مغرب کا تہذیبی و ثقافتی حملہ

مغرب کا تہذیبی و ثقافتی حملہ | The Cultural and Civilizational Invasion of the West

مغرب کا تہذیبی و ثقافتی حملہ

تہذیب وثقافت

ثقافت عربی زبان کا لفظ ہے۔اس کت معنی ہیں’’زیرگی،دانائی یا کسی کام میں مہارت‘‘۔ اس کے ساتح دوسرا لفظ تہذیب کا استعمال ہوتا ہے اور تہذیب کے معنی ہیں’’درخت تراشنا، کاٹنا اوراصلاح کرنا‘‘۔


اصطلاحی طور پر تہذیب و ثقافت سے مراد انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام سرگرمیاں ہیں خواہ اس کا تعلق ذہن سے ہوں یا مادی سے۔تہذیب و ثقافت عادات و اطوار اور طرز عمل میں شائستگی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔معاشرے میں تہذیب و ثقافت ایک ایسے انسان کو پیش کرے گاجو عادات ع اطوار کے ساتھ ساتھ علوم و فنون میں بھی زیرک ہو.

’’تہذیب سے مراد انسانی زندگی کا گزر بسر کرنے کا طریقہ ہے۔ اس کا تعلق انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہے‘‘(۱)

’’ثقافت ایک اصطلاح ہے جو انسانی sمعاشروں میں پائے جانے والے سماجی رویے اور اصولوں کے ساتھ ساتھ ان گروہوں کے افراد کے علم، عقائد، فنون، قوانیں اور عادات پر مشتمل ہے‘‘(۲)

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی ثقافت ایک پرانی تہذیب pdf


عام طور پر تہذیب و ثقافت کو ایک ہی چیز تصور کی جاتی ہے اور ان دونوں کے لیئے ایکاور لفظ ’’کلچر‘‘ استعمال ہوتا ہے۔
بقول جمیل جالبی:

’’میں نے لفظ ثقافت اور تہذیب کو یکجا کر کے کلچر کا استعمال کیا ہے جس میں تہذیب و ثقافت دونوں کے مفاہیم شامل ہے۔‘‘(۳)

ہندوستانی تہذیب

اس تہذیب سے مراد مشترکہ ہندوستان(پاکستان،انڈیا) تھی۔یہ ایک مشترکہ تہذیب تھی جس پر اسلام اور ہندومت کے علاوہ اور بہت سے مذہب کے اثرات تھے۔اس تہذیب کے اہم عوامل میں مذہب(اسلام اور ہندومت وغیرہ)،رقص،موسیقی،فن تعمیر ،کاشتکاری،مذہبی علوم اور تصوف وغیرہ ہیں۔

اس تہذیب کے اہم عوامل میں عید الفطر،عید الضحی،ہولی اور دیوالی وغیرہ شامل ہیں۔۱۶صدی عیسوی کے بعد جب انگریز ہیں ٓئی تو انہوں نے ہندوستانی تہذیب کو ہر حوالے سے متاثر کیا ۔ ۱۹۴۷ء میں یہ مشترکہ تہذیب دو حصوں میں بٹ گئی لیکن دونوں پر یورپی اثرات اب بھی صاف دیکھائے دیتے ہیں۔ذیل میں اس کا مکمل جائزہ لیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: تہذیب کے عناصرِ تشکیلی

یورپی تہذیب

مغریبی یا یورپی تہذیب وسے مراد وہ تہذیب ہے۔جو یورپ میں ابھری۔اس تہذیب کی بنیاد ٓزاد خیالی اور عقلی تفکر پر ہے۔اس تہذیب نے سائنسی ایجاداد کی گود میں آنکھ کھولی۔سائنس نے اس تہذیب کو اتنی طاقت بخش دی تھی کہ محکوم ممالک کی تہذیبوں کا اس نے گلہ گھونٹنے کی کوشش کی۔

مغرب کا تہذیبی و ثقافتی حملہ

شروع سے لے کر آج تک طاقت کے بل بوتے پر ایک ملک دوسرے ملک کو مغلوب کرنے میں مصروف رہا۔ اس کشمکش نے سامراجیت کو جنم دیا۔جب ایک ملک دوسرے ملک کو طاقت کے بل پر قبضہ کر لیتا ہے۔ تو حاکم ملک کو نوآاباد کار یا سامراج اور محکوم ملک کو نوآبادیات کہا جاتا ہے۔


دنیاں میں سامراجیت کے تین ادوار مشہور ہیں:
۱۔ ۱۴۹۲ء سے وسط اٹھارویں صدی تک پرتگال،انگلینڈ اور فرانس نے نوآبادیات قائم کیں۔


۲۔دوسرا دور ۱۸۵۵ء سے شروع ہوتا ہے اس دور کے اہم نوؤبادکاوروں میں اٹلی،جرمنی اور جاپان شامل ہیں۔


۳۔ دوسروی جنگ عظیم کے بعد امریکہ ایک بڑی سامراجی طاقت کی صورت میں سامنے آئی اور جدید دور میں امریکہ سب سے بڑا سائپر نوآبادیات ہیں۔
نوآباد کاروں کے مختلف مقاصد ہوتے ہیں اس میں ایک مقصد اپنی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینا بھی ہوتا ہے یہاں ہمارا اصل موضوع یہی ہے۔


جب ایک ملک دوسرے ملک کو اپنا نوآبادی بنا لیتا ہے۔ تو وہ اس قوم کو اپنے آپ سے کم تہذیب یافتہ گردانتے ہیں اور اس ضمن میں وہ اپنی تہذیب و ثقافت کو توسیع دیتی ہے۔ یہ نوآباد کاروں کی سب سے بڑی چال ہوتی ہے۔ اس صورت حال کے لیے ’’نگوگی واتھیونگ‘‘ (ایک نوآبادیاتی نقاد) نے تہذیبی بم(culture bomb) کی اصطلاح استعمال کی ہے۔


بالکل اسی طرح جب انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا قبضہ جمایا تو انہوں نے سب سے پہلے یہاں کی تہذیب کو اپنا نشانہ بنایا اور انہوں نے ہندوستانیوں کی ذہن میں ہندوستانیوں کی اپنی تہذیب کو کم تر او یکم مایہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔

اس کا اندزاہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انگریز ہندوستانیوں کی اپنا بوجھ کہتے تھے او کہا کرتے تھے کہ ہم تہذیب یافتہ قام ہے اور خدا نے ہمیں ہندوستانیون کو تہذیب یافتہ بنانے کے لیے بھیجا ہے۔اس کے لیے انگریز (White man burden) کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔

یورپی تہذیب نے مختلف حوالوں سے ہندوستانی تہذیب پر حملہ آور ہوا اور کافی حد تک اس میں کامیاب ہوئی۔ ذیل میں چند حوالوں پر بحث کی جارہی ہے۔

۱۔تعقل پسندی کا فروغ

یورپی تہذیب کی بنیاد عقل پسندی پر ہے۔جبکہ ہندوستانی یا مشرقی تہذیب کی بنیاد مذیب ،وحی اور غیب پر تھی۔چاہے ہندو مت ہو یا اسلام۔ اسلام کی تو ساری عمارت غیبی یقین پر کھڑی ہے۔

انگریزوں نے سب سے پہلے اس کو نشانہ بنایا۔ انگریزوں نے ہندوستانی قوم کا بار بار عقل کی اہمیت کی طرف راغب کیا۔ یہاں انگریزوں کا بلا واسطہ مقصد مشرقی تہذیب اس عنصر کو ختم کرنا تھا۔

اس بات کی عکاسی نذیر احمد نے اپنے ناول ’’ابن الوقت‘‘ میں بہت خوب صورتی سے کی ہے۔ جس میں نوبل(انگریزی تہذیب کا نمایدہ) ابن الوقت(ہندوستان کا نمائندہ) سے کچھ یوں کہتا ہے کہ ہمارے کامیابی کی کلید تعقل پسندی اور آزاد خیالی ہے۔ یہاں یورپی تہذیب ہندوستانی تہذیب پر حملہ آور ہے۔

۲۔ہندوستانی یا مشرقی طرز زندگی پر وار

انگریزوں کی دوسروی سازش ہندوستانی تہذیب میں موجود تمام معاملات زندگی بشمول اشیاء کی اس طرح تحقیر کرنا تھا کہ یہ مقامی لوگوں کی نظروں میں بے وقعت ہوجائیں اور یورپی تہذیب کی طرف لوگ مائل ہوجائے۔ اس کی ایک بہترین مثال ’’ابن الوقت‘‘ ناول میں دیکھا جاسکتا ہے۔
نوبل کے لفظوں میں:


’’ہم لوگ ہمیشہ بیرونی شہر کھلے مکانوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔۔۔آپ کا گھر اگرچہ چندہ برا نہیں مگر صاحب لوگ کی آسائش کے لیے میز کرسی وغیرہ سامان نہیں۔‘‘(۴)


یہاں نوبل نے بلاواسطہ طور پر ہندوستانی یا مشرقی تہذیب کو نشانہ بنایا ۔ یہاں کے اکثر لوگ شہروں کے بجائے دیہاتوں میں رہتے تھے۔ لیکن یوپی تہذیب میں لوگ شہروں میں رہنا پسند کرتے ہیں نوبل نو بل نے طور ایک انگریز ہندوستانیوں کو اس طرف راغب کرنے کی کشش کی۔


دوسری بات مشرقی تہذیب میں لوگ اکثر زمین اور چارپایوں میں کھانا کھانا یا عام طور پر بیٹھا کرتے ہیں۔ لیکن یورپی تہذیب میں لوگ کرسیوں اور میز وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں ۔یہاں پر بھی ہمارے اس تہذیب کی نفی کی گئی ہے۔


اگر ہم دیکھیں تو انگریز بہت حد تک اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ ہمارے لباس،خوراک، سفر،نشست و برخاصت غرض زندگی کے ہر پہلوں پر یورپی تہذیب کی چاپ صاف دیکھائی دیتی ہے۔

حواشی


۱۔www.mazamin.com
۲۔ www://ur.m.wekipedia.org
۳۔جمیل جالبی،پاکستانی کلچر،س ن۔
۴۔نذیر احمد،ابن الوقت،ص ۹۲۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں