ایک لکھاری کی فکری اسلوبی اور تحریرانہ ارتقاء کیسے ہوتی ہے؟

ایک لکھاری کی فکری اسلوبی اور تحریرانہ ارتقاء

ایک لکھاری کی فکری اسلوبی اور تحریرانہ ارتقاء کیسے ہوتی ہے؟، سچ کہوں تو،میں نے ہر بار اپنے عزائم کو موہوم جانا۔اور صدق دل سے بگڑے ہوئے حالات کو،سج دھج سے سدھارنے اور سنوارنے پر بصد شوق،سوچ و بچار کی۔میرے خیالات و تصورات کا اطلاق ان چیزوں پر بالکل صحیح نہیں اترتا۔جن میں،میرے مطابق توسیع و ترمیم کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اس توسیع و ترمیم کو ہرگز حکومت وقت،کے ان ترقیاتی اور آئینی معاملات سے دور دور کا بھی کوئی مادری و پدری رشتہ نہیں،جس کا صرف ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔

کیونکہ ڈھنڈورا پینڈورا کی سگی بہن ہوتی ہے۔اور یہ دونوں آئین اور ترمیم کیلئے پروپیگنڈا کا روپ دھار کر،اپنی مستقل و مستعمل نوع پر مشتمل ہوکر ایک ایسی قتالہءعالم،لرزندہءجہاں،بے مہر و بے مہار، اور طلسم ہوش ربا بن جاتیں ہیں،جس کا کوئی بھی کمرتوڑ،اور گردن مروڑ محکمہ اب تک وجود میں نہیں آیا۔

جیسا کہ رب العالمین نے ہر شے کو جوڑوں میں پیدا فرمایا،ٹھیک ایسی طرح ہر سرشت،نوشت،علت و معلول،”موھوم”اور "مذموم”کو بھی ایک عزم یا عزائم میں متضاد خصوصیات کے ساتھ یکجا کیا۔یہ الگ بحث ہے۔کہ انسانی معاشرہ،اپنی جعرافیائی مجبوریوں میں بٹا ہواہے

۔۔۔۔۔اور عرصہءدراز سے”سرگشتہءخمار،رسوم و قیود ہے”ہر بندے کا اپنا نقظہ نظر ہے،جس پر وہ تولتا بھی ہے،پرکھتا بھی ہے،اور”مولتا”بھی ہے۔انمول بات تو یہ ہے کہ میرے موھوم عزائم کو ہر دور میں مذموم قرار دیاگیا ہے۔

لیکن مجال ہے کہ میری طبیعت”مستانہ”اپنی خصلت رندانہ سے باز آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں ہزار لغزشوں کے باوجود،پائے استقلال میں لرزش تک محسوس نہیں کی،اور "منا بھائی” کی طرح برابر لگا رہا۔

ادب میں فرسودہ،دقیانوسی اور رجعت پسندانہ عناصر سے پالا پڑا،تو ترقی پسندی کا علمبردار بن کر سامنے آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گلی گلی،گاوں گاؤں،اور شہردرشہر۔۔۔۔۔۔۔۔پروگریسیو افکار کا ڈھول پیٹنے کے بعد،تھکا ماندہ،اپنی پسپائی کی کھاری ضربیں کھاکر حلقہ بگوش ہونا پڑا۔

ساتھ میں ،گمراہی۔۔۔۔۔بدزبانی۔۔۔۔بدتمیزی۔۔۔۔اور مادہ پرستانہ سوچ رکھنے،کے تمغے بھی کاندھوں پر لگائے گئے۔جس پر آج بھی ہمیں ناز ہے۔جبکہ بے شمار”گالیاں کھاکے بھی بے مزا نہ ہوا”

میری اس”عجب پریم کی غضب کہانی”یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔بلکہ مزید آگے چل کر،مختلف افعال و اشکال میں ڈھل کر،تبدیل ہوتی ہوئی اپنے انجام کار کو پہنچتی ہے۔

ترقی پسندی کا بھوت سر سے اترتے ہی،مطالعہ کی کمی کا شدت سے احساس ہوا۔لاعلمی کے ایسے بادل سر پر منڈلانے لگے کہ ہمیں مجبور ہوکر کہنا پڑا:
"اے ابرِ کرم،تھم تھم کے برس
اتنا نہ برس کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”


مطالعہ کیا تھا؟بس جو بھی کتاب،اخبار،رسالہ حتیٰ کہ کوئی پوسٹر اور پمفلٹ بھی میسر ہوتیں،تو میری روایتی چاٹ چپٹ کے ہتھے چڑھتیں گئیں۔

محدود عرصے میں لا محدود مطالعاتی بدہضمی کا شکار ہوکر،امت مسلمہ کو ایک ہی لڑی میں پرونے کا مقدس اردہ کیا۔

پھر کیا تھا؟کہ معاشرے میں موجود فرقہ وارانہ سرگرمیاں جوق درجوق ہمارے”پردہ شکن” اور تیز طرار نگاہوں کے سامنے عیاں ہونے لگیں۔

ساتھ ساتھ ہم نے بھی ڈاکٹر غلام جیلانی برق،علامہ نیاز فتح پوری،اور مولانا مودودی کی ارواح مقدسہ کو اپنے روح میں تحلیل کروانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اپنی کوششیں تیزتر کردی۔

تمام مذاہبِ عالم،و مسالک عالم کو”ایک اسلام” کے مختلف حصےگرداننا شروع کیئے۔کام مشکل تھا،لیکن”بحر ظلمات پر دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے”کیونکہ دنیا تو پہلے سے تھی ہی”فقط مومن جانباز کی میراث…………..”ستم ظریفی تو دیکھیئے کہ بات یہاں بھی نہیں ٹھکتی

۔۔۔۔۔۔بلکہ توقعات کے برعکس،کسک کر”شھادت حق”تک جاپہنچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بعد اس کے "مذھب” کو فطرت،خوف،اور جعرافیائی تقاضوں کے مطابق انسانی اذھان و اجسام کے باھمی گٹھ جوڑ کا ایک خود ساختہ آلہ جان کر ایسے”بکواسیات”کیئں،

جن سے تمام واہیات و فضولیات بھی سمٹ کر،بلکہ شرمسار ہوکر رہ گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظاہر ہے کہ ان کا مداوا بھی ناممکن تھا۔۔۔۔۔۔۔لھذا اب کے بار بھی ہمیں ملامت۔۔۔۔ ندامت۔۔۔۔۔مذمت۔۔۔۔اور عوامی مرمت کا سامنا کرنا پڑا ۔
جس سے ایک حد تک از خود ہوش ٹھکانے لگانے میں مدد ملی۔

عام معاشرتی مسائل کو سلجھانے اور سدھارنے،میں منہ کا کالا ہونا تو جیسے مجھے گھٹی میں ملی ہو،جبین پرتپاک پر کالک کے بے شمار داغ سجاکر مارے مارے پھرنا میرے لیئے معول کی بات تھی۔


اکثر دو فریقوں کے درمیان صلح صفائی کا نیک کام،انجام کار کو پہنچتے ہی،ممیروں چچیروں کی ناراضگی کا سارا نزلہ ہم پر گر کر یا گراکر،دونوں فریقین گلے ملتے ہی ہم سے محاذ آرائیوں پر اترتیں دیکھنے کو ملتی۔بلکہ سارے نا مساعد حالات کی ذمہ داری بھی بزور شمشیر ہم پر ڈالتیں گئی۔

یوں،انہی دشوار گزار راستوں سے گزر کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔انسانوں کے بنائے،تصورات و نظریات کو ٹٹول کر،اور اچھے طریقے سے تول کر میں ایک ایسے نظریہ کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوا ہوں۔جس کو اپنا کر نوع انسانی کی پیشتر،و بیشتر مسائل کا حل ہونا قطعی یقینی ہوسکتا ہے

۔۔۔۔۔۔اب اللہ کا بڑا کرم ہے کہ میں جس نظریہ کو اپنا کر دن دوگنی،رات چوگنی ترقی کر رہا ہوں،تو کیوں نا،اپ کو بھی اس "راز بے نیاز” سے شناسا کروادوں۔۔۔۔۔۔۔؟کیونکہ میں ان تمام سابقہ و مذکورہ نظریات کو دوسرے انسانوں پر تو کیا؟خود اپنے آپ پر بھی”مسلط”کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیئے جا بجا۔۔۔۔۔۔اب میرا نظریہ یہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ میرا نظریہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔!!!!

حواشی

افتخار ساحل : ایک لکھاری کی فکری اسلوبی اور تحریرانہ ارتقاء کیسے ہوتی ہے؟
(آج کا کالم روزنامہ شہباز پشاور)
ستمبر2020ء
میں۔۔۔۔۔۔۔اور میرے”مذموم عزائم”

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں