باغ و بہار کی کردار نگاری

باغ بہارا کی کردار نگاری

اس داستان کے مردانہ کردار بزدل، عاشق اور سادہ لوح دکھائے گئے ہیں۔ ان کرداروں کے مقابلے میں اس داستان کی اہمیت نسوانی کرداروں کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے۔ باغ و بہار کے نسوانی کردار بہت جاندار اور مؤثر ہیں۔

باغ و بہار کے کرداروں میں ماہ رو، وزیر زادی، سراندیپ کی شہزادی اور بصرے کی شہزادی خصوصی اہمیت رکھتی ہیں۔

ماہ رو

پہلے درویش کے قصے کی ہیروئن ہے، جسے میر امن نے خوبصورت اور پری پیکر دکھایا ہے۔ اس میں تمکنت اور رکھ رکھاؤ ہے۔ وہ جذبۂ عشق سے مغلوب ہو جاتی ہے۔ عشق بھی کرتی ہے اور بدنامی سے بھی ڈرتی ہے۔ عقل مند بھی ہے اور جذبۂ عشق کے ہاتھوں مغلوب بھی۔

وزیر زادی

خواجہ سگ پرست کے قصے کی ہیروئن ہے۔ یہ قصہ بادشاہ آزاد بخت کی زبانی بیان ہوا ہے۔ وزیر زادی کی شادی خواجہ سگ پرست سے اس وقت ہوتی ہے جب وہ گڑیوں سے کھیلنے کی عمر میں ہوتی ہے، جبکہ خواجہ سگ پرست کی عمر پچاس برس کے قریب ہوتی ہے۔

سراندیپ کی شہزادی

یہ کردار بھی خواجہ سگ پرست کے قصے سے تعلق رکھتا ہے۔ میر امن نے اسے خالص ہندوستانی مزاج کی حامل راجکماری کے روپ میں پیش کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: باغ و بہار مصنف، خلاصہ اور تنقیدی جائزہ | pdf

بصرے کی شہزادی

یہ دوسرے درویش کی محبوبہ ہے، جو آخر میں اس کی بیوی بن جاتی ہے۔

پہلے درویش کی بہن

میر امن نے اس کردار کے ذریعے ایک مکمل ہندوستانی عورت کی عکاسی کی ہے، جو اپنے بھائی سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔

کٹنی کا کردار

اگرچہ یہ ایک ضمنی کردار ہے، تاہم میر امن نے اسے بھی نہایت خوبی سے پیش کیا ہے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ باغ و بہار کے کردار ہمیں اپنی عام زندگی کے کرداروں جیسے محسوس ہوتے ہیں۔ اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ان کرداروں سے مشابہ کئی افراد ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ یہی میر امن کی سب سے بڑی اور نمایاں خوبی ہے کہ ان کے کردار قاری کو اجنبی نہیں لگتے۔

میر امن کے کردار نہ صرف اپنے عہد کی دہلی کے جیتے جاگتے انسانوں کی نمائندگی کرتے ہیں بلکہ ہر کردار اپنی انفرادی خصوصیات کی بنا پر آج کی زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔ باغ و بہار کے کرداروں میں نسوانی کردار زیادہ دلچسپ، زندگی سے قریب تر اور ارتقائی دکھائی دیتے ہیں۔ مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ باغ و بہار کے نسوانی کردار، مردانہ کرداروں کے مقابلے میں زیادہ مؤثر، متحرک اور تخلیقی حیثیت رکھتے ہیں۔

باغ و بہار کی زبان و بیاں

زبان و بیان کے اعتبار سے بھی باغ و بہار کی اہمیت مسلم ہے۔ میر امن کی زبان نے ہی اسے دوسرے داستان گوؤں سے ممتاز مقام عطا کیا ہے۔ ان کی زبان قاری کے دل میں امنگوں اور حوصلوں کا ایک خوبصورت جہان آباد کرتی ہے۔

"اے بیرن! تو میری آنکھوں کی پتلی اور ماں باپ کی موئی مٹی کی نشانی ہے، تیرے آنے سے میرا کلیجہ ٹھنڈا ہوا، جب تجھے دیکھتی ہوں، باغ باغ ہوتی ہوں، تو نے مجھے نہال کیا۔ لیکن مردوں کو خدا نے کمانے کے لیے بنایا ہے، گھر میں بیٹھے رہنا ان کو لازم نہیں۔ جو مرد نکھٹو ہو کر گھر بیٹھتا ہے، اس کو دنیا کے لوگ طعنہ مہنا دیتے ہیں۔” (2)

سچ یہ ہے کہ باغ و بہار کی اصل مقبولیت اور زندگی اس کی سادہ، رواں اور مؤثر زبان میں پنہاں ہے۔ میر امن نے گھریلو، عملی اور کوچہ و بازار میں بولی جانے والی زبان کو دہلی کے محاورے کے مطابق رقم کیا ہے۔ اس عہد کی اردو نثر فارسی کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔ میر امن نے اس روش سے ہٹ کر عوامی زبان میں لکھنے کا چلن ڈالا۔ انہوں نے سادہ اور بے ساختہ انداز میں جو تحریر لکھی، وہ قاری کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔

البتہ یہ درست ہے کہ باغ و بہار میں بعض ایسے الفاظ بھی نظر آتے ہیں جن کا استعمال اُس زمانے میں عام تھا مگر اب متروک ہو چکا ہے۔ ان الفاظ کو "تروک” کہا جاتا ہے، یعنی وہ الفاظ جن کا استعمال اب ترک کر دیا گیا ہے۔ تاہم میر امن کی تحریر میں ان الفاظ کا استعمال اجنبی یا معیوب محسوس نہیں ہوتا۔

سچ یہی ہے کہ میر امن نے بول چال کی زبان میں لکھا، اور ان کی لکھی داستان آج بھی اپنی دلچسپی برقرار رکھے ہوئے ہے۔

پروف ریڈر [طیبہ]

حواشی

موضوع: کردار نگاری،کتاب کا نام: اردو داستان اور ناول: فنی اور فکری مباحث،کورس کوڈ: 9011،مرتبہ: فاخرہ جبین

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں