غزل: دل نادان! تجھے ہوا کیا ہے کی تشریح

کتاب کا نام۔۔۔۔ غالب اور مير كا خصوصى مطالعہ
کوڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔5612
موضوع : دل نادان! تجھے ہوا کیا ہے
صفحہ نمبر : 215 تا 217
مرتب کردہ۔۔۔ سمیہ

غزل (6)

بنیادی تصور : اظہار خاکساری۔

(1) دل نادان! تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے

مطلب :۔ اس شعر میں استفہام سے استفسار (یعنی حال دریافت کرنا یا سوال کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ معاملہ بالکل بر عکس ہے یعنی شاعر ، دل نادان کی حالت سے پورے طور پر واقف ہے اسی لیے استفہام کے پردے میں سے ملامت کر رہا ہے۔ بالفاظ دگر ، استفہام سے سرزنش اور ملامت مقصود ہے نہ کہ سوال ۔ جب تک یہ نکتہ ذہن نشین نہ ہو گا شعر کا حقیقی مفہوم واضح نہیں ہوسکتا۔ یہ تختہ دل نادان کی ترکیب سے مستنبط ہے ۔ عاشق اپنے دل سے کہتا ہے کہ تو بڑا نا وان ہے اور ثبوت تیری نادانی کا یہ ہے کہ تو اس بے وفا ، ظالم ، سفاک اور بے رحم سے امید وفا رکھتا ہے جو لفظ وفا سے سراسر نا آشنا ہے۔ تیرے درد کی دعا اس دنیا میں تو کہیں مل نہیں سکتی ؟ میرا خیال ہے کہ اب شعر کا مطلب واضح ہو گیا ہوگا ۔ تا ہم دوبارہ لکھتا ہوں کہ عاشق اپنے دل کو ملامت کرنا ہے کہ تو کسی خبط میں مبتلا ہے؟ تیری آرزو کبھی پوری نہیں ہوگی ۔ یادرکھ! جس درد میں تو گرفتار ہے اس کی دوا کہیں نہیں ہے۔ اگر اپنی زندگی چاہتا ہے تو اس خیال خام ( آرزوئے وصل ) سے باز آجا۔

بنیادی تصور : تلقین ترک عاشقی

(۲) ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے
مطلب :۔ حالی مرحوم نے اس کا مطلب یہ لکھا ہے کہ گویا ابھی عشق کے کوچے میں قدم رکھا ہے اور معشوق و عاشق میں جو ناز و نیاز کی باتیں ہوتی ہیں ، ان سے ناواقف ہے۔ اس لیے باوجود اپنے مشتاق ہونے کے معشوق کے بیزار ہونے پر تعجب کرتا ہے ۔ ( یادگار غالب ص ۱۴۱)

بنیادی تصور : – استعجاب برناز معشوقانہ

(۳) میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

مطلب : ” بھی” کے لفظ سے مطلب نکلا کہ عاشق محبوب سے کہتا ہے کہ آپ غیروں سے میرا حال دریافت کر رہے ہیں ! میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں ، مجھے بھی قدرت نے طاقت کو پائی عطا کی ہے۔ کاش کسی دن آپ خود مجھ سے میرا مد عا دریافت کریں۔

بنیادی تصور : طنز پر بے اعتنائی معشوق

(۴) جب کہ تجھ بن نہیں، کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

(۵) یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟
غمزه و عشوہ و ادا کیا ہے
(۲) شکن زلف عنبریں کیوں ہے
نگۂ چشم سرمہ سا کیا ہے
(۷) سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

مطلب :۔ یہ ہنگامہ جو کائنات میں نظر آتا ہے اس امر کا متقاضی ہے، کہ اشیائے مختلفہ کے وجود کو تسلیم کیا جائے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خدا کے سوا اور کوئی شے دراصل موجود نہیں ہے۔ اس لیے غالب نے اپنے استعجاب کو استفہام کے پیرائے میں پیش کیا ہے یعنی استفہام سے ان کا مطلب استعار نہیں ہے بلکہ تعجب کا اظہار ہے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہو گا کہ اس اظہار استعجاب سے ان کا مدعا کیا ہے۔ یعنی دراصل وہ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ خدا کی وحدانیت یا یکتائی ایسی نہیں ہے جسے وحدانیت کے عام اصلیں پر پر کھا جا سکے۔ استعجاب کے پردے میں وہ اس حقیقت کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ خدا کی وحدانیت، بذات خود عدیم المثال ہے اس لیے حیرت انگیز ، کیوں؟ اس لیے کہ اس کی وحدت نہ جنسی ہے نہ نوعی ۔ نہ عددی ہے نہ اعتباری یعنی اس کی وحدت بھی اس کی ذات کی طرح فہم انسانی سے بالا تر ہے۔

بنیادی تصور : بے نظیری وحدت ایزدی ۔

(۸) ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

مطلب : ۔ کہتا ہے کہ ہماری سادہ لوحی تو دیکھو! ہم اس شخص سے وفا کی امید رکھتے ہیں جو وفا کے نام سے بھی آشنا نہیں۔

بنیادی تصور : – گلہ ہے وفائی معشوق۔

(۹) ہاں بھلا کر ترا بھلا ہو گا
اور درویش کی صدا کیا ہے
مطلب : ناصحانہ رنگ میں معشوق سے لطف وکرم کی التجا کی ہے کہ اسے محبوب ! اگر تو ہم فقیروں پر نگاہ کرم کرے گا تو خالق کا ئنات تجھ پر کرم کرے گا۔

بنیادی تصور : التجائے کرم ۔

(۱۰) جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا، دعا کیا ہے
مطلب : میں دوسروں کی طرح محض دعا دینا کافی نہیں سمجھتا اس لیے اپنی جان تم پر نثار کرتا ہوں یعنی اپنی محبت کا عملی ثبوت کرنا چاہتا ہوں ۔

بنیادی تصور : – اظہار جذ به فدویت ۔

(11) میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

مطلب : ۔ ہم نے مانا کہ آپ کی نگاہ میں غالب کی کوئی قیمت نہیں ہے لیکن اگر مفت میں ایک غلام آپ کو ملتا ہو تو اس میں کیا برائی ہے؟

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں