موجودہ آزمائشی حالات اور سیرت النبی | PDF
موجودہ آزمائشی حالات اور سیرت النبی | Mujjooda Aazmaishi Halaat aur Seerat-un-Nabi Visit Professor of Urdu
دور جدید کے تخلیق کار کے زمرے میں آپ کو اردو ادب کے موجودہ دور کے لکھاریوں کا بھیجا گیا کام دیکھنے کو ملے گا۔
موجودہ آزمائشی حالات اور سیرت النبی | Mujjooda Aazmaishi Halaat aur Seerat-un-Nabi Visit Professor of Urdu
مجھے اک شام چاہیےفقط تیرے نام چاہیے جس سے ملے سکون مجھےایسا رب کا اک فرمان چاہیے اک تیرا نام میرے نام کے آگے ہواے گمنام ، اب کہ ایسا تیرا نام چاہیےمیں جب بھی رب سے تمہیں مانگوںہو کن میرے رب کا پیغام وہ فرمان چاہیے اک آرزو کی خاطر عشق کے سارے حدود
تیری پرستش میں سجدہ ریز ہو جائےیا تکتے تکتے خاک مرقد خیز ہو جائے یہ چاند آدھ اور نیم خیز ہو جائےملاقاتیں پھر سے زرخیز ہو جائے ماہ رمضان جب دلآویز ہو جائےیا ہم خود ہی کوئی رنگ ریز ہو جائے جب عزرائیل ہمارے حضور ہو جائےیونہی چلتے چلتے ہم دور ہو جائے جب اپنے
بھری ہے دنیا اور محفلیں بھیجو تم نہیں ہو تو کیا کہوں میں ہزاروں سننی ہیں داستانیںجو میں کہوں گی تو کیا کہوں میں ہزاروں کرنی ہیں تم سے باتیںجو تم نہیں ہو تو کیا کہوں میں جو خوابوں میں بھی نا چھوڑیں پیچھاحقیقتوں میں تم نہیں ہو، تو کیا کہوں میں آرزو!پوری ہوئی ہزاروں
نا خوش تھا کوئی بھی غم خوار گئے آخرخوش ہو کے بھی تو سب مٹ ہار گئے آخر سب عشق ومعشوقی میں گمنام گئے آخردلبر بھی چھوڑ کر دلدار گئے آخر نایاب تھا کوئی فنکار گئے آخردنیا کی محفل سے ہونہار گئے آخر خود کو ہیں کہتے صوفی داغدار گئے آخردنیا کی کشمکش سے تھک
اشکوں کو موتی میں پرو رہی تھییا اپنی قسمت پر وہ رو رہی تھی وہ جاگی تھی یا پھر سو رہی تھییا وہ تسبیح یادوں کی پرو رہی تھی اشکوں کو دھو کر وہ ایسے ہو رہی تھیبرسوں سے کسی خواب میں جیسے کھو رہی تھی یادوں کی زنجیروں کو سانسوں میں سمو رہی تھیجیسے
چہرہ تیرا پھول یا گلاب ہےہاتھ میں دودھ یا شراب ہے دنیا کی زندگی تو بس اک سراب ہےبہک جائے اگر اس کے لئے عذاب ہے وہ شکل سے لگتی نواب ہےاس کی مجبوری بھی لا جواب ہے اس کا چہرہ کوئی گلاب ہےلگایا اس نے جو حجاب ہے بے پردگی بس اک عذاب ہےجو
وہ اک بار دیدار کرنے آیا تھاوہ موسم سنگار کرنے آیا تھا وہ رب سے بات ہر بار کرنے آیا تھایا شاید دل کی مراد بھرنے آیا تھا لگا جیسے عیادت بیمار کرنے آیا تھایا کوئی چیز کی تاوان بھرنے آیا تھا غربت گھر کو سنگسار کرنے آیا تھایا زمانہ اس کو ملنگسار کرنے آیا
کر کے مجھ پہ وہ سرسری سی نگاہ بولےآسماں سراپائے انتظار ہے کہ ستارہ بولے نہ کوئی قدر شناس، نہ کوئی سخن ور یہاں پرایسی بے ذوق بزم میں کیا یہ دل بیچارہ بولے نہ کوئی جرم، نہ خطا پھر بھی پائی بڑی سزامقتل شہر میں چار سو بے گناہ لہو ہمارا بولے پوچھا جو
میں قلم کار ہوں میں باوقار ہوںمیں حیادار ہوں میں وفادار ہوں میں با اختیار ہوں میں ہر اک بار ہوںمیں رب سے مانگوں گی میں دعوے دار ہوں میں مٹی کا کھلونا ہوںمیں زرد پتوں کا ملاپ ہوںجو تیز ہوا اور دھوپ سہےعجب بیمار ہوں ،میں قلمکار ہوںآرزو!میں اپنے قلم کی اک تلوار ہوںجو