دہلی کالج کی ادبی خدمات | Dehli College ki Adabi Khidmaat
موضوعات کی فہرست
کچھ اس تحریر کے بارے میں:
- صہبائی اور ٹیلر دونوں غدر میں مارے گئے ۔ اس سے دہلی کالج کے علمی اور ادبی ماحول کو خاصا دھچکہ لگا تھا ۔۔۔۔
- سرسید نے صہبائی کی مدد سے ہی اپنی مشہور کتاب ” آثار الصنادید کی تدوین کی تھی۔۔۔
- یورپ کے جدید انکشافات جب ان پر عیاں ہونے لگے تو دہلی کالج میں تعلیم و تعلم کو مقبولیت حاصل ہونے گی۔۔۔
- دہلی کالج کا با قاعدہ آغاز 1825ء میں ہوا ۔ اگر چہ اس جگہ پہلے ایک مدرسہ 1793ء میں قائم تھا مگر 1828ء میں یہاں با قاعدہ انگریزی تعلیم کی ابتدا ہوئی۔۔۔
- ڈاکٹر وہاب اشرفی نے بھی دہلی کالج کی علمی وادبی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے۔۔۔
- ڈاکٹر سنیل نگار نے اپنی کتاب ” اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ میں دہلی کالج کے ادبی کارناموں کو فورٹ ولیم کالج سےبھی بہتر ثابت کیا ہے۔۔۔
دہلی کا کی ادبی خدمات
دہلی کالج کا تعارف
اردو نثر کی نشو و نما میں دہلی کالج کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔
دہلی کالج سے اردو کے بہت اچھے اور بڑے ادیب تعلیم حاصل کر کے نکلے جنہوں نے اردو نثر اور عام طور پر پورے اردو ادب کی توسیع میں خاصہ حصہ لیا۔
ان میں ماسٹر رام چندر، مولوی امام بخش صہبائی ، ذکاء اللہ، نذیر احمد محمد حسین آزاد، پیارے لال آشوب اور حالی خاص ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دہلی کالج آغاز، مقاصد، اساتذہ، خدمات اور اختتام
دہلی کالج کا قیام
دہلی کالج کا با قاعدہ آغاز 1825ء میں ہوا ۔ اگر چہ اس جگہ پہلے ایک مدرسہ 1793ء میں قائم تھا مگر 1828ء میں یہاں با قاعدہ انگریزی تعلیم کی ابتدا ہوئی۔
پہلے یہ کالج اجمیر گیٹ میں واقع تھا بعد کو اسے 1843ء میں کشمیری گیٹ میں منتقل کر دیا گیا۔
دہلی کالج میں علوم شرقیہ کے ساتھ ساتھ مغربی تعلیم کا بھی ایک شعبہ کھولا گیا جس میں مغرب کی جدید سائنس اور ریاضی کی تعلیم بھی شروع ہوئی۔
ہندوستانی انگریزی تہذیب اور تعلیم دونوں کے منتظر تھے مگر جدید سائنس کے ہمارے علوم انگریزی زبان کی تحصیل کے بغیر ممکن نہ تھے۔
اس لیے کچھ لوگوں نے انگریزی تعلیم کی طرف توجہ دی۔
یورپ کے جدید انکشافات جب ان پر عیاں ہونے لگے تو دہلی کالج میں تعلیم و تعلم کو مقبولیت حاصل ہونے گی۔
یہاں کتابوں کی فراہمی کے لیے بعد کو ایک لائبریری بھی کھول دی گئی۔ مغربی علوم میں علم ریاضی اور بیت کو بھی یہاں خاص مقبولیت ملی ۔
دہلی کالج کی خدمات
مسٹر ٹیلر پرنسپل تھے اور مولوی امام بخش صہبائی مشرقی شعبے کے صدر تھے۔
اس میں فارسی اور عربی کے ساتھ اردو کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔ صہبائی خود بھی قاری اور عربی کے اچھے عالم تھے اور اردو کے مقبول شاعر۔
سرسید نے صہبائی کی مدد سے ہی اپنی مشہور کتاب ” آثار الصنادید کی تدوین کی تھی۔
مغرب اور مشرق کے اس تعلیمی میل ملاپ نے انگریزی کے خلاف جو تعصب پھیل رہا تھا اسے مٹانے میں بڑی مدد کی اور ساتھ ہی اردو کی فضا کو ایک محدود دائرے سے نکال کر مختلف علوم و فنون حاصل کرنے کے لیے سازگار بنایا۔
اگر چہ غدر کے بعد کالج کا وہ اثر باقی نہ ر ہا مگر یہاں سے جو لوگ تعلیم حاصل کر کے نکلے انہوں نے اردو نثر، ناول، افسانہ اور مضامین نگاری کی بنیاد رکھی اور اردو ادب کو اس طرح مالا مال کیا۔
سرسید نے صہبائی کی مدد سے ہی اپنی مشہور کتاب ” آثار الصنادید کی تدوین کی تھی۔
صہبائی اور ٹیلر دونوں غدر میں مارے گئے ۔ اس سے دہلی کالج کے علمی اور ادبی ماحول کو خاصا دھچکہ لگا تھا ۔
تا ہم دہلی کالج کا قیام ، فورٹ ولیم کالج کے بعد، اردو نثر کے ارتقا میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔
نثر اب صرف قصے کہانیوں تک ہی محدود نہ رہی بلکہ اس میں مختلف موضوعات کی کتابیں بھی لکھی جانے لگیں۔
دہلی کالج سے نکلنے والوں نے تاریخ، جغرافیہ بچوں کا ادب ، سوانح عمری تنقید ، ہر طرف توجہ دی جو اردو نثر کے لیے ایک نیک قال ثابت ہوا۔
ڈاکٹر سنیل نگار نے اپنی کتاب ” اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ میں دہلی کالج کے ادبی کارناموں کو فورٹ ولیم کالج سےبھی بہتر ثابت کیا ہے لکھتی ہیں:
"ورناکولر سوسائی اس کالج کا سب سے اہم حصہ تھی۔ اس سوسائٹی کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس سوسائٹی کی طرف سے کم سے کم 128 کتا بیں شائع ہوئیں ۔
اس کی خدمات فورٹ ولیم کالج سے کسی طرح کم نہیں ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ دہلی کالج کے علمی کارنامے فورٹ ولیم کالج کے کاموں سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
فورٹ ولیم کالج میں زیادہ توجہ قصوں اور داستانوں پر رہی جب کہ دہلی کالج کا سارا زور علمی کتابوں پر تھا اور اردو میں اس کی زیادہ ضرورت تھی ۔
آگے چل کر سر سید کی سائنٹیفیک سوسائٹی نے دہلی کے اس علمی کام کو آگے بڑھایا
(اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ: ڈاکٹر سنبل نگار، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ ، ص : 22)
ڈاکٹر وہاب اشرفی نے بھی دہلی کالج کی علمی وادبی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے:
"سرسید نے سائنٹیفیک سوسائٹی ضرور قائم کی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ شعر و ادب کے ساتھ سائنسی تعلیم کا جدید نظام قائم کیا جائے۔
انہوں نے اپنے طور پر بہت کچھ کیا لیکن سچی بات یہ ہے کہ شمالی ہندوستان میں دہلی کالج کی خدمات نہایت وقیع اور اہم ہیں۔
ہم یہ جان چکے ہیں کہ فورٹ ولیم کالج کا قیام اس لیے عمل میں آیا تھا کہ انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کے محض ایجنٹ بنے رہیں بلکہ ہندوستانی زبان، مزاج و کلچر سے آشنا ہو کر ہندوستان میں برطانوی سامراج کے استحکام کی کوشش کریں
لیکن انگریزوں کی ایسی غایت نے بھی اردو نثر کی ترویج ہوئی۔
اور اس کے مزاج کی تکمیل میں نمایاں رول ادا کیا لیکن دہلی کالج کے قیام کا بنیادی موقف علمی و سائنسی تھا۔ اس ادارے
کے قیام سے اردو کے وسیلے سے اکثر مغربی علوم سامنے آگئے.
اس لیے دہلی کالج کو اگر شمالی ہندوستان میں نشاۃ
ثمانیہ کا پہلا زینہ سمجھا جاتا ہے تو یہ کچھ غلط نہیں۔
( تاریخ ادب اردو : ڈاکٹر وہاب اشرفی، ایجو کیشنل بک ہاؤس، دہلی، ص: 526)
دہلی کالج کے نامور ادیبوں میں مولوی ذکاء اللہ اور نذیر احمد اہم ہیں۔ اس کالج کے دوسرے اساتذہ میں منشی صدر الدین خان، مولوی مملوک علی ، امام بخش صہبائی ، ماسٹر رام چندر ڈاکٹر ضیاء الدین، پیارے لال من پھول اور مولوی کریم اللہ وغیرہ اہم ہیں۔
اردو نثر کی تاریخ میں سرسید کا نام سنہرے حرفوں میں لکھا جائے گا۔ علی گڑھ تحریک کے ذریعہ نہ صرف انہوں نے ایک شکست خوردہ قوم کو تباہی کے گڑھے سے نکالا
اور اس کا کھویا ہوا وقار بڑی حد تک بحال کر دیا بلکہ اردو نثر کو بھی لفاظی ، عبارت آرائی جھوٹ اور مبالغے کے ماحول سے نکالا۔
سرسید خود نثر نگار تھے، انھوں نے بہت سی کتابیں لکھیں، رسالے نکالے، اخباروں اور رسالوں میں مضامین لکھے ، مدعا نگاری پر زور دیا اور عبارت آرائی کو رد کیا۔
میرا من اور غالب نے سادہ نگاری کی جو روایت قائم کی تھی اسے آگے بڑھایا ، انھوں نے ادب، مذہب، سیاست، تعلیم، معاشرت، اقتصادیات، جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا۔
سادہ مدلل اور واضح انداز میں اظہار خیال کیا اور جدید اردو نثر کی بنیاد ڈال دی۔
انھوں نے بہت کچھ لکھا۔ اپنے رفیقوں سے لکھوایا اور اردو نثر کے دامن کو وسعت دی۔
تہذیب الاخلاق سرسید کا جاری کیا ہوا ایک رسالہ تھا جس نے نہ صرف اچھی عادتوں ، اچھے رہن سہن اور اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی بلکہ اس کے ذریعہ اردو نثر کو بہت ترقی یوئی۔
سیدھی سادی نثر لکھنے کو رواج دینے میں اس رسالے کا بڑا ہاتھ ہے۔
سرسید کی اس تحریک میں جن لوگوں نے ان کا ساتھ دیا اور اردو نثر کو آگے بڑھایا ان میں خواجہ غلام غوث بے خبر محمد حسین آزاد، ڈپٹی نذیر احمد، خواجہ الطاف حسین حالی ، نواب محسن الملک ، عبدالمجید سالک، وقار الملک،
مولوی چراغ علی، امداد امام اثر ، وحید الدین سلیم ، عبد القادر سروری اور مہدی افادی بہت ہی اہم ہیں۔
دہلی کالج کب قائم ہوا؟
دہلی کالج کا با قاعدہ آغاز 1825ء میں ہوا
دہلی کالج کے پہلے پرنسپل کا نام کیا تھا۔
مسٹر ٹیلر پرنسپل دہلی کالج کے پرنسپل تھے۔