بسم اللہ الرحمن الرحیم
اردو کی بنیادی لسانی مہارتیں
ایک زبان جانے کی خاطر بنیادی لسانی مہارتوں پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے۔ جو سماعت، تکلّم ، قرات اور تحریر ہیں۔ تفہیم کے لیے ان مہارتوں کا مختصر احوال بیان کیا جاتا ہے۔ سماعت کا مطلب ہے بولنے والے کے تمام الفاظ کو سننا اور ان سے اس پیغام کو سمجھنا جو بولنے والا دینا چاہتا ہے۔ انگریزی میں اس کے لیے Listening کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ یہ پیغام صوتی ، اشتقاقی اور نحوی اشاروں سے عبارت ہوتا ہے۔
یعنی سماعت، آواز معنی اور جملے کی ساخت کی ترکیب سے تشکیل پانے والے پیغام کی تفہیم کا نام ہے۔ سماعت کا تقاضا ہے کہ اس طرح غور سے سنا جائے کہ الفاظ کے معانی ومفاہیم پوری طرح سمجھ میں آئیں اور موزوں اور واضح الفاظ کے ساتھ رد عمل ظاہر کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: لسان سے کیا مراد ہے؟
الفاظ کا لہجہ بھی سننے سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک سامع کو مقرر یا متکلم کے لب ولہجہ، اس کی آواز کے زیر و بم ، اتار چڑھاؤ، اعضائی اشاروں اور انداز گفتگو سے مطلب اخذ کرنا ہوتا ہے۔
لفظوں اور آوازوں کو معانی پہنانا، لب ولہجہ کی نرمی اور تلخی میں امتیاز کر کے اس پر رد عمل کا اظہار کرنا سننے کی بدولت ہی ممکن ہے۔ سننے سے بولنے کا گہر تعلق ہے۔ ہمارے نظام تعلیم میں سماعت کی تربیت کو تو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ ایک اچھا سامع ہی ایک اچھا متکلم ثابت ہوتا ہے۔
زبان چار مہارتوں کا مجموعہ ہے اور ایک زبان میں اچھی قابلیت پیدا کرنے کے لیے ان چاروں مہارتوں پر عبور ہونا ضروری ہے۔ یہ چاروں مہارتیں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں ۔ اگر ایک مہارت میں کم زوری رہ جائے تو وہ دوسری مہارتوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ چوں کہ سماعت سب سے ابتدائی مہارت ہے۔
اس لیے اس میں کم زوری باقی لسانی مہارتوں میں بھی کم زوری کا باعث بنتی ہے۔ چناں چہ ضروری ہے کہ زبان سیکھنے کے لیے معیاری سماعت کے لوازمات اور شرائط کا خیال رکھا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: اردو لسانیات: تعریف، توضیحی، لسانیات، صوتیات، فونیمیات، معانیات، صرف، نحو | PDF
دوسری مہارت تکلم ہے۔ تکلم کا لفظ کلام سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ہیں بولنا یا بات چیت کرنا۔ کسی بھی زبان کی تدریس و تعلم میں بولنے کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ تکلم اور گویائی انسان کا خاص امتیاز ہے۔ بولنا لسانی نشوونما کا بہترین ذریعہ ہے ۔ اس سے اظہارِ مدعا کا سلیقہ آتا ہے۔ ایک زبان کی دو شکلیں ہیں۔ ایک بول چال کی زبان اور دوسری تحریری زبان ۔
اصل زبان تو بول چال کی زبان ہے۔ تحریری زبان تو در حقیقت بول چال کی زبان کی نمائندہ ہے۔ اسی لیے تقریر کو تحریر پر تقدم حاصل ہے۔
آج بھی دنیا میں بہت سی ایسی زبانیں ہیں جن کا رسم الخط نہیں ۔ اس لیے کسی زبان میں اہلیت کا بڑا معیار اس زبان میں بول چال کی صلاحیت پر عبور ہے۔
بولنے کے تین مدارج ہیں:
1: عام بول چال
2: گفتگو اور تقریر
3: "فصیح و بلیغ گفتگو اور تقریر "
ایک اچھے متکلم میں درج ذیل خصوصیات ہونی چاہیں۔
ا۔ اس کا تلفظ اور لہجہ درست ہو۔
٢۔ اُس کی گفتار میں روانی اور صفائی ہو ۔
۳- گفتگو میں منطقی ربط اور تسلسل ہو۔
٤:حفظِ مراتب کا خیال رکھے اور سامعین ، حالات اور موضوع کے مطابق الفاظ کا انتخاب کر سکے۔
٥: سوچ کر مناسب الفاظ میں با معنی گفتگو کرئے رفتار مناسب ہو، زیادہ توقف اور تاخیر نہ کرے۔
٦: خود اعتمادی سے بولے۔ اس میں کسی قسم کی جھجک اور ہچکچاہٹ نہ ہو۔
٧: قواعد کا درست استعمال کرے۔
٨: مناسب جسمانی حرکات اور اعضائی اشارات کا استعمال کرے۔
تیسری بنیادی لسانی مہارت قرات یعنی پڑھنا ہے۔
پڑھنا ایک لسانی مہارت ہے ۔ اچھی عبارت خوانی کے لیے حسن صوت کے علاوہ چند اوصاف ضروری ہیں ۔جو اوصاف خوش خوانی کہلاتے ہیں۔۔
ا۔ صحیح تلفظ : الفاظ کو صحیح اعراب سے پڑھنا اور حروف کی آواز ادا کرتے وقت ان کےمخارج کا خیال رکھنا۔
۲-تفصیل : الفاظ کو وقفے دے کر اس طرح ادا کرنا کہ ان کے ارکان واضح ادا ہو جائیں اور سمجھنے میں آسانی ہو۔
۳- روانی الفاظ کے مسلسل پڑھنے میں کسی قسم کی جھجک یا رکاوٹ کا احساس نہ ہو۔
۴۔ آواز کا اتار چڑھاؤ ۔عبارت خوانی میں مطالب کی وضاحت کے لیے الفاظ کی آوازوں میں مناسب اتار چڑھاؤ کا خیال رکھنا۔
۵۔ وقفے دینا: عبارت کے الفاظ میں معانی کے لحاظ سے مناسب وقفوں کا خیال رکھنا۔
٦۔ تاکید مفہوم کے مطابق مناسب الفاظ پر زور دینا۔
٧۔ وضاحت مفہوم: عبارت کو اس طرح پڑھنا کہ مصنف کا مفہوم واضح ہو جائے۔
تحریر لکھنا لسانی مہارتوں کی آخری منزل ہے۔ جو ابجد نویسی سے جملہ نویسی کا سفر ہے۔ یہ ایک ایسی اہم لسانی مہارت ہے، جس کا مطلب صدائی علامتوں ( آوازوں/ الفاظ ) کو تحریری نقوش میں ڈھالنا ہے۔ یہ نقوش حروف تہجی ، ان کی مخلوط اشکال اور علامات پر مبنیٰ ہوتے ہیں۔
خوش نویسی کے لیے دو بنیادی شرائط ہیں۔
ایک اصول و ضوابط کے مطابق تدریس اور دوسرا مشق ۔ اچھی تحریر کے لیے عضویاتِ تحریر (بازو، ہاتھ ، آنکھ وغیرہ) اور آلاتِ تحریر ( قلم ، دوات، کاغذ تختی، روشنائی وغیرہ) کے ساتھ طرزِ نشست کا بھی اہم کردار ہے۔
لکھائی کے وقت چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
١ ۔ لکھائی صاف ہو۔
٢: حروف کی بناوٹ صحیح اور واضح ہو۔
٣: حروف کے جوڑنے کا طریقہ اور ترکیبی شکلیں درست ہوں۔
٤: لفظوں کے درمیان فاصلہ مناسب ہو۔
٥: حروف کی موٹائی اور لمبائی میں توازن اور تناسب کا خیال رکھا جائے۔ تحریر یکساں اور متناسب ہو۔ ایسا نہ ہو کہ کچھ لفظ چھوٹے اور کچھ لفظ بڑے ہوں ۔
٦ : سطریں سیدھی ہوں حروف کی کرسی نشست کا خیال رکھا جائے۔
٧: ہجے درست ہوں ۔ اعراب و علامات کا خیال رکھا جائے۔
٨: رموز اوقاف کا خیال رکھا جائے۔
٩: رفتار مناسب ہو۔
١٠: لکھتے وقت طرز نشست اور قلم پکڑنے کا طریقہ درست ہو۔
١١: حروف کی نشست ، دائرہ، جوڑ ، پیوند، شوشے گوشے، گھیرے، دندانے، کشش، خط، نقطے وغیرہ کے متعلق قواعد کو ملحوظ رکھا جائے ۔
ہر حرف کے ترکیب سابق ترکیب ،لاحق ترکیب اور ترکیبِ طرفین کا بھی خیال رکھا جائے۔ خوش نویسی کی کتابوں میں درست لکھنے کے اصول وقواعد دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ خوش نویسی کی متعدد سائٹس موجود ہیں۔
تحریر میں بہت سی غلطیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ مشابہ الصوت حروف مخلوط الہا اور عربی فارسی الفاظ و تراکیب ہیں مثلا شک کو شق ، مقروض کو مقروز ، ادل بدل، کو عدل بدل لکھ دیں گے۔
اسی طرح ز،کی بجائے ذ، ص، یا، ث، کی بجائے س، ذ، ز ، کے بجائے ظ، وغیرہ لکھ دیں گے۔ ہائے مخلوط سے مرکب حروف مثلاً انھیں جنھیں کی بجائے انہیں ، جنہیں لکھ دیں گے۔ کمھار کو کمبار ،کلھاڑا کو کلہاڑا لکھ دیں گے۔ واؤ معدولہ کی غلطی عموماً دیکھنے میں آتی ہے۔
مثال خوش کو خش، خواب کو خاب لکھنا۔ اسی طرح عربي الاصل الفاظ مثلاً بالکل کو بلکل، دعویٰ کو دعوی اور تقویٰ کو تقوی لکھنا۔ اسی طرح ہائے مختفی اور الف کا فرق نہ رکھ سکنا، مثلاً ،دیوانہ، فرزانہ کو دیوانا ،فرزانا اور دانا کو دانہ لکھ دینا۔
"السلام علیکم ” پر پیش کی بجائے درمیان میں ” و ” ڈال دینا۔ حائے حطی اور حائے ہوز کا فرق نہ رکھنا مثلاً حمایت کو ہمایت لکھ دینا۔
بہ راہِ کرم کو برائے کرم ، اسی طرح لیے پر” ء”لگا دینا۔ دوم اور گرامر کو دوئم اور گرائمر لکھنا۔ حروف کے شوشے اور دندانے چھوڑ دینا۔
مثلاً ص، ض، کا شوشہ بنایا جاتا ہے جیسے صبر ، صدا، صالح،ضابطہ ،ضد وغیرہ لیکن اگر ص، ض، کے بعد، ر، ہو تو اس کا شوشہ نہیں بنایا جاتا جیسے صراحی، خلاصی ، ضرورت ، ضرب و غیرہ۔
س ،ش، ص، ض، کے دندانے / شوشے الفاظ میں گھٹتے بڑھتے ہیں۔ انھیں الفاظ کی نوعیت کے لحاظ سے گھٹانا بڑھانا چاہیے۔ مثلا محولہ حروف کے ساتھ، ر، آجائے تو ان کا ایک دندانہ ختم ہو جاتا ہے۔
جیسے سردار ، شرید ، ضرر وغیرہ۔ دیگر الفاظ میں موقع کی مناسبت سے شکلیں بدل جائیں گی۔ مثلاً منشور ، شعر وغیرہ ۔ اس کے علاوہ کچھ معروف الفاظ کو بھی غلط لکھ دیا جاتا ہے۔ مثلاً کارروائی میں "ر”حذف کردیں گے یا چودھری کو چوہدری لکھیں گے۔
عموماً نقطوں کے فرق کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ۔ نقطہ آگے پیچھے ہونے یا رہ جانے سے بھی لفظ کا مفہوم بدل جاتا ہے۔
مثلاً: ملاحظہ کی بجائے ملاخطہ، دعا کی بجائے دغا، مجرم کی بجائے محرم وغیرہ۔
اسی طرح قاعدہ ہے کہ الفاظ کے آخر میں آنے والے حروف اپنی اصل صورت میں لکھے جائیں گے۔ لیکن دڈ ذرڑز ژع غ ف ہ ” اس کلیے سے مستثنا ہیں۔ تحریر کے وقت مندرجہ بالا امور کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
حواشی
موضوع کا نام:3بنیادی لسانی مہارتیں
کتاب کا نام:اردو زبان: قواعدواملا
کورس کوڈ:9010
صفحہ نمبر:21تا25
مرتب کردہ: زائرہ تسنیم
پروف ریڈر ساغر علی