عصر حاضر میں فکاہیہ کالم نگاری

عصرِ حاضر میں فکاہیہ کالم نگاری

عصر حاضر میں فکاہیہ کالم نگاری, عصرِ حاضر میں شائع ہونے والے تمام اخبارات میں فکاہیہ کالم کے لیے جگہ مختص ہے اور ہر اخبار ممتاز فکاہیہ کالم نگار کا متمنی ہے۔ کسی بھی اخبار کے قارئین کا ایک بڑا حلقہ فکاہیہ کالم کی وجہ سے وجود میں آنے لگا ہے۔ میڈیا کی ترقی کے اس دور میں اخبارات کی تعداد میں ہونے والا اضافہ فکاہیہ کالم کی ترقی میں معاون ثابت ہو رہا ہے۔ ذیل میں عصرِ حاضر کے نمایاں فکاہیہ کالم نگاروں کا مختصر تذکرہ پیش ہے

عطا الحق قاسمی

اردو میں مستقل فکاہیہ کالم لکھنے والوں میں سب سے اہم نام عطا الحق قاسمی کا ہے۔ انہوں نے ہفت روزہ "شہاب” سے کالم نگاری کا آغاز کیا۔ ان کے کالم "کچھ یوں ہی” کے عنوان سے شائع ہوتے رہے۔ اس کے بعد روزنامہ "نوائے وقت” سے وابستہ ہو گئے اور "روزن دیوار سے” کے عنوان سے کالم لکھنے لگے۔ 1961ء سے ان کی کالم نگاری کا آغاز ہوا۔ اس وقت وہ روزنامہ "جنگ” میں مذکورہ عنوان ہی سے تسلسل کے ساتھ لکھ رہے ہیں۔

ان کے کالم سدا بہار، شگفتہ، پرمغز اور ظریفانہ ہوتے ہیں۔ وہ سیاسی، معاشرتی، سماجی، معاشی اور ادبی موضوعات پر اپنے مخصوص اسلوب میں اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ ان کے کالموں کے مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں جو مستقل اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے قارئین کا وسیع حلقہ پاکستان اور بیرونِ ملک موجود ہے۔ عطا الحق قاسمی اپنی ذات میں فکاہیہ کالم نگاری کا ایک الگ دبستان ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر اسحاق وردگ بطور فکاہیہ کالم نگار تجزیاتی | PDF

عبد القادر حسن

عبد القادر حسن کا کالم "غیر سیاسی باتیں” جون 2006ء سے روزنامہ "ایکسپریس” میں شائع ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے وہ روزنامہ ” نوائے وقت” اور روزنامہ "جنگ” میں بھی اسی عنوان سے لکھتے رہے ہیں۔ ان کے موضوعات سیاسی اور سماجی ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی دیہی معاشرت کو بھی زیرِ بحث لاتے ہیں۔ ان کے ہاں زیادہ تر سنجیدگی ملتی ہے،

تاہم کبھی کبھار سنجیدہ موضوعات کو فکاہیہ انداز میں بھی برتتے ہیں۔ اسلام اور نظریۂ پاکستان ان کے کالموں کی جان ہیں اور وہ سیاسی مسائل کو اسی پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کے کالموں کا مجموعہ "غیر سیاسی باتیں” کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اردو میں فکاہیہ کالم نگاری کی ابتدا

مستنصر حسین تارڑ

اردو فکاہیہ کالم نگاری میں ایک اہم نام مستنصر حسین تارڑ کا ہے۔ ان کے کالموں میں لوگوں کے منفی رویوں پر لطیف اور کاری ضربیں قاری کو لطف دیتی ہیں، لیکن جب طنز کرتے ہیں تو ان کا لہجہ تلخ ہو جاتا ہے۔ اشارے، کنایے اور علامتی انداز میں بات کہنے کے فن میں مہارت رکھتے ہیں،

اسی لیے موضوعات کو بڑی آسانی سے بیان کر دیتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ نے اپنی کالم نگاری کا آغاز روزنامہ "مشرق” لاہور سے کیا۔ ان کے کالم کا عنوان "کارواں سرائے” ہے۔ ابتدا میں باقاعدگی سے لکھتے تھے لیکن بعد میں وقفہ بڑھتا گیا۔ اس وقت بے قاعدگی سے روزنامہ "جنگ” میں کالم لکھ رہے ہیں۔

ان کا اسلوب جان دار ہے اور اس میں ادبی چاشنی بھی شامل ہے۔ الفاظ، محاورات، ضرب الامثال اور تراکیب کے استعمال سے ان کی نثر میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ اپنے ناولوں کی طرح کالموں میں بھی کبھی کبھی انسانوں اور جانوروں کا موازنہ کرتے ہیں۔ ان کے قارئین میں ادب سے دلچسپی رکھنے والے افراد شامل ہیں،

لیکن عام آدمی بھی ان سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ بات سے بات نکالنا اور اسے ایک نئے موڑ پر لے جانا ان کے کالموں کی خاص بات ہے۔ ان کی کئی ادبی تصانیف بیسٹ سیلر بن چکی ہیں، جس کی وجہ سے وہ پوری اردو دنیا میں معروف ہیں۔ فکاہیہ کالم نگاری کی تاریخ میں ان کا نام اپنے منفرد اسلوب اور موضوعات کی حدت کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔

ظفر اقبال

عصرِ حاضر کے اہم فکاہیہ کالم نگاروں میں ظفر اقبال کا نام بھی اہمیت رکھتا ہے۔ انہوں نے روزنامہ "جنگ” میں "جنگ نامہ” کے عنوان سے کالم نگاری کا آغاز کیا۔ اس کے بعد روزنامہ "نوائے وقت” میں "پارٹی پالیٹکس” کے عنوان سے اور پھر روزنامہ "جناح” میں "دال دلیا” کے عنوان سے کالم لکھے۔ آج کل روزنامہ "دنیا” سے وابستہ ہیں اور "دال دلیا” کے عنوان سے فکاہیہ کالم نگاری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے کالموں کا انتخاب بھی شائع ہو چکا ہے۔ وہ اکثر اپنے کالموں میں ذیلی عنوانات کے تحت چھوٹے چھوٹے موضوعات پر تبصرہ کرتے ہیں۔

سیاست اور ادب ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ کتابوں اور شاعری پر تبصروں کے ساتھ ساتھ سماجیات اور معاشرتی موضوعات بھی زیرِ بحث لاتے ہیں۔ ظفر اقبال ایک منجھے ہوئے صحافی، زبان و بیان پر عبور رکھنے والے شاعر اور فکاہیہ کالم نگاری کے اصولوں سے واقف ہیں۔ ان کا اسلوب ادب اور صحافت کے امتزاج سے تیار ہوتا ہے۔ شگفتگی اور ہلکی پھلکی ظرافت کے باعث ان کے کالم پسند کیے جاتے ہیں۔

نذیر ناجی

نذیر ناجی کا کالم "سویرے سویرے” زیادہ تر سیاسی اور سماجی موضوعات پر مشتمل ہوتا ہے۔ وہ عام آدمی کے مسائل سے بھی بخوبی آگاہ ہیں اور سیاست کی راہداریوں کی اندرونی باتیں شگفتہ انداز میں قارئین کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔

ان کا اسلوب عام فہم ہے۔ سیدھے سادے الفاظ میں بات کہہ دینے کا ہنر ان کے پاس ہے۔ مشکل الفاظ اور تراکیب سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ تعلیم یافتہ اور کم پڑھے لکھے افراد یکساں طور پر ان کے کالموں سے استفادہ کرتے ہیں، اور یہی ان کے فکاہیہ کالموں کی کامیابی ہے۔ ان کے کالموں کا انتخاب "سویرے سویرے” کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

خالد مسعود

خالد مسعود نے کالم نگاری کی ابتدا 1997ء میں روزنامہ "خبریں” سے کی۔ ان کے کالم کا عنوان "ماٹھا کالم” تھا۔ بعد میں روزنامہ "اوصاف” اور دوبارہ "خبریں” میں کالم لکھے۔ پھر روزنامہ "ایکسپریس” میں "کٹہرا” کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا۔ "کٹہرا ہی” کے عنوان سے روزنامہ "جنگ” اور "92 نیوز” میں بھی کالم لکھتے رہے۔ آج کل ان کا کالم روزنامہ "دنیا” میں شائع ہو رہا ہے۔ ان کے کالم طنز و مزاح اور شگفتگی کا بہترین نمونہ ہوتے ہیں۔ لطیفے اور چٹکلے بھی ان کا حصہ ہوتے ہیں۔

وہ کسی خاص موضوع تک محدود نہیں بلکہ سیاسی، سماجی، ثقافتی، ادبی اور معاشی موضوعات پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔ چونکہ وہ مزاح گو شاعر بھی ہیں، اس لیے مزاح کے تمام حربوں سے کام لیتے ہوئے قارئین کے لیے بھرپور تفریح کا سامان مہیا کرتے ہیں۔

عبداللہ سہیل طارق

عبداللہ سہیل طارق روزنامہ ” 92 نیوزمیں "وغیرہ وغیرہ” کے عنوان سے فکاہیہ کالم لکھ رہے ہیں۔ اس سے پہلے روزنامہ "ایکسپریس” میں بھی اسی عنوان سے ان کا کالم شائع ہوتا رہا ہے۔ عصرِ حاضر میں فکاہیہ کالم لکھنے والوں میں ان کا اسلوب سب سے جداگانہ ہے۔

وہ تازہ ترین خبروں اور واقعات پر شگفتہ و ظریفانہ انداز میں تبصرہ کرتے ہیں۔ ایک ہی کالم کو تین، چار حصوں میں تقسیم کر کے مختلف سیاسی و سماجی موضوعات چھیڑتے ہیں۔ ان کے جملے ذو معنویت کے حامل ہوتے ہیں اور یہی ان کے فکاہیہ کالموں کی نمایاں خصوصیت ہے۔

درج بالا کالم نگاروں کے ساتھ ساتھ اسرار بخاری، ڈاکٹر اجمل نیازی، ڈاکٹر یونس بٹ، گل نوخیز اختر، فاروق قیصر، بداللہ جان برق وغیرہ کے کالم بھی عصرِ حاضر میں فکاہیت کے بہترین نمونے ہیں۔
اس کے علاوہ خواتین کے ہاں بھی فکاہیہ کالم نگاری کی روایت موجود رہی ہے۔ ان میں محمودہ سلطان، کشور ممتاز، نسیمہ بنت سراج، پروین شاکر، راشدہ افضال، بشریٰ رحمان اور زاہدہ حنا کے نام قابلِ ذکر ہیں

Name: Misbah

حواشی

کتاب کا نام : تحریر و انشاء (عملی تربیت)
کورس کوڈ : 9008
موضوع : عصرِ حاضر میں فکاہیہ کالم نگاری
صفحات : 142 تا 144
مرتب کردہ : کنول

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں