ڈاکٹر وزیر آغا کی تنقید نگاری | Doctor Wazir Agha ki tanqeed nigari
ڈاکٹر وزیر آغا کی تنقید نگاری
ڈاکٹر وزیر آغا نے ۱۹۴۳ء میں ایم ۔اے معاشیات کیا اور ۱۹۵۲ء میں پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری بعنوان ” اردو ادب میں طنز و مزاح “ حاصل کی۔ ڈاکٹر آغا نے مولانا صلاح الدین احمد کے رسالے ادبی دنیا سے صحافتی اور باضابطہ ادبی سفر کا آغاز کیا ۔ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۳ء تک وہ ادبی دنیا کے شریک مدیر رہے اور ۱۹۶۶ء سے انھوں نے ” اوراق کا آغاز کیا۔ اوراق نے نئی بخشیں اٹھائیں اور اپنا دامن سب کے لیے کھولے رکھا۔
یہ بھی پڑھیں: انشائیہ کے خدو خال از وزیر آغآ pdf
اس طرح جدیدیت کا پہلا باضابطہ مجلہ اوراق ٹھہرتا ہے۔ اوراق میں ایک سلسلہ سوال یہ ہے” کے نام سے تھا، جس میں ایک موضوع پر اہم ادیب اور دانشور بحث کرتے اور یہ بحث اوراق میں اس نام کے تحت شائع ہو جاتی ۔
اس سلسلے میں نہایت اہم موضوعات پر گفتگو ہوئی جسے اب کتابی صورت میں بھی یکجا کر دیا گیا ہے۔ صرف پہلے دو برسوں (۶۶ – ۶۸) میں ہونے والے مباحث سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اوراق نے کسی طرح ادب کی سمت بندی میں اہم کردار ادا کیا۔ چند عنوانات حسب ذیل ہیں: فن میں ابلاغ کی اہمیت ، نثر اور نظم کا فرق معنی کا معنی، اسلوب کیا ہے، اور دائمی اقتدار کا مسئلہ۔
بطور نقاد ڈاکٹر آغا کی کتابوں کی تفصیل اس طرح ہے:
ا اردو ادب میں طنز و مزاح (۱۹۵۸ء)
۲ یکم جدید کی کروٹیں (۱۹۶۳ء)
اردو شاعری کا مزاج (۱۹۶۵ء)
۲- تنقید اور احتساب (۱۹۶۸ء)
۵ تخلیقی عمل (۱۹۷۰ء)
۔ نئے مقالات (۱۹۷۲ء)
۷۔ تنقید اور مجلسی تنقید (۱۹۷۲ء)
تصور عشق اور خرد ا قبال کی نظر میں (۱۹۷۷ء )
۹۔ نئے تناظر (۱۹۷۹ء)
۱۰۔ دائرے اور لکیریں (۱۹۸۶ء)
تنقید اور جدید اردو تنقید (۱۹۸۹ء)
۱۲۔ ساختیات اور سائنس (۱۹۹۱ء)
۱۳۔ مجید امجد کی داستان محبت (۱۹۹۱ء)
۱۴۔ غالب کا ذوق تماشه (۱۹۹۷ء)
۱۵ – معنی اور تناظر (۱۹۹۸ء)
۱۶ احتراجی تنقید کا سائنسی اور فکری تناظر (۰۲۰۰۶)
۱۷۔ کلچر کے خدو خال (۲۰۰۹)
کتابوں کے عنوانات سے بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ڈاکٹر آغا کا اردو تقید میں کیا مقام و مرتبہ ہے۔ ۶۰ء کی دہائی میں عسکری ، سرور اور کلیم الدین احمد کا خاص طور پر غلغلہ تھا۔ ایسے وقت میں ڈاکٹر آنا کی تعین کتا بیں منظر عام پر آتی ہیں۔
نظمجدید کی کروٹیں تنقید اور احتساب اور اردو شاعری کا مزاج ایک جامع تحیر ہے، جس نے اردو دنیا میں ایک شور برپا کیا۔ نظم جدید کی کروٹیں میں اقبال ، راشد، میراجی ، مجید امجد ، یوسف ظفر ، قیوم نظر ، را به مهدی علی خان ، اختر الایمان، ضیاء جالندھری اور بلراج کومل پر مضامین ہیں۔ ابتدا میں نظم اور اس کا پس منظر کے عنوان سے بھر پور مقالہ ہے جس میں ڈاکٹر وزیر آنا کی وسعت نظری اور ان کے فلسفیانہ مزاج کا پتہ لگ جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیوں میں تہذیبی عناصر | pdf
دو نظم کے سلسلے میں یہ بات قابل غور ہے کہ بحیثیت مجموعی نظم کو مغرب میں فروغ حاصل ہوا ہے جب کہ غزل صرف مشرق کی پیداوار ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کو محض اتفاق پر محمول کر کے مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ صنف ادب نہ صرف ذات کا بے محابا اظہار ہے بلکہ اپنے ماحول رزندگی ، جغرافیائی حالات اور ان کے اثرات کو بھی پیش کرتی ہے۔ (۴۷)
۴۷ و لنظم اور اس کا پس منظر مشمول نظم جدید کی کروٹیں، چوتھا ایڈیشن ، سنگت پبلشرز لاہور ، ۲۰۰۷، ص ۱۸ وہ ہر بات کی روح میں اتر کر اسے دیکھنے کے متمنی ہیں اور بغیر کسی تعصب کے نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ جن جدید شعراء پر اس کتاب میں ڈاکٹر آغا نے عنوانات قائم کیے ہیں ساتھ برس گزر جانے کے بعد بھی انہیں جھٹلایا نہیں جاسکا۔ مثلاً راشد کے لیے عنوان ہے ” بغاوت کی ایک مثال ، میرا جی کے لیے دھرتی پوجا کی ایک مثال، فیض کے لیے انجماد کی ایک مثال وغیرہ۔
اردو شاعری کا مزاج ایک تہلکہ خیز کتاب ثابت ہوئی جس میں انھوں نے گیت ، غزل اور نظم کی جڑوں کو تین تہذیبوں میں ڈھونڈا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے تہذیبی عناصر کی روشنی میں گیت ، غزل اور نظم کے مزاج کو متعین کیا ہے۔
اس نے ادبی حلقوں میں نئے مباحث کو جنم دیا۔ اس کتاب پر ڈاکٹر آغا سے بہت اختلاف بھی کیا گیا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ ساٹھ برس پیشتر اردو تنقید کے پاس اس نوعیت کی کتاب نہیں تھی۔
تنقید اور احتساب انتہائی اہم موضوعات پر پختہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ چند مضامین کے عنوانات حسب ذیل ہیں: غزل کیا ہے ؟ اردو غزل میں محبوب کا تصور نظم میں سمبلزم کی تحریک اردو افسانے میں کردار کی پیش کش کلچر کا مسئلہ ابلاغ سے علامت تک۔
ڈاکٹر آغا کی عطا جاننے کے لیے ان کی دس برس ( ۱۹۵۸ تا ۱۹۶۸ء) کی تحریریں کافی ہیں۔ ان کی پہلی چار پانچ کتا ہیں اس وقت آئیں جب عسکری ، سرور اور تکلیم الدین احمد منظر پر چھائے ہوئے تھے۔ آغا صاحب خود شاعر تھے غالبا اس لیے تنقید میں بھی ان کا غالب رجحان شاعری ہی کی طرف تھا۔ ان کی بیشتر نظری اور عملی تنقید شاعری سے متعلق ہے۔ فکشن پرانھوں نے کم توجہ دی۔
اردو میں ۲۰ ، اور ہے ء کی دہائیاں تخلیق اور تنقید ہر دو لحاظ سے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ حالی کے بعد سے ہماری تنقید افراط اور تفریط کا شکار رہی ہے۔ عسکری اور آل احمد سرور سے تنقید میں جذباتیت کم ہونا شروع ہوئی اور معروضیت بڑھتی گئی۔ اس طرح یہ دہائیاں ایک بافتہ شعور کا پتہ دیتی ہیں۔ اس دور میں تنقید لکھنے والوں کی ایک کہکشاں موجود تھی ۔ آغا صاحب ان میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ ان دو دہائیوں کے بعد بھی آنا صاحب کے تنقیدی ڈسکورس میں ارتقاء کا سلسلہ جاری رہا۔ بعد میں امتزاجی تنقید اور ساختیات کے مباحث ان کی پہچان بن گئے۔ اردو میں ساختیات کے مباحث کا باقاعدہ آغاز آنها صاحب نے کیا۔ آپ بنیادی طور پر سائنس کے طالب علم تھے اور مغرب میں ہونے والے مباحث سے بھی باخبر تھے لیکن آپ نے مغربی تھیوری کو من وعن قبول نہیں کیا اور بعض نظریات سے تو اختلاف بھی کیا، مثلا اپنے مضمون ” رولان بارت کا فکری نظام میں وہ بارت کی اس بات سے بھر پور اختلاف کرتے ہیں کہ کائنات کے ٹیکسٹ میں کوئی معنی نہیں۔ ڈاکٹر آغا کے مطابق کا ئنات پیاز کے چھلکے نہیں جس کے پرت اتارتے ہوئے ہم اس مقام تک پہنچ جائیں جہاں کوئی اور پرت نہیں۔ مراد یہ کہ انھوں نے تھیوری کو اپنی شرائط پر قبول کیا ہے۔
ساختیات پر انھوں نے اپنے ۱۹۸۹، والے خطبے میں، جو اسی سال انجمن ترقی اردو کراچی سے شائع ہوا تفصیل سے بات کی، گویا ڈاکٹر تا رنگ سے پہلے آغا صاحب ان مباحث کو اٹھار ہے تھے۔ آنفا صاحب میں دو میلانات ابتداء سے ہی واضح نظر آتے ہیں، ایک ان کا فکری / فلسفیانہ رویہ اور دوسرا ان کا فن پارے کی جمالیات کو پرکھنے کی طرف میلان۔
نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔