ڈاکٹر وحید قریشی: ادبی شخصیت، تنقیدی نظریات اور حلقہ ارباب ذوق سے تعلق
موضوعات کی فہرست
ڈاکٹر وحید قریشی کا تعارف
ڈاکٹر وحید قریشی ۱۹۲۵ء کو میانوالی میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک نامور محقق، استاد، دانش ور اور نقاد کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ ۱۹۴۵ء میں حلقہ ارباب ذوق کے رکن بنے۔ اس کے علاوہ بہت سی ادبی انجمنوں میں بھی شامل رہے۔ ہم ان کو یہاں صرف بطور نقاد (حلقہ ارباب ذوق کے حوالے سے) ہی زیر بحث لائیں گے۔
وحید قریشی کا اصل شعبہ تحقیق ہے لیکن تحقیق کے ساتھ ساتھ انھوں نے ادبی تنقید میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ تنقیدی آراء کے آغاز کے بارے ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں:
"دراصل لاہور اور اس کی تہذیبی فضا نے مجھے متاثر کیا ہے…. ۱۹۴۲ء میں جب گورنمنٹ کالج میں میرا دوسرا سال تھا، میں نے جدید اردو شاعری اور فارسی کی کتابیں جمع کرنا شروع کر دی تھیں ۔ اس دوران اختر شیرانی، حفیظ جالندھری اور احسان دانش کے تتبع میں شعر بھی کہے۔
کالج لائف میں ہی تاریخ، منطق، اردو نثر، اردو شاعری، قدیم و جدید تنقید، اردو اور انگریزی شاعری، فارسی شاعری، فارسی افسانہ، اور نفسیات کی کتابیں پڑھنے لگا۔ فرائڈ، ایڈلر، میکڈوگل کو بھی اسی زمانے میں پڑھا۔ مغربی تنقید کو ۱۹۴۵ء کے قریب انہماک سے دیکھا۔ ٹی ایس ایلیٹ، آئی اے رچرڈز، ہی آریوش، ایف آرلیولیس، اور ہربرٹ ایڈ کو بھی پڑھا۔ سید عابد علی عابد، ڈاکٹر اقبال مرحوم، ڈاکٹر سید عبد اللہ اور عباس ابن شوتری ایسے اساتذہ سے استفادہ کیا۔
قیوم نظر نے مولانا صلاح الدین احمد مرحوم سے تعارف کرایا۔ حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں کنہیا لال کپور، شیر محمد اختر، اور یوسف ظفر سے تعارف ہوا …. حلقہ ارباب ذوق کے جلسوں میں شرکت کا موقع ملا تو ان دنوں ہنس راج رہبر اور نریش کمار شاد بھی نئے لکھنے والوں میں شمار ہوتے تھے اس لیے اگر میں یہ کہوں کہ میری ادبی شخصیت کی تشکیل اور نشو و نما میں لاہور ہی کا ہاتھ ہے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا”۔
ڈاکٹر وحید قریشی کے تنقیدی نظریات
سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے وہ تمام تفاصیل فراہم کر دیں جو کہ ان کی شخصیت اور ادبی نظریات کا کھوج لگانے کے لیے درکار تھیں۔ حلقہ ارباب ذوق سے ان کا تعلق اور حلقے کی ادبی تنقید سے نظریاتی وابستگی کا آغاز بھی لاہور میں حلقے کے جلسوں میں شرکت سے ہوا۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے انٹرویو میں واضح کیا ہے کہ لاہور کی ادبی و تہذیبی فضا کے پروردہ ہیں جن ادیبوں، نقادوں اور مفکرین کا ذکر کیا ہے ان میں فرائڈ کا ذکر بطور خاص آیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نہ صرف فرائڈ کے نظریات سے متاثر تھے بلکہ تنقید میں بھی ان نظریات کے اطلاق کے حامی نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا پہلا تنقیدی شاہکار "شبلی کی حیات معاشقہ” ہے۔
ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:
"ایک طویل عرصے تک ڈاکٹر وحید قریشی کی تنقید کو بت شکنی کا عمل قرار دیا جاتا رہا ہے اور یہ بات کچھ غلط بھی نہیں تھی کہ انھوں نے جب تنقید نگاری کا آغاز کیا تو اس سفر کے پہلے قدم پر ہی شبلی نعمانی جیسے قد آور ادیب کے ذہنی محرکات کی تلاش شروع کر دی اور اس سیاحت میں ڈاکٹر وحید قریشی داخل کے نادریافت جزیروں میں بہت دور تک بلا رکاوٹ نکل گئے ۔”
ڈاکٹر وحید قریشی کسی خاص مکتبہ فکر کے نقاد نہ تھے۔ ان کی تنقید کے بارے جو رائے سامنے آتی ہے اس کو تجزیاتی نفسیاتی تنقید کہا جا سکتا ہے۔
نفسیاتی طریقے کار کو اپناتے ہوئے وہ شاعر یا ادیب کے زندگی کے حالات کو اکٹھا کرتے ہیں اور نفسیاتی اصولوں کی مدد سے شخصیت کا تجزیہ کرتے ہیں فن پارے کا پس منظر معلوم کرتے ہیں۔ جیسا کہ "شبلی کی حیات معاشقہ” میں کیا گیا ہے۔ بعض لوگوں کو غلطی ہوئی کہ شبلی کو جنسی معاملات میں ملوث کیا جا رہا ہے ۔
حالانکہ شبلی کی زندگی کے کوائف اور ان کی شاعری کو فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفسی کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ اور شخصیت کے ہم جہت ہونے کے لیے ایک خاص پہلو کو بھی پیش کیا گیا۔ اردو تنقید میں یہ ایک رجحان ہے اور مکمل نفسیاتی مطالعہ بھی۔
حوالہ جات
- مقالے کا عنوان: اُردو تنقید اور حلقہ ارباب ذوق (70کی دہائی تک)
- مقالہ برائے: پی ایچ ڈی اردو
- مقالہ نگار: خالد حسین شاہ
- نگران مقالہ: ڈاکٹر رشید امجد
- یونیورسٹی: نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز ، اسلام آباد
- صفحہ نمبر: 223-222
- آپ تک پہنچانے میں معاون: مبشرہ منیر احمد