اردو ادب میں آپ بیتی ایک اہم صنف

اردو ادب میں آپ بیتی ایک اہم صنف | Autobiography: A Significant Genre in Urdu Literature

تحریر: پروفیسر آف اردو وٹسپ کمیونٹی اراکین

اردو ادب میں آپ بیتی

آپ بیتی تاریخ لکھنے والوں کے لیے اور تحقیق میں کافی معاون ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ کسی مخصوص وقت کے حالات و واقعات کا بیان ہوتا ہے۔

آپ بیتی میں کہیں نہ کہیں جھوٹ کا عنصر پایا جاتا ہے۔ مصنف کبھی کبھی اپنی غلط بات ظاہر نہیں ہونے دیتے۔

آپ بیتی کے ذریعے ہمیں شعراء، ادبا، یا کسی مشہور شخصیت کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کا علم ہوتا ہے۔ اس کاوشات کے مطالعہ سے ان کے تجربات مشاہدات سے ہم مستفیض ہوتے ہیں۔ ہمیں زندگی کے مختلف حالات میں رہنمائی حاصل ہوتی ہے جو موصوف کی رحلت کے بعد بھی صفحے قرطاس میں ہمیشہ کے لیے موجود ہوتے ہیں۔

قاری اس کے مطالعہ سے اپنی علمی تشنگی کو سیراب کرتے ہیں۔ قاری کو جس سے عقیدت و محبت ہوتی ہے، اس کی تصنیفات کو اپنے زیر مطالعہ میں لاتے ہیں۔ اس کے باعث موصوف قارئین کے دلوں میں زندہ جاوید رہتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اُردو میں آپ بیتی نگاری

نفسیاتی اور اعترافی آپ بیتی

نفسیاتی اور اعترافی آپ بیتیاں رومن عہد سے لکھی جانی شروع ہوئیں۔ اٹھارویں صدی میں ناول کے فن کے ساتھ بھی آپ بیتی کے فن کو ایک طرح سے ملایا گیا۔ پھر انیسویں صدی میں آپ بیتی سے متعلق صحیح قسم کا کام بھی ہوا۔ اس زمانے ہیڈن، کارلائل وغیرہ آپ بیتیاں لکھنے والوں میں نمایاں حیثیت کے مالک ہیں۔

ہر زمانے میں آپ بیتی کے ساتھ عجب قسم کا سلوک بھی ہوتا آیا ہے۔ جارج بورد نے آپ بیتی اور افسانے کے فن کی آمیزش کی۔ آخر میں اس بات پر زور دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آپ بیتی میں سچائی بے باکی اور خلوص کی حد سے زیادہ ضرورت ہے۔

آپ بیتی کے لیے انگریزی زبان میں "Autobiography” استعمال ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آپ بیتی کے عناصر

آپ بیتی کی خصوصیات

آپ بیتی اردو ادب میں ایک مشہور صنف ہے۔ اس میں خود پر بیتے ہوئے واقعات کو بیان کیا جاتا ہے۔ اردو کی سب سے مشہور آپ بیتی "جھان دانش” ہے، جسے احسان دانش نے لکھا۔

آپ بیتی ایک نثری صنف ہے جس میں مصنف شاعر یا ادیب یا کوئی بھی مشہور و معروف شخصیت کی حالات زندگی ابتدائی سے لے کر آخر وفات تک کے ہر پہلوؤں کو بیان کرتا ہے۔ جس میں حق گوئی اور بے باکانہ انداز و لب و لہجہ کا ہونا لازمی ہے۔ اگر مصنف نے کسی بات کو بیان کرنے سے کسی طرح کی قرابت داری کی رعایت کی تو اس سے آپ بیتی کا فن مجروح ہو گا۔ اس لیے ادیب یا مصنف پوری امانت داری کے ساتھ اپنی تاثرات کو قلم بند کرتے ہیں۔

قاری پڑھ کر خود فیصلہ کرتا ہے اور اس کی فنی تکنیک کو خود جانچتا پرکھتا ہے کہ یہ ایک باکمال آپ بیتی ہے یا نہیں۔

غزل اور آپ بیتی

بظاہر مثنوی کے علاوہ دوسرے اصناف سخن میں اتنی گنجائش نہیں معلوم ہوتی کہ شاعر ان کے ذریعے اپنی آپ بیتی بیان کرے۔ لیکن غزل کی صنف ایسی رنگارنگ ہے کہ اس میں سب کچھ کہا جا سکتا ہے بشرطیکہ کہنے کا ڈھنگ آتا ہو۔

بات یہ ہے کہ غزل انفرادی تجربے کو عمومی رنگ میں پیش کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ اگرچہ غزل کا ایک خاص اسلوب ہے اور سمجھا گیا ہے کہ غزل کے موضوعات بھی متعین ہیں۔

آپ بیتی اور اعترافات بقاۓ نسل کی خواہش کے علاوہ خود اپنی ذات کا اظہار ہیں۔ ہماری جبلت میں داخل ہے۔ ہمارے تمام فنونِ لطیفہ فن کار کے اظہار ذات کے سوا کچھ نہیں۔ خواہ وہ تاج محل جیسی سبک اور حسین عمارت ہو یا میر و غالب کی اثر آفریں شاعری، یہ انسانی خاصہ ہے کہ وہ اپنی ذات کا کوئی نقش دنیا میں چھوڑ کر جانا چاہتا ہے۔ اس طرح فانی زندگی بقاۓ دوام حاصل کرتی ہے۔

آپ بیتی بھی اپنی ذات کا ایک نقش ہی ہے، جسے صفحہ عالم پر ثبت کرنا ہماری سرشت میں داخل ہے۔ یوں تو مشاہیر کے حالات لکھ کر بھی دل کو ایک تسکین حاصل ہوتی ہے، لیکن اپنے حالات لکھنا اور بھی زیادہ روحانی تسکین دیتا ہے۔

آپ بیتی کا فن ابھی تک کوئی منضبط فن نہیں ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ تعدادِ صفحات کی کوئی قید ہو یا کوئی خاص طریقِ کار ہو۔ جس پر لکھنے والے کے لیے عمل پیرا ہونا ضروری ہو۔ آپ بیتی خواہ چند سطروں پر مشتمل ہو خواہ سینکڑوں صفحات پر محیط، بہر حال آپ بیتی ہی ہوتی ہے۔

دراں حالیکہ خود نوشت سوانح عمری، جو معنوی طور پر آپ بیتی ہی کہلاتی ہے، عموماً ایک منفصل کتاب ہوتی ہے جس میں مختلف باب ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے اس کا پھیلاؤ خاصا ہوتا ہے۔ البتہ آپ بیتی عام طور پر اپنے حالات کا نثر میں لکھنا ہے۔ یعنی بنیادی شرائط دو ہیں: اول یہ کہ مصنف اپنے حالات خود لکھے اور دوسرے یہ کہ وہ حالات نثر میں ہوں۔

آپ بیتی کو اعترافات کہنا بجا ہوگا۔ یہ لفظ مسیحی دینیات سے مستعار ہے۔ مسیحی کلیسا میں ہر شخص پر یہ لازم آتا ہے کہ پادری کے سامنے اپنے حالات کا اعتراف کرے۔

آپ بیتی اردو ادب میں ایک مشہور صنف ہے۔ اس میں خود پر بیتے ہوئے واقعات کو بیان کیا جاتا ہے۔ اردو کی سب سے مشہور آپ بیتی "جھان دانش” ہے، جسے احسان دانش نے لکھا۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں