رومانیت کی تعریف | Definition and Significance of Romanticism in Literature and Arts
موضوع کا نام۔۔۔۔۔۔ رومانیت
تیارکردہ۔۔۔۔۔۔ منظور احمد
کتاب کا نام ۔۔۔۔ اردو تنقید۔۔۔ کورس کوڈ۔۔۔ 9028
رومانیت کی تعریف اور بنیادی مباحث
کلاسیکیت (Classical) کے ساتھ نو کلاسیکیت کی اصطلاح کئی سو سال تک چلتی رہی۔ پھر صدیوں بعد اٹھارھویں صدی کے آخر میں رومانیت (Romanticism) کی ایک نئی اصطلاح اس کے ساتھ چلنا شروع ہوئی۔
نو کلاسیکیت کی ایک جدید شکل تھی لیکن رومانیت کلاسیکیت کی نہ کوئی جدید شکل تھی لیکن نہ ہم معنی بلکہ بنیادی طور پر اس کی ضد تھی۔ رومانیت کی واحد خصوصیت جو اٹھارھویں صدی کے شعرا کو رومانی شعرا سے الگ اور میز کرتی ہے تخیل کی وہ اہمیت ہے جو رومانی شعر تخیل سے منسوب کرتے ہیں اور وہ تخیل کا ایک خاص تصور رکھتے ہیں۔
اٹھاریوں صدی میں تخیل (imagination) شعری نظریے کا بنیادی نقطہ تھا۔ ڈرائیڈن، پوپ اور ڈاکٹر جونسن کے نزدیک تخیل کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی وہ imagination کی بجائے fantacy کے قائل تھے اور دونوں لفظوں کو مترادف کے طور پر استعمال کرے تھے۔
اٹھارھویں صدی کے شعرا کے لیے جو چیز سب سے زیادہ اہم تھی وہ جذبات کی صداقت تھی۔ ان کے مشترک تجزیے دلکشی کے اظہار میں اپنا کمال ظاہر کرتے تھے۔ انھیں زندگی کے اسرار سے زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ لیکن رومانی شعرا کے لیے تخیل بنیادی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کے بغیر ان کے نزدیک شاعری ناممکن تھی۔
لفظ رومانی (Romantic) کا استعمال یا اطلاق انگریزی شاعری کے اس دور پر ہوتا ہے جو 1787 میں بلیک )Shelley( اور شیلے )Keats( سے شروع ہوا اور یہ دور کیٹس Songs of Innocence کے مجموعہ کلام )Blake( کی موت پر ختم ہو گیا۔
اس دور یا عہد کے پانچ بڑے شعر ابلیک، کولرج (Coleridge) ورڈزورتھ (Wordsworth) شیلے اور کیٹس اس اہم نکتے پر متفق تھے کہ تخلیقی تخیل ظاہری اشیا کے پس پرد مخفی نظام کے بارے میں ایک خاص قسم کی بصیرت سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اس عقیدے نے ان کی شاعری کو ایک خاص مقام عطا کیا۔
لیکن اس عہد کے دوران میں اور اس کے بعد بھی ایسے شعرا تھے جو تخیل کے بارے میں یہ تصور نہیں رکھتے تھے اگر چہ گروہ متذکرہ پانچ شعرا کے ساتھ کئی مشترک خصوصیات کے مالک تھے۔ مثلاً بائرن (Byron) ان کے موضوعات و مذاق میں شریک نہ ہونے کے باوجود کسی ماورائی نظام کا قائل نہ تھا۔
بعض شعرا کے اختلافات سے قطع نظر رومانیت انگلستان کی حدود سے نکل کر پورے یورپ پر اثر انداز ہوئی۔ فرانس، جرمنی ، روس، اسپین سب ان اثرات کی لپیٹ میں آئے۔
متذکرہ پانچ رومانی شعرا کا نظری شعر بڑی حد تک متصوفانہ معلوم ہوتا ہے جب کہ ان میں سے کوئی بھی صوفی نہ تھا البتہ ان میں سے ہر شاعر کسی نہ کسی حد تک نقاد ضرور تھا۔
ولیم بلیک (1756-1827) نے تخیل کی قوت کو اتنا اچھالا کہ وہ انسانی ملکہ یافن کارانہ صلاحیت نہیں رہی ۔ وہ کہتا ہے کہ تخیل حقیقی اور ابدی دنیا ہے جس کی یہ نباتاتی دنیا ایک دھند لی جھلک ہے۔
بلیک خارجی دنیا کو اپنے پاؤں کی گرد قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک تخیل ہی وہ قوت ہے جو شاعری کو شاعر بناتی ہے۔ اس کے خیال میں خود فطرت بھی ایک تخیل ہے۔ کالرج ایک مدت تک ارسطو اور لون جائی نس کے بعد مغرب کا تیسرا بڑا نقاد مانا گیا ہے۔
ولیم ورڈز ورتھ (1770-1850) بنیادی طور پر شاعر تھا جسے شاعر فطرت کا خطاب بھی ملا وہ لڑکپن ہی سے گھنٹوں پہاڑیوں اور جنگلوں میں گھومتا رہتا تھا۔ اس کے دو بڑے کارنامے اسی عادت کا نتیجہ ہیں۔ (1) وہ دنیا کے ان شاعروں میں سے ہے جس نے فطرت پر بہترین شاعری کی ہے۔ (2) اس نے رومانیت کی تحریک کے ابتدائی دور کی قیادت کی۔ اس کے شاعری کا آغاز 1793 میں ہوا۔
دو سال بعد اس کی ملاقات کا لرج سے ہوئی جس کا دونوں پر نہایت گہرا اثر ہوا۔ دونوں نے مشترکہ طور (Lyrical Ballade (1798) نامی کتاب شائع کی جسے انگریزی ادب میں رومانی دور کا آغاز تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے دوسرے ایڈیشن (1800) میں ورڈزورتھ کے پیش لفظ کو اس تحریک کا منشور تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کتاب نے با قاعدہ طور پر نو کلاسیکیت کے خلاف انقلاب کا اعلان کیا۔
ورڈزورتھ نے اپنی شاعری کے موضوعات فطرت اور دیہاتی زندگی سے منتخب کیسے تھے اور ان موضوعات کو بی تازگی کے ساتھ پیش کر کے ان موضوعات کے وقار اور فن کارانہ صحت کا مظاہرہ کیا تھا۔ ورڈز ورتھ کے برعکس کا لرج نے اپنی تین غیر فانی نظموں کے موضوعات مافوق الفطرت دنیا سے لیے اور ان کے اندر روز مرہ واقعات کا تیقین پیدا کر دیا۔ اس کی تین عظیم نظموں کے عنوانات یہ ہیں۔
Kubla Khan (1)
The Ancient Mariner (2)
Christabel (3)
کا لرج کی اور عظمت کا دارو مدار اس کی تنقیدی تحریروں پر بھی ہے۔ وہ شیکسپیئر کا بہترین نقاد بھی مانا جاتا ہے۔
ورڈزورتھ نے Lyrical Ballads میں شاعری کی تعریف یوں کی کہ شاعری پر زور احساسات کا بے ساختہ بہا و ہے جو اس جذبے سے پیدا ہوتا ہے جو سکون کے عالم میں یاد آتا ہے۔ شاعری کی زبان کو مصنوعی قسم کی شاعرانہ زبان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اسے انسانوں کی حقیقی زبان ہونا چاہیے۔
ورڈز ورتھ کے اس نظریہ شعر اور اس نظریہ زبان پر خود اس کے دور میں کالرج نے تنقید کی اور بیسویں صدی میں ٹی ایس ایلیٹ جیسے بڑے نقاد نے اس سے سخت اختلاف کیا۔ تنقید میں ہر نظریے سے اتفاق اور اختلاف کا سلسلہ چلتا رہتا ہے لیکن ہر نظریۂ شعر شاعری کے شاہکاروں میں اضافہ کر جاتا ہے۔ ورڈز ورتھ کی شاعری ناہموار ہونے کے باوجود اپنے شاہر کاروں سے خالی نہیں۔
ورڈزورتھ اپنی طویل نظموں سے زیادہ اپنی مختصر اور معتدل طوالت والی نظموں کے لیے مشہور ہوا۔ اس کی پانچ لوی نظمیں (Lucy) (لوی ایک لڑکی کا نام تھا ) بہترین غنائی شاعری کا نمونہ ہیں ۔
انیسویں صدی کی رومانی شاعری ہندوستان پر برطانوی حکومت کی وجہ سے بہت اثر انداز ہوئی۔ 1857 میں جب مغلیہ سلطنت کا چراغ گل ہو گیا اور رفتہ رفتہ انگریزی زبان تعلیمی اور دفتری زبان بن گئی تو ہندوستان میں بھی اردو شاعری پر رومانی تحریک کا خاصہ اثر ہوا۔
اس تحریک کے اثر سے اردو شاعری میں فطرت کے مناظر اور مظاہر کی مصوری نے فروغ پایا لیکن اردو میں فطرت سے متعلق شاعری کا تعلق ماورائی نظریے سے نہیں رہا۔ یہ اور بات ہے کہ ورڈزورتھ نے فطرت کو جس طرح الہام اور قوت شفا کا حامل قراردیا اس سے علامہ اقبال تک مستفید ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں