتے تو اس کثرت سے شراب نہ پیتے لیکن میری بدقسمتی دیکھو میرے گھر آئے تو انہیں اپنے ظرف کا امتحان لینے کی سوجھی چنانچہ انہوں نے اس کثرت سے شراب پی کر بے ہوش ہو گئے نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ لطیف صحبت ہے ختم ہو گیا
بنیادی تصور :تقدیر
شعر نمبر تین
منظر ایک بلند پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے ادھر ہوتا کاشکے کے مکان اپنا
مطلب: ہم ابھی تک عرش تک پہنچے ہی یعنی خدا کے متعلق ہمارے تصور کی پرواز اب تک یہ ہے کہ وہ عرش پر ہے کاش ایسا ہوتا کہ ہمارا تصور ذات باریک کے متعلق عرش کی حدود سے بالاتر فضا میں پرواز کر سکتا اور ہمیں زیادہ سے زیادہ معلوم ہو سکتا
بنیادی تصور: اللہ شانہ اللہ اکبر
شعر نمبر چار
دے وہ جس قدر ذلت ہم جنسی میں نہ لیں گے
بار آشنا نکلا ان کا پاسباں اپنا
مطلب :حالی مرحوم لکھتے ہیں ہوا کہ معشوق کے در کا پاسباں ہمارا جان پہچان نکلا اب ہمارے لیے اس بات کا موقع ہے کہ جس قدر چاہے ذلت دے بنیادی تصور خود فریبی شعر نمبر پانچ درد دل لکھوں کب تک ا جاؤں ان کو دکھلاؤں انگلیاں فگار اپنی خاصہ جو چکا اپنا مطلب کہتے ہیں کہ اظہار درد دل کے سلسلہ میں انہیں اس قدر خطوط لکھ کر انگلیاں کثرت تحریر سے زخمی ہو گئی اور ظلم سے بھی خون کی بوندیں ٹپکنے لگی اب مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ خط لکھنے کے بجائے اپنی زخمی انگلیاں اور خون اور قلم جا کر دکھا دوں کہ میرا یہی حال ہے
بنیادی تصور :ذوق
شعر نمبر سات
تا کرے نہ غمازی کر لیا ہے دشمن کو
دوست کی شکایت میں ہم نے ہم زباں اپنا
مطلب: تاکہ رقیب محبوب سے ہماری چغلی نہ کھا سکے ہم نے اسے بھی دوست کی بے وفائی کی شکایت میں اپنا ہم زبان اور ہم خیال بنا لیا ہے
بنیادی تصور جان ستم گر محبوب
شعر نمبر اٹھ
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا
مطلب: عام طور پر خیال یہ ہے کہ آسمان اصحاب ہنر اور ارباب دانش کا دشمن ہوا کرتا ہے اس خیال کے پیش نظر غالب نے یہ نقطہ پیدا کیا کہ ہم نہ تو دانا تھے نہ کسی ہنر میں یکتا تھے پھر بھی وجہ ہے کہ اسمان ہمارا دشمن ہو گیا
بنیادی تصور: آسمان کی دشمنی, دانائی, ہنر مندی
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں