مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

ڈاکٹر جمیل جالبی تنقید، تحقیق اور ادبی خدمات

ڈاکٹر جمیل جالبی تنقید، تحقیق اور ادبی خدمات

ڈاکٹر جمیل جالبی

ڈاکٹر جمیل جالبی تنقید نگار محقق اور مترجم کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ۱۹۲۹ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے ۔ اور سندھ یونی ورسٹی جام شورو سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی شخصیت اور فن پر متعدد کتب لکھی جاچکی ہیں۔

وہ متعدد تنقیدی و تخلیقی کتب لکھ چکے ہیں۔ ان کی تخلیقات کا عالمی سطح پر اعتراف کیا جاتا ہے۔ ساری زندگی ادب کی خدمت میں گزری۔ ان کے بغیر اردو ادب کا ذکر نا مکمل رہے گا۔ یہاں پر صرف ڈاکٹر جمیل جالبی کی تنقید اور تنقیدی رجحانات کا بیان ضروری ہے۔

ان کی تنقید فکری رویوں کی حامل اور اسلوب جمالیاتی آہنگ کا حامل ہوتا ہے۔ وہ تنقیدی روایت سے ہٹ کر ایک نقاد ہیں جو طے شدہ فارمولوں یا تنقیدی نظریات کے پابند نہیں ہوتے۔

وہ ہند اسلامی تہذیب اور تاریخ سے تصورات کشید کرتے ہیں ان کے ہاں تنقید کا جمالیاتی پہلو حلقہ ارباب ذوق کے فنی و جمالیاتی تنقیدی نقطہ نظر سے ملتا ہے۔ ان کی تنقید میں تخلیقی چاشنی نظر آتی ہے۔ اور ساتھ ساتھ جمالیات کی رنگینی بھی لیے ہوئے ہوتی ہے۔ ان کا اسلوب اسی رنگینی اور چاشنی سے مترشح ہے۔

ڈاکٹر جمیل جالبی ادب اور تنقید کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

ادب میرا بنیادی حوالہ ہے اور تنقید میرے لیے وہی حیثیت رکھتی ہے جو شاعر کے لیے شاعری، ناول نگار کے لیے ناول یا ڈرامہ نویس کے لیے ڈرامہ رکھتا ہے، بلکہ دونوں کے امتزاج کو ضروری سمجھتا ہوں (۴۶)

بیسیویں صدی تبدیلی کی صدی ہے جس میں سائنسی رویے پروان چڑھے صدیوں پرانے فلسفیانہ نظریات کی جگہ سائنسی نظریات نے لینا شروع کی۔ معاشرتی زندگی کی اقدار پر بھی ضرب لگی اس سے انسان نئی فکر میں مبتلا ہو گیا۔

مشرقی اور مغربی افکار میں ٹکراؤ کی صورت حال نے زندگی میں بنیادی تبدیلیاں لانا شروع کیں ۔ جس سے جمالیاتی آہنگ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں۔

تخلیقی و فکری عمل کی دریافت نو سے ہمارے ہاں نئے اور بڑے تخلیقی و تہذیبیں دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ تنقید ہمیشہ سے یہی کام کرتی آئی ہے۔ اس وقت ادب کے بحران کا بنیادی سبب بھی یہی ہے کہ تنقید نے اپنا یہ کام بند کرایا ہے۔

نہ صرف تنقید نے ، بلکہ تخلیقی کام کرنے والوں نے بھی یہ کام چھوڑ دیا ہے اور خود کو اپنی ذات کے نہاں خانے میں قید کر کے بھول گئے ہیں کہ دور حاضر کے حوالے سے اپنی تہذیب کا عرفان، تخلیقی روح کو پروان چڑھاتا اور صحت عطا کرتا ہے ۔

اس صورت حال کا شعور ہی ہماری نئی تخلیقی و فکری زندگی کا ضامن ہے اور اسی شعور سے امتزاج کا عمل وجود میں آئے گا اور اس امتزاج سے ہمارا ادب بحران سے نکل کر نئے اور بڑے تخلیقی دور میں داخل ہو گا۔ یہ میرا ایقان ہے۔ (۴۷)

ڈاکٹر جمیل جالبی پاکستانی ثقافت اور قومی طرز احساس کی بنیاد مذہب کو مانتے ہیں۔ یہ مذہب ہی برصغیر میں ایک پہچان کی صورت اختیار کر گیا۔ اسی طرح ان کا خیال ہے کہ قومی کلچر میں علاقائی رنگ ہونا ضروری ہے ۔ علاقائی ثقافتوں کا رنگ جب قومی کلچر میں ہوگا تو وہ نمائندہ کلچر ہوگا۔

ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں۔

اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے ۔ کہ ہم قومی سطح پر ابھی اس معاشرتی و تہذیبی اتحاد سے محروم ہیں۔ ہمارے اندر ایک قوم بننے کی خواہش تو ضرور موجود ہے لیکن ہمارے ملک کے سارے علاقے الگ الگ تہذیبی وحدتوں کی شکل میں زیادہ متحد ہیں ۔

اس تہذیبی اجنبیت کی وجہ سے ، اتحاد کی خواہش اور مذہب کے اشتراک کے باوجود ہماری علاقائی تہذیبوں کو ایک دوسرے پر نہ اعتماد ہے اور نہ ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا احترام ہے-

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں