دنیا میں زبانوں کے خاندان

دنیا میں زبانوں کے خاندان

دنیا میں زبانوں کے خاندانوں کا مطالعہ ایک قدیم اور دلچسپ موضوع ہے جو مختلف زبانوں کے آپس میں تاریخی، لسانی اور جغرافیائی روابط کو جانچتا ہے۔ زبانیں انسانی تہذیب کے ارتقاء کی ایک لازمی جزو رہی ہیں، اور ان کا مطالعہ نہ صرف لسانی تجزیے کے لیے بلکہ انسانی تاریخ اور ثقافت کو سمجھنے کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔

  1. زبانوں کے خاندان: تعارف اور تاریخ
    زبانوں کے خاندانوں کا تصور 19ویں صدی میں لسانیاتی تحقیق کے فروغ کے ساتھ سامنے آیا، خاص طور پر یورپ میں۔ اس وقت لسانیات دانوں نے محسوس کیا کہ مختلف زبانیں ایک دوسرے سے بہت سی مشابہتیں رکھتی ہیں، اور ان کا ایک مشترکہ ماخذ ہو سکتا ہے۔ 1786 میں، سر ولیم جونز نے پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا کہ سنسکرت، یونانی، لاطینی، اور دیگر یورپی زبانیں ایک ہی مشترکہ قدیم زبان سے نکلی ہیں۔ یہ نظریہ بعد میں "ہند-یورپی زبانوں” کے خاندان کے قیام کا سبب بنا۔

1.1. لسانیات کی بنیادیں اور ابتدائی تحقیق
جدید لسانیات کی ابتدا اس بات سے ہوئی کہ مختلف زبانوں کی تاریخی اور موازناتی تحقیق کی جائے۔ اس تحقیق کا مقصد یہ تھا کہ آیا زبانوں میں کسی قسم کا لسانی رشتہ موجود ہے یا نہیں۔ مختلف زبانوں کے قواعد، لغات، اور صوتیات کا تجزیہ کیا گیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان میں کوئی مشترک بنیاد موجود ہے۔

ابتدائی لسانی محققین نے محسوس کیا کہ زبانوں کے مختلف خاندان ہوتے ہیں جن میں کچھ زبانیں مشترکہ بنیادوں پر ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں۔ اس قسم کی تحقیق کو "موازناتی لسانیات” (Comparative Linguistics) کہا جاتا ہے، جس کے ذریعے زبانوں کے خاندانوں کو تلاش کیا گیا۔

1.2. زبانوں کا ارتقاء اور بکھراؤ
انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں زبانیں ایک جگہ پر ٹھہری نہیں رہیں، بلکہ وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہیں۔ یہ تبدیلیاں زبانوں کے قواعد، لغات اور تلفظ میں آئیں۔ جب ایک ہی زبان بولنے والے مختلف علاقوں میں پھیلتے ہیں یا مختلف ثقافتوں کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں، تو زبان میں نئے عناصر داخل ہوتے ہیں اور وہ بدلنے لگتی ہے۔

مثال کے طور پر، رومی سلطنت کے دور میں لاطینی زبان یورپ کے مختلف علاقوں میں بولی جاتی تھی، لیکن وقت کے ساتھ مختلف علاقوں میں اس کے مختلف ورژن (بولیاں) بن گئے جو آج کی رومانس زبانیں کہلاتی ہیں، جیسے فرانسیسی، ہسپانوی، اور اطالوی۔

  1. زبانوں کے خاندانوں کی تشکیل کا طریقہ
    زبانوں کے خاندانوں کی تشکیل کے پیچھے ایک بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ مختلف زبانیں ایک ہی بنیادی زبان سے نکلی ہیں، یا ان کا تاریخی ارتقاء ایک ہی جگہ سے ہوا ہے۔ لسانیات دان زبانوں کی صوتیات، لغات اور گرامر کا تجزیہ کر کے ان کے خاندانوں کا تعین کرتے ہیں۔

2.1. لسانی درخت کا نظریہ
زبانوں کے خاندانوں کی وضاحت کے لیے اکثر "لسانی درخت” کا تصور استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ درخت اس بات کی نمائندگی کرتا ہے کہ ایک بنیادی زبان کیسے وقت کے ساتھ مختلف ذیلی زبانوں میں تقسیم ہوئی اور یہ زبانیں کیسے آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ ہر زبان ایک شاخ کی طرح ہے، اور ان کی مشترکہ بنیاد ایک تنے کی مانند ہے۔

مثال کے طور پر، ہند-یورپی لسانی خاندان ایک درخت کی طرح ہے جس کا تنہ قدیم ہند-یورپی زبان ہے، اور اس کی شاخیں مختلف زبانوں جیسے کہ سنسکرت، یونانی، جرمن اور دیگر ہیں۔

2.2. زبانوں کے خاندانوں کی اقسام
دنیا میں سینکڑوں زبانوں کے خاندان ہیں، لیکن چند بڑے اور مشہور خاندان درج ذیل ہیں:

ہند-یورپی خاندان: یہ دنیا کا سب سے بڑا لسانی خاندان ہے، جو یورپ اور جنوبی ایشیا کے بیشتر علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں پر مشتمل ہے۔
چینی-تبتی خاندان: چین اور تبت کے علاوہ جنوب مشرقی ایشیا میں بولی جانے والی زبانوں پر مشتمل ہے۔
افرو-ایشیائی خاندان: اس میں عربی، عبرانی، اور شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں بولی جانے والی زبانیں شامل ہیں۔
نیجر-کونگو خاندان: یہ افریقہ کا سب سے بڑا زبانوں کا خاندان ہے، جس میں سواحلی، یوروبا، اور شونا جیسی زبانیں شامل ہیں۔
آسٹرونیشین خاندان: یہ خاندان جنوب مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے جزائر میں بولی جانے والی زبانوں پر مشتمل ہے۔

  1. ہند-یورپی خاندان: سب سے بڑا لسانی خاندان
    ہند-یورپی زبانوں کا خاندان دنیا کا سب سے بڑا لسانی خاندان ہے، جس میں تقریباً 445 زبانیں شامل ہیں۔ اس خاندان میں تقریباً 3 ارب سے زیادہ لوگ بولنے والے ہیں۔ اس کا تاریخی ماخذ قدیم ہند-یورپی زبان ہے جو تقریباً 4000 سال قبل وسطی ایشیا میں بولی جاتی تھی۔

3.1. ہند-یورپی زبانوں کی تقسیم
ہند-یورپی خاندان کی سب سے بڑی ذیلی تقسیمیں درج ذیل ہیں:

انڈو-آریائی شاخ: اس میں ہندی، اردو، بنگالی، پنجابی، گجراتی اور دیگر زبانیں شامل ہیں۔
سلاوی شاخ: روسی، پولش، یوکرینی اور دیگر سلاوی زبانیں۔
جرمن شاخ: انگریزی، جرمن، ڈچ، سویڈش اور نارویجین۔
رومانس شاخ: فرانسیسی، ہسپانوی، اطالوی، پرتگالی، اور رومانی۔
3.2. ہند-یورپی زبانوں کی تحقیق اور پھیلاؤ
ہند-یورپی زبانوں کے پھیلاؤ کا ایک بڑا حصہ انسانی ہجرتوں اور سلطنتوں کے عروج و زوال کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ رومی سلطنت نے لاطینی زبان کو یورپ کے مختلف حصوں میں پھیلایا، اور وقت کے ساتھ مختلف رومانس زبانیں اس سے وجود میں آئیں۔

  1. دیگر بڑے لسانی خاندان
    4.1. چینی-تبتی خاندان
    چینی-تبتی خاندان میں دو بڑی شاخیں ہیں: چینی زبانیں اور تبتی-برمی زبانیں۔ مینڈرن چینی، جو دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے، اسی خاندان کا حصہ ہے۔

4.2. افرو-ایشیائی خاندان
افرو-ایشیائی خاندان قدیم مصری اور سمیٹک زبانوں کے ارتقاء پر مبنی ہے۔ اس میں عربی اور عبرانی جیسی زبانیں شامل ہیں جو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں بولی جاتی ہیں۔

4.3. نیجر-کونگو خاندان
نیجر-کونگو خاندان افریقہ میں سب سے زیادہ پھیلا ہوا ہے اور اس میں 1,500 سے زیادہ زبانیں شامل ہیں۔ سواحلی، یوروبا، اور زولو اس خاندان کی مشہور زبانیں ہیں۔

4.4. آسٹرونیشین خاندان
آسٹرونیشین خاندان جنوب مشرقی ایشیا، بحرالکاہل، اور بحر ہند کے جزائر میں بولی جانے والی زبانوں پر مشتمل ہے۔ انڈونیشیائی، ملائیشین اور تاگالوگ (فلپائن) اس خاندان کی زبانیں ہیں۔

  1. زبانوں کے خاندانوں کا ارتقاء اور تاریخی پس منظر
    زبانوں کے خاندانوں کا ارتقاء انسانی ہجرتوں، سلطنتوں کے پھیلاؤ، اور ثقافتی تبادلوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ قدیم زمانے میں جب انسان مختلف علاقوں میں ہجرت کر کے بسا، تو زبانیں بھی ان کے ساتھ منتقل ہوئیں۔ مختلف ثقافتوں کے اختلاط سے زبانیں تبدیل ہوتی رہیں۔

5.1. زبانوں کے ارتقاء کے نظریے
زبانوں کے ارتقاء کا نظریہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ایک ہی مادری زبان کیسے مختلف بولیوں اور زبانوں میں تقسیم ہو سکتی ہے۔ یہ عمل زیادہ تر تاریخی ہجرتوں، جنگوں، تجارتی راستوں، اور سیاسی حالات کی وجہ سے ہوتا ہے۔

5.2. نوآبادیاتی دور اور زبانوں کی تبدیلی
نوآبادیاتی دور میں یورپی طاقتوں کے دنیا کے مختلف حصوں پر تسلط کے باعث مقامی زبانوں پر انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی اور پرتگالی جیسی نوآبادیاتی زبانوں کا اثر پڑا۔ اس کے نتیجے

  1. نوآبادیاتی دور اور زبانوں کی تبدیلی
    نوآبادیاتی دور میں یورپی طاقتوں کے دنیا کے مختلف حصوں پر تسلط نے مقامی زبانوں پر گہرا اثر ڈالا۔ یورپی نوآبادیاتی حکمران اپنی زبان کو اقتدار، تعلیم، اور تجارت کا ذریعہ بنا کر مقامی آبادیوں پر مسلط کرتے رہے، جس سے مقامی زبانوں کی حیثیت کمزور ہو گئی۔ انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی اور پرتگالی زبانیں نوآبادیاتی حکمرانی کے اہم ذرائع بن گئیں۔

6.1. انگریزی زبان کا عالمی غلبہ
انگریزی زبان نے نوآبادیاتی دور کے بعد بین الاقوامی رابطے، سائنس، تجارت اور تعلیم کے شعبوں میں سب سے زیادہ اثر قائم کیا۔ اس کی وجہ نوآبادیاتی حکمرانی کے دوران انگریزی زبان کی تعلیم، اس کا سرکاری کاموں میں استعمال اور بعد میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی عالمی طاقت تھی۔

ہندوستان میں انگریزی کا فروغ: برطانوی راج کے دوران انگریزی کو ہندوستان میں سرکاری زبان کے طور پر نافذ کیا گیا۔ اسے عدالتوں، تعلیمی اداروں اور حکومت میں استعمال کیا گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کے بعد بھی انگریزی نے ہندوستانی معاشرے میں اہمیت برقرار رکھی۔
6.2. فرانسیسی اور ہسپانوی زبانوں کا کردار
فرانسیسی زبان نے افریقی ممالک اور کیریبین میں اپنا اثر قائم کیا۔ نوآبادیاتی دور کے دوران فرانسیسی کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کیا گیا، اور آج بھی کئی افریقی ممالک میں فرانسیسی زبان تعلیم اور حکومت میں اہمیت رکھتی ہے۔

لاطینی امریکہ میں ہسپانوی زبان کا پھیلاؤ: جنوبی امریکہ اور وسطی امریکہ میں ہسپانوی زبان کا غلبہ نوآبادیاتی دور کی ایک اہم نشانی ہے۔ اسپین کے حکمرانوں نے ہسپانوی کو مقامی زبانوں کی جگہ دیا اور اس کے بعد یہ زبان لاطینی امریکہ میں مستقل طور پر قائم ہو گئی۔

  1. زبانوں کا اختلاط اور نئی زبانوں کا جنم
    نوآبادیاتی دور میں نہ صرف یورپی زبانوں کا غلبہ بڑھا، بلکہ زبانوں کے اختلاط کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ مقامی زبانوں اور نوآبادیاتی زبانوں کے درمیان ملنے جلنے سے نئی زبانیں اور بولیاں جنم لینے لگیں۔ ان زبانوں کو "کریول” اور "پیڈجن” زبانیں کہا جاتا ہے، جو مختلف زبانوں کے عناصر کو ملا کر وجود میں آئیں۔

7.1. کریول زبانیں
کریول زبانیں ان معاشروں میں پیدا ہوئیں جہاں مختلف زبان بولنے والے گروہ رابطے میں آئے اور ایک نئی زبان نے جنم لیا۔ یہ عام طور پر غلامی کے دوران یا تجارتی مراکز میں پیدا ہوئیں، جہاں مختلف لسانی پس منظر رکھنے والے افراد ایک ساتھ رہتے تھے۔

ہیٹی کریول: یہ زبان فرانسیسی اور افریقی زبانوں کے ملنے سے بنی ہے، جو ہیٹی میں بولی جاتی ہے۔
جماائیکن پٹوئس: یہ زبان انگریزی اور افریقی زبانوں کے اختلاط سے وجود میں آئی اور آج جماعیکا میں بولی جاتی ہے۔
7.2. پیڈجن زبانیں
پیڈجن زبانیں عام طور پر دو یا دو سے زیادہ زبانوں کے بولنے والوں کے درمیان رابطے کی ضرورت کے تحت پیدا ہوتی ہیں۔ ان میں عام طور پر سادہ گرامر اور لغت ہوتی ہے اور ان کا استعمال تجارتی یا معاشرتی رابطے کے لیے ہوتا ہے۔

ٹوک پِسن: یہ ایک پیڈجن زبان ہے جو انگریزی اور مقامی ملانیشین زبانوں کے اختلاط سے پاپوا نیوگنی میں وجود میں آئی۔

  1. لسانیاتی احیاء اور زبانوں کی بقا کی تحریکیں
    بہت سی زبانیں نوآبادیاتی دور اور جدیدیت کے دباؤ کی وجہ سے ختم ہونے کے قریب پہنچ چکی ہیں، مگر مختلف ممالک اور ثقافتی گروہ اپنی زبانوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس عمل کو "لسانیاتی احیاء” کہا جاتا ہے، جس میں مختلف اقدامات کے ذریعے ناپید ہوتی زبانوں کو بچانے اور دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

8.1. زبان کی دستاویز سازی
زبان کی دستاویز سازی وہ عمل ہے جس میں نایاب اور ختم ہوتی زبانوں کے گرامر، الفاظ اور تلفظ کو محفوظ کیا جاتا ہے تاکہ آئندہ نسلیں اسے استعمال کر سکیں۔

8.2. تعلیمی پروگرام اور زبانوں کی تدریس
کئی مقامی کمیونٹیز اپنی زبانوں کو دوبارہ فروغ دینے کے لیے تعلیمی پروگرام شروع کر رہی ہیں۔ مثلاً، نیوزی لینڈ میں ماؤری زبان کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے اسکولوں میں ماؤری زبان کی تعلیم دی جا رہی ہے۔

ماؤری زبان کی احیاء: نیوزی لینڈ میں ماؤری کمیونٹی نے اپنی زبان کو بچانے کے لیے بڑے پیمانے پر تعلیمی اور ثقافتی تحریکیں شروع کی ہیں، جس کے نتیجے میں ماؤری زبان کو قومی زبان کا درجہ بھی حاصل ہوا۔
8.3. ٹیکنالوجی اور زبانوں کا تحفظ
جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے نایاب زبانوں کی حفاظت اور ترویج میں مدد ملی ہے۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، لغات، اور تعلیمی ویڈیوز کے ذریعے زبانوں کو محفوظ کیا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے مقامی زبانوں کو عالمی سطح پر پہنچایا جا رہا ہے۔

  1. مستقبل میں زبانوں کے خاندانوں کے لیے چیلنجز
    دنیا بھر میں زبانوں کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، خاص طور پر وہ زبانیں جو چھوٹے گروہوں میں بولی جاتی ہیں۔ ان چیلنجز میں عالمی زبانوں کا غلبہ، معیشتی عوامل، اور تعلیمی نظام شامل ہیں، جہاں مقامی زبانوں کی جگہ بڑی زبانوں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

9.1. عالمی زبانوں کا دباؤ
انگریزی، چینی اور ہسپانوی جیسی زبانوں کا بین الاقوامی میدان میں غلبہ ان چھوٹی زبانوں کو متاثر کر رہا ہے جن کے بولنے والے تعداد میں کم ہیں۔ عالمی رابطے، کاروبار اور تعلیم میں بڑی زبانوں کی ترجیح کی وجہ سے چھوٹی زبانیں دباؤ میں ہیں اور ان کے بولنے والوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔

9.2. زبانوں کی معدومی
یونیسکو کی رپورٹوں کے مطابق، دنیا میں ہر دو ہفتے میں ایک زبان ختم ہو جاتی ہے۔ اس طرح نایاب زبانوں کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ وہ ختم ہونے سے بچ سکیں۔

  1. زبانوں کا مستقبل اور عالمی لسانی ورثہ
    زبانوں کا مستقبل کئی چیلنجز اور مواقع کے درمیان ہے۔ جہاں بہت سی زبانیں ختم ہونے کے قریب ہیں، وہیں نئی زبانوں اور لسانی تحریکوں کا جنم بھی ہو رہا ہے۔ لسانی تحقیق اور لسانی ورثے کے تحفظ سے دنیا بھر کی زبانوں کو بچانے اور ان کے ارتقاء کو سمجھنے میں مدد مل رہی ہے۔

10.1. لسانی تحقیق کا کردار
زبانوں کے خاندانوں کا مطالعہ لسانی تحقیق کا ایک اہم حصہ ہے، جو ہمیں انسانی تاریخ، ثقافت، اور سماجی تعلقات کی بہتر تفہیم فراہم کرتا ہے۔ زبانوں کے خاندانوں کی تفصیل اور ان کے ارتقاء کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں نے ہزاروں سالوں میں کس طرح ایک دوسرے سے رابطہ کیا اور اپنی ثقافتوں کو کیسے پروان چڑھایا۔

10.2. زبانوں کے تحفظ کے لیے عالمی تحریکیں
زبانوں کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے مختلف عالمی ادارے جیسے یونیسکو اور لسانیاتی انجمنیں کوشش کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کا مقصد زبانوں کے ثقافتی اور لسانی ورثے کو محفوظ رکھنا اور آئندہ نسلوں تک منتقل کرنا ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں