اشفاق احمد کی شخصیت و فن | Ashfaq Ahmad ki Shakhsiyat wa Fan
تحریر: اسکالر شاہد خان، جامعہ بونیر سواڑی
موضوعات کی فہرست
اشفاق احمد کی شخصیت و فن
اشفاق احمد اُردو ادب کے بہترین اور منفرد افسانہ نگار تھے۔ جنھیں اُردو زبان کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔ گو کہ آپ نے اُردو ادب کی ہر صنف پر کام کیا لیکن آپ کی خاص وجہ شہرت دو اصناف ڈرامہ نویسی اور افسانہ نگاری تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: اشفاق احمد کی افسانہ نگاری
آپ کی صلاحیتوں کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر فرمان فتحپوری بیان کرتے ہیں۔
” اشفاق احمد کا بنیادی اور نمایاں وصف یہ ہے کہ وہ کہانی سنانے کے فن سے واقف ہیں اور اُردو کے ممتاز افسانہ نگار ہیں۔ "(1)
پیدائش اور خاندانی پسِ منظر
گو کہ زیادہ تر لوگوں کا خیال یہی ہے کہ اشفاق احمد 22 اگست 1925ء کو غازی آباد کے گاؤں گڑھ مکستر ، فیروز پور مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے تاہم اس حوالےسے کئی طرح کے اختلافات موجود ہیں۔
جیسا کہ اُردو انسائیکلو پیڈیا میں اشفاق احمد کی 24 اگست 1925ء درج ہے ۔ (2)
جبکہ ماہنامہ رابطہ میں اشفاق احمد کی تاریخ ِ پیدائش 22 اگست 1924ء درج ہے۔ (3) اس کے علاوہ اشفاق احمد کی آٹوبائیو گرادفی میں آ پ کی تاریخ پیدائش کچھ اس طرح سے درج ہے۔
"Ahmed was born on 22 August 1925 in Garh muktasar village, Ghazaiabad, British India.” (4)
اس کے علاوہ ماہنامہ "بیاض ” میں اشفاق احمد کی تاریخ پیدائش 1925ء بیان کی گئی ہے۔ (5)
اسی طرح سے ماہنامہ ادب لطیف میں بھی اشفاق احمد کی تاریخِ پیدائش 22 اگست 1925ء بمقام مکستر فیرو ز پور بھارت درج ہے۔ (6)
جبکہ اس حوالے سے ڈان (DAWN) نیوز پیپر کا کہنا ہے کہ :
Ashfaq Ahmed – Born on Aug 22, 1925 in Village Garh Muktasar, Ashfaq obtained his early education in his native district, Ferozepure, East Punjab. (7)
اشفاق احمد نے اپنے بیشتر انٹرویوز میں اپنی تاریخ پیدائش 22 اگست ہی بیان کی تاہم سن کا ذکر نہیں کیا۔
طاہر مسعود آپ کی تاریخِ پیدائش کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ:
” اشفاق احمد جو آج ٹیلی وژن کے متنازعہ ترین ادیب کی حیثیت سے ملک بھر میں مصروف ہیں ۔ 22 اگست 1927ء کو پیدا ہوئے۔”(8)
نعیم مصطفی ٰ اپنے انٹرویو ” ایسا کہاں تجھ سا لاؤں کہیں ” میں اشفاق احمد کی پیدائش کے حوالےسے بیان کرتے ہیں۔
” 22 اگست 1927ء اور 7 دسمبر 2007ء بھارت کے مشرقی پنجاب میں واقع شہر فیروز پور سے شروع ہونے والا پاکستان کے دل لاہور تک کا یہ سفر 77سال 17 دن اور 7 گھنٹے پر محیط ہے۔ "(9)
یہ بھی پڑھیں: اشفاق احمد کی فکشن نگاری از انیس فاطمہ
جبکہ شازیہ اپنے مقالے ” اشفاق احمد کی ادبی خدمات۔ اُردو ادب کے تناظر” میں بیان کرتی ہیں مختلف شواہد اور بانو قدسیہ سے ملاقات کے حوالے سے آپ کی تاریخِ پیدائش 22 اگست 1925 ء ثابت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ:
"لہذاٰ اشفاق احمد کے بیانات اور مذکورہ شواہد کی روشنی میں ان کی تاریخ ِ پیدائش 22 اگست 1925ء کو ہی درست تسلیم کیا جانا ہے ۔ "(10)
یہ بھی پڑھیں: اشفاق احمد کی ادبی جہتیں مقالہ افتخار احمد
اس حوالے سے نورین کھوکھر اشفاق احمد پر مبنی مقالے ” اشفاق احمد کے افسانوں کا اخلاقی تناظر ” میں لکھتی ہیں کہ:
"راقمہ کی بانو قدسیہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اشفاق احمد کی تاریخ ِ پیدائش 25 اگست 1925 ء ہے ۔
لیکن جب تصدیق کے لیے اشفاق احمد کے بڑے بیٹے انیق احمد سے بات کی تو انہوں نے بیان کیا کہ ‘ ابا جی کی صحیح تاریخِ پیدائش 22 اگست 1925ء ہے ‘۔لیکن جب میں نے انہیں بانو آپا کا حوالہ دیا تو انہو ں نے کہا کہ ‘ اماں کی یادداشت آج کل ایسے ہی ہے بوجہ صحت ۔
ابا جی کی درست تاریخ ِ پیدائش 22 اگست ہی ہے ۔ راقمہ نے سوال کیا کہ کیا آ پ ان کی سالگرہ منایا کرتے تھے تو آپ نے ہاں میں جواب دیا۔ "(11)
پس اشفاق احمد کے انٹرویو اور ان کے اہلِ خانہ کے بیانات سے یہ ظاہر ہے کہ آپ کی تاریخِ پیدائش 22 اگست 1925ء ہی تسلیم کی جانی چاہیے۔
اشفاق احمد ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے آباو اجداد ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں آ بسے تھے۔
آ پ ایک پٹھان راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ کے دادا دوست محمد خاں بعد ازاں ہوشیار پور سے نقل مکانی کر کے حیدرآباد میں رہائش پذیر ہوئے ۔
اشفاق احمد کا آبائی حویلی نما مکان محلہ ، ہجیرہ میں واقع تھا۔ اشفاق احمد کے علاقے میں سکھوں کا ایک بڑا گردوارہ تھا ، اور آپ کے علاقے سے تقریباً 33 میل دور دریا ستلج بھی ہے جہاں ہر سال جنوری کے مہینے میں ایک پروگرام منعقد ہوتا تھا۔
اس بارے میں اشفاق احمد خود بیان کرتے ہیں کہ :
"میرا گاؤں ، گاؤں نہیں بلکہ ایک قصبہ تھا جس کی آبادی کوئی پچیس ہزار کے قریب تھی۔ جہاں پر ہم رہتے تھے لیکن وہ پچاس ہزار کا قصبہ تھا جہاں جنوری کے مہینے میں دس تاریخ کے بعد تین لاکھوں کا قصبہ بن جاتا تھا،
وہاں پر ایک میلہ لگتا تھا جسے ہم "ماڑھی ” کہتے تھےجنور ی کی دس ، بارہ ، تیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو ضلع پولیس آتی تھی اور دور دور سے تماشے تھیٹر آتے تھے۔ "(12)
آپ کے والد کا نام محمد خان تھا جبکہ والدہ کا نام سردار بیگم تھا۔ آپ کے والد ایک عظیم اور بارعب شخصیت کے مالک تھے اور پیشے کے اعتبار سے ویٹرنری (Veterinary) ڈاکٹر تھے۔
پورے گھر پر آپ کے والد کا دبدبہ قائم تھا ۔ آپ کی والدہ زیادہ تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود ایک ذہین اور دور اندیش خاتون تھیں ، یہی وجہ ہے کہ خاوند کی جابرانہ طبیعت کے باجود ہمیشہ حکمت عملی سے کام لیتی تھیں۔
اشفاق احمد کل آٹھ بہن بھائی تھے ۔ پانچ بھائی اور دو بہنیں ۔پانچ بھائیوں میں اشفاق احمد سب سے چھوٹے تھے جبکہ دونوں بہنیں اشفاق احمد سے چھوٹی تھیں۔ آپ کے خاندان کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے ممتاز مفتی رقم طراز ہیں کہ :
"اشفاق احمد کھاتے پیتے پٹھان گھر میں پیدا ہوا ۔ بہت سے بھائیوں میں ایک کے سوا سب سے چھوٹا تھا ۔ باپ ایک قابل محنتی اور جابر پٹھان تھا۔
جس کی مرضی کے بغیر گھر میں پتہ بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ گھر کا ماحول روایتی تھا، بند شیں ہی بندشیں تھیں۔ اس کے باوجود اشفاق احمد کی شخصیت میں بنیادی طو رپر پٹھانیت کا عنصر مفقود تھا ۔
والد کی سردا ر طبیعت ہونے کی وجہ سے گھر میں جوائنٹ فیملی سسٹم رائج تھا۔ اشفاق احمد کے تمام بھائی ٹیلنٹڈ اور باصلاحیت تھے۔ ” (13)
اس سے ظاہر ہے کہ اشفاق احمد ایک بھر پُرے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے بہن بھائیوں کے نام 1۔ آفتاب احمد خان، 2 ۔ افتخار احمد خان، 3۔ اقبال احمد خان ، 4۔ اسحاق احمد خان، 5۔ اشتیاق احمد خان، 6۔فرخندہ، او ر 7۔ راحت ، تھے۔
تاہم اپنی جداگانہ اور منفرد شخصیت کی وجہ سے اشفاق احمد کا تمام گھر کے افراد سے بس رسمی سا تعلق ہی مو جود تھا ۔ جیسا کہ ممتاز مفتی لکھتے ہیں کہ :
” اشفاق احمد نے ورثے میں جو صلاحیتیں پائی تھیں ، وہ باقی بھائیوں سے ہٹ کر تھیں۔ اس کی شخصیت کا رنگ سارے گھر سے مختلف تھا۔ اس لیے وہ گھر کا حصہ نہ بن سکا تھا۔
وہ گھر میں رہتا ضرور تھا۔ اسے اپنے خاندان پر فخر تھا ۔ والدہ کی عظمت کا اعتراف تھا، بہن بھائیوں سے محبت تھی۔ لیکن وہ گھر میں گُھل مل نہ سکا۔”(14)
اشفاق احمد کی زندگی بظاہر کسی بھی فکر و تردد اور دکھ سے آزاد تھی ۔ اس کے علاوہ گھر میں ہر قسم کی سہولتیں اور آرام میسر ہونے کے باجود اشفاق احمد گھر کے اوپری حصے میں موجود ایک الگ کمرے میں رہتے اور زیادہ تر وہیں وقت گزارتے۔
انہیں کتابوں سے بے حد محبت تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کمرہ چاروں طرف سے کتابوں میں گھرا نظرآتا تھا۔ اور آپ گھر کے کسی رونق میں زیادہ حصہ نہ لیتے تھے۔
اشفاق احمد نے 1956 ء میں قدسیہ بانو سے شادی کی ۔جن کا قلمی نام "بانو قدسیہ ” ہے۔ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی جوڑی اُردو ادب میں بے حد اہمیت کی حامل ہے ۔
اشفاق احمد کے تین بیٹے ، انیق احمد، انیس احمد، اور اثیر احمد ہیں۔
تعلیم و تربیت
اشفاق احمد کی ابتدائی تعلیم کا آغاز مکتب سے ہوا۔انہوں نے ناظرہ اور فارسی کی ابتدائی تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی ۔
یہ مکتب مسجد میں قائم تھا جہاں پر تختی پر لکھنا سکھایا جاتا تھا جو کہ ایک تخلیقی عمل تھا۔ اشفاق احمد نے اس حوالے سے زوایہ میں لکھا ہے کہ
” میں عرض کر رہا ہوں کہ میرے ذہین میں 1930-1929ء اور اکتیس بتیس کے واقعات گردش کر رہے ہیں،
جن میں اسکول جارہا ہوں۔ میری تختی ہے، میرا بستہ ہے ۔” (15)
مکتب سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اشفاق احمد کے والدین نے انگریزی تعلیم کے لیے انہیں بھی باقی بچوں کے ساتھ میونسپل بورڈ سکول میں پانچویں جماعت میں داخل کیا جہاں سے انہوں نے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔
اس وقت کے دور میں ترقی پسند تحریک عروج پر تھی۔
اشفاق نے ابتدائی تعلیم اپنے قصبے سے ہی حاصل کی تاہم ان کی پیدائش کی تاریخ کی طرح میٹرک کے سن میں بھی بعض جگہ اختلاف موجود ہے ۔
جیسا کہ اے حمید نے اپنی کتاب "اشفاق احمد شخصیت و فن ” میں میڑک کا سال 1934ء بیان کیا ہے۔(16)
جبکہ جی سی یونیورسٹی لاہور کے "راوی” اشفاق احمد نمبر میں میٹرک کا سال 1942ء لکھا ہے۔ (17)
میٹرک کے بعد اشفاق احمد نے 1944 میں ایف اے کا امتحان آر ایس ٹی کالج سے پاس کیا ۔ اشفاق احمد نے بی۔اے 1946ء میں دیال سنگھ کالج سے کیا۔ (18)
آپ کے بی –اے کرنے کے متعلق آپ کے بھتیجے جاوید طارق بیان کرتے ہیں کہ
"Javed Tariq Mr. Ahmed nephew, told. Daily Time that his uncle get his early education at Ferozpur, and then he did his BA from Lahore Master from lahore in Urdu from Government College in Lahore.”(19)
اشفاق احمد نے 1950ء میں ایم –اے کا اُردو کی ڈگری نوبل کالج لاہور سے حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے مزید تعلیم کے لیے یونیورسٹی فرانس سے فرانسیسی زبا ن میں ڈپلومہ 1953 ء کو حاصل کیا۔
اس کے بعد آپ نے اٹلی کی یونیورسٹی سے 1957ء میں اطالوی زبان میں ڈپلومہ کیا(20)۔
اس کے علاوہ 1962ء میں نیویارک یونیورسٹی امریکہ سے ریڈیائی نشریات کی خصوصی تربیت حاصل کی اور اسی سال ورمونٹ (Wermont) میں بریڈلون(Bread Loat) رائٹرز گروپ میں شرکت بھی کی ۔
اشفاق احمد کو پڑھائی اور کتابوں سے بے حد شغف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت مطالعے میں مشغول نظر آتے تھے۔ بقول ممتاز مفتی:
” اشفاق احمد کے صرف دو شوق تھے، کتاب اور مشین، مطالعے کا رسیا تھا مشینوں کا دلدادہ ، راہ چلتے نئی مشین کو دیکھ کر رُک جاتا ،
اُسے اُلٹ پلٹ کر دیکھتا ، کیسے چلتی ہے ، کیا کام ہے ، کس دھات کی بنی ہوئی ہے ۔ "(21)
مطالعے اور مشینوں کی تحقیق علاوہ اشفاق احمد کو آرٹ کا بھی شوق تھا۔ لہذاٰ آپ نے اپنے ایک دوست زوبی جو کہ جانا مانا مصور تھا کو دیکھتے ہوئے چند پینٹنگ بنا کر اپنا یہ شوق پورا کیا۔
نیویارک یونیورسٹی میں ریڈیائی نشریات کی تربیت حاصل کرتے ہوئے ٹریننگ کے دوران اشفاق احمد نے ” خوابوں کا جزیرہ ” کے عنوان سے اپنے نیویارک سے متعلق واقعات کو ایک سفر نامے کی شکل میں تشکیل دیا۔
یہ سفر نامہ نیویارک سے متعلق تاثرات اور خیالات کا مجموعہ ہے ۔
ملازمت
قیام پاکستان کے بعد آپ کا خاندان پاکستان منتقل ہوا تو لاہور میں انہیں گھر الاٹ ہوا۔ شروع میں ہجرت کی وجہ سے گھر میں حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے مہاجرین کے لیے بنائے گئے عارضی کیمپوں میں ملازمت شروع کر دی ، وہاں آپ نے مہاجرین کی رجسٹریشن کا کام کیا۔
اس کے بعد آپ کو وہاں مہاجرین کا نام پکارنے کے لیے لاؤڈ اسپیکر اناؤنسمنٹ کی ذمہ داری دے دی گئی ۔
جہاں سے آپ کا تعلق ریڈیو پاکستان لاہور سے ہوا۔ اس وقت ریڈیو کے مشہور آرٹسٹ محمد حسین المعروف علی بابا نے اشفاق احمد کو ڈرامہ نگار ی کے سلسلے میں ابتدائی رہنمائی فرمائی تو آپ نے "اچی ماڑی” کے نام سے ایک بے حد مشہور پروگرام پیش کیا۔
جسے بے حد شہرت ملی۔آپ کو لکھنے لکھانے کا شغف تو شروع سے ہی تھا۔
اس کے بعد 1968ء میں اشفاق احمد نے اپنا بے حد مقبول و مشہور پروگرام” تلقین شاہ” کا آغازکیا۔ جو کہ 1987ءتک ریڈیو پر چلتا رہا (22)۔
اس مستقل سلسلہ وار نے عوام میں بے حد مقبولیت سمیٹی۔ جمیل احمد سے حوالے سے لکھتے ہیں۔
ریڈیو پر اشفاق احمد نے بہت کام کیا اور اسی لیے تلقین شاہ نامی فیچر نے ریکارڈ توڑا اور پھر ایک نیا ریکار ڈ قائم کیا۔ اس ریکارڈ سے مراد اس ڈرامے کا ایک طویل عرصے تک نشر ہونا تھا ورنہ ریڈیو پر کوئی مقبول سے مقبول پروگرام چوتھا صدی تک نہیں چل سکتا۔
یہاں پر بھی نقادوں نے اشفاق احمد کو تلقین شاہ ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا۔ ” (23)
تلقین شاہ پروگرام کے علاوہ آپ نے 48 ڈرامے لکھے۔ جن کے رائٹر اور صداکار آپ خود تھے ۔
اس وقت لکھے جانے والا یہ پروگرام دنیا کا دوسرا اور براعظم ایشیاء کا پہلا طویل ترین ریڈیو پروگرام قرار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اشفاق احمد نے آل انڈیا ریڈیو لاہور اسٹیشن پر اناؤنسمنٹ کے فرائض بھی 1944ء میں سر انجام دیے۔
جب آپ کو آزاد کشمیر اور راولپنڈی ریڈیو اسٹیشن پر بطور براڈ کاسٹر بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ (24)
اس کے علاوہ اشفاق احمد نے لیکچرار کی حیثیت سے بیرون ملک کام کیا۔ سب سے پہلے 1951-1952 ء لیکچرار شعبہ اُردو دیال سنگھ کالج لاہور میں کام کیا۔ وہاں سے آپ کو 1953-1954ء میں بطور لیکچرار اُردو اٹلی کی روم یونیورسٹی میں کام کرنے میں کام کرنے کی پیشکش ہوئی۔
1966ء میں اُردو سائنس بورڈ لاہور کے ڈائریکٹر جنرل بنے جہاں آپ 1989ء تک تعینات رہے جبکہ اس دوران اشفاق احمد نے 1967ء میں ایک سال آنریری لیکچرر پنجابی کے طور پر پنجاب یونیورسٹی میں کام کیا۔
اس کے بعد 26 مارچ 1991 تا
19 جون 1993 ء یعنی کے تقریباً دو سال آپ نے یہ عہدہ دوبارہ سنبھالا۔ اس کے علاوہ اشفاق احمد نے آر –سی –ڈی ریجنل کلچر انسٹیٹیوٹ پاکستان برانچ کے ڈائریکٹر کے طور پر بھی 1970 سے 1974ء تک فرائض سر انجام دیے۔
اور آپ نے اس دور ان بطور ایڈیٹر لیل و نہار بھی کام کیا۔ (25)
اعزازات
اشفا ق احمد کو آپ کی خدمت کی وجہ سے حکومتِ پاکستان کی طرف سے 1979ء میں ادب کا "تمغہ حسن کار کردگی” دیا گیا۔ اس کے علاوہ گریجوئٹ ایوارڈ اور پی –ٹی –وی ایوارڈ بھی آپ کو ملے۔
آپ کو چار دفعہ گریجوئیٹ ایوارڈ سے نوازا گیا اور "مجید الملکی” ایوارڈ بھی ملا۔ اس کے علاوہ اشفاق احمد کو "دوحہ قطر ایوارڈ” دیا گیا ۔
اور گورنمنٹ کالج لاہور نے ان کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے سا ل 2004ء میں "اشفاق احمد چئیر” کا بھی قیام کیا۔ (26)
زبانوں سے واقفیت اور بیرون ملک سفر
اُردو ادب کی شان اشفاق احمد کو بیک وقت پنجابی،اُردو ، انگریزی ، اطالوی ، او ر فرانسیسی زبان آتی تھی۔ اس کے علاوہ امریکہ ، برطانیہ، فرانس، اسپین، اٹلی ، جرمنی ، آسٹریلیا، بیلجئیم ، ہالینڈ، لبنان ، مصر، ایران ، ترکی، سعودیہ،چین، ناروے ، ڈینمارک اور کینیڈا میں سفر کا اعزاز حاصل کیا۔
ٹیلی وژن (Television)
1964ء کو پاکستان نے ٹیلی وژن نشریات کا آغاز کیا تو ریڈیو پر کام کرنے والے لوگوں کو ہی شروع میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ۔
یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ٹیلی وژن کے آغاز کے دور میں سامنے آئے ، وہ اپنی الگ شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ جن میں اشفاق احمد کا نام ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔
اشفاق احمد ایک بہترین افسانہ نگار اور کہانی نویس تھے یہی وجہ ہے کہ جب آپ کو ٹیلی ویژن کی وسیع دنیا میں کام کرنے کا موقع ملا تو آپ نے اپنی صلاحیتوں کا کھل کر اظہار کیا اور ٹیلی ویژن کو کئی یاد گار پرو گرام، ڈرامے اور فیچر ز دیئے۔
اس بارے میں اے حمید لکھتے ہیں کہ
"ٹیلی ویژن کے لیے اس نے جو فیچر اور ڈرامے لکھے ان کی تعداد پونے چار سو کے لگ بھگ ہے۔ ” (27)
آپ کے ٹیلی وژن پر پیش کیے گئے ڈراموں میں ” ایک محبت سو افسانے ” ، "کاروان سرائے ” ، "حیرت کدہ "، "من چلے کا سودا”، "بند گلی "، "توتا کہانی”، ” اور ڈرامے "، ” قلعہ کہانی”،” ننگے پاؤں”، گل دان "اور "بجنگ آمد ” کافی مشہور ہیں۔ (28)
جب کہ اردو کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد نے پنجابی ڈرامے بھی تحریر کیے۔
جن میں” اچے برج لاہور دے”،” ٹاہلی دے تھلے” کافی مشہور ہوئے۔
اشفاق احمد نے ” ایک محبت سو افسانے ” کے نام سے ڈراموں کی سیریز لکھی۔ جس میں آپ نے بے حد مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان ڈراموں میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے کردار لیے اور زندگی کی حقیقتوں کو اپنا موضوع بنایا۔
اس سیریز کے ڈراموں نے بہت زیادہ مقبولیت اور شہرت حاصل کی۔ معروف شاعر ،ادیب، کالم نگار اور ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد نے اشفاق احمد کو” پی ٹی وی” کا بانی ڈرامہ نگار قرار دیا ہے۔
اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ
"اشفاق احمد نے اس دوران حیرت کدہ کے نام سے علامتی ڈرامہ پیش کیا جو ناظرین کے ذہنوں کے بند دروازوں پر دستک دیتا ہے۔
ان حالات میں ٹی وی پر ایک نیا تجربہ کرنا اشفاق صاحب کا ہی خاصہ تھا۔ اسی لیے ڈرامہ نگاروں کی صف اول میں بھی ممتاز تھے اور بلاشبہ ہم انھیں ٹی وی ڈرامہ نگاری کا بانی کہہ سکتے ہیں۔”(29)
ٹیلی ویژن کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد نے خود کو بڑی سکرین پر بھی متعارف کرانے کا فیصلہ کی اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر تخلیق کار اپنے جذبات کے اظہار کے لیے ترقی کے مزید مواقع تلاشتا ہے ۔
ریڈیو سے ٹیلی ویژن اور ٹیلی ویژن سے فلم تک کا سفر اشفاق احمد نے شوق کی تکمیل کے لیے کیا مگر کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی ادیب کوئی ناول، افسانہ لکھ دیتا ہے تو پبلشر اسے شائع کر دیتا ہے۔ کتاب بعد میں بکتی رہتی ہے۔ ریڈیو پہ آپ نے کوئی پرو گرام کیا، نشر ہوا، سامعین نے سن لیا یا ٹیلی ویژن پر آپ کا کوئی ڈرامہ نشر کیا جاتا ہے
تو اشتہار ملتے ہیں اور ڈرامہ چلتا رہتا ہے مگر عوامی رد عمل یا مقبولیت کا اندازہ اس طرح نہیں ہوتا جس طرح فلم بنانے والوں کو ہوتا ہے۔ فلم کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔
فلم کی کہانی اشفاق احمد نے خود اور اس کے لیے نئے چہرے بھی کاسٹ کیے گئے ۔ حتیٰ کہ اشفاق احمد نے ہدایت کاری بھی خود کرنےکا فیصلہ کیا۔ تاہم کیونکہ اس حوالےسے اشفاق احمد کو کوئی خاص تجربہ نہ تھا لہذا ٰفلم جب تیار ہو کر سینما گھروں میں پہنچی تو مقبولیت کی منازل طے نہ کر سکی۔
او ر جلد ہی سینماؤں سے اتر گئی ۔ اس کے بعد اشفاق احمد نے کوئی بھی فلم دوبارہ نہ بنانے کا فیصلہ کیا۔
رسائل کی ادارات
اشفاق احمد نے اپنے ادبی سفر کا آغاز بچپن میں ہی کر دیا تھا۔ اس کا پتہ ان کے ساتویں جماعت میں شائع کروائے جانے والے پرچے” علم الوقیع ” سے چلتا ہے ۔
اس حوالے سے اشفاق احمد بذات خود ایک نٹرویو کےکے دوران بیان کرتے ہیں کہ
"میں نے چھٹی یا ساتویں جماعت میں ہی لکھنا شروع کر دیا تھا۔
اس زمانے میں، میں نے ایک پرچہ بھی نکالا تھا، جس کا نام "علم الوقیع”رکھا تھا۔ میرا پہلا باقاعدہ افسانہ "تو بہ ۱۹۴۴ میں "ادبی دنیا میں چھپا۔”(30)
پس اس سے واضح ہے کہ اشفاق احمد نے اپنے ادبی سفر کا آغاز بچپن سے ہی کرد یا تھا۔ شروع میں انہوں نے کچھ بے وزن سی نظمیں لکھیں لیکن جلد ہی افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئے اور 1943ءمیں اپنا پہلا افسانہ تخلیق کیا۔
اگرچہ اشفاق احمد نے یہ افسانہ ماہنامہ "ساقی” دہلی میں چھپنے کے لیے بھیجا تھا۔ لیکن چھپ نہ سکا۔ اس کے بعد یہ افسانہ مولانا صلاح الدین احمد کے رسالہ ادبی زندگی میں پہلی بار شائع ہوا۔
اشفاق احمد نے رسالہ "داستان گو” 1956ء میں جاری کیا ، اور رسالہ ہفتہ روز لیل و نہار کی ادارت کے فرائض بھی کچھ عرصہ سرانجام دیئے۔ لیکن بعد میں کنارہ کشی کر گئے ۔ اس سلسلے میں ریاض محمود رقمطراز ہیں:
"یہ غالباً 1960ء کی بات ہے کہ اشفاق احمد ان دنوں ہفتہ روزہ "لیل و نہار” کے ایڈیٹر تھے کچھ عرصے کے بعد وہ لیل و نہار کی ایڈیٹر چھوڑ کر ریڈیو پاکستان لاہور میں بطور اسکرپٹ رائٹر منسلک ہو گئے۔”(31)
اپنی زندگی کے حوالے سے اشفاق احمد کہتے ہیں کہ
"میں نے ادبی زندگی کی ابتدا سکول کے زمانے میں شاعری سے کی کچھ بے وزن سی نظمیں لکھیں۔
پھر جلد ہی افسانہ نگاری کی طرف آ گیا اور ۱۹۴۳ء میں پہلا افسانہ لکھا۔ میں نے اسے ساقی میں چھپنے کے لیے دہلی بھیجا۔ وہاں سے واپس آ گیا۔ مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔
خیر میں نے اسے مولانا صلاح الدین احمد کے رسالے”ادبی زندگی” میں شائع کرا دیا۔ انھوں نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور چلتا ہی رہا۔”(32)
اُردو رائٹرز اشفاق احمد کے ادبی سفر کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
” وطن واپس آکر ادبی مجلہّ "داستان گو” جاری کیا، دو سال ہفت روزہ ” لیل و نہار” کی ادارات کی۔ "(33)
اس کے بعد اشفاق احمد نے امریکہ میں V-O-A پر کلے ایکچینج پروگرام پیش کیا ۔
مجالس اور علمی اداروں کی رکنیت
اپنی پوری زندگی میں اشفاق احمد بہت سے علمی اداروں اور مجالس کے رکن بھی رہے ۔ جو کہ درج ذیل ہیں۔
ممبر انسٹیٹیوٹ آف ماڈرن لینگوئیجز اسلام آباد، اسلام آباد
ممبر پاکستا ن کورسز کمیٹی، بورڈ آد انٹر میڈیٹ اینڈ سینڈری ایجوکیشن
ممبر کمیٹی آف کورسز برائے پاکستان کلچر، اسلام آباد
ممبر بورڈ آف اسٹڈیز (پنجابی) ، پنجاب یونیورسٹی ، لاہور
ممبر اکادمی ادبیات پاکستان Executive Body ، اسلام آباد
ممبر ، انجمن ترقی اُردو بورڈ، کراچی
ممبر مرکزی کمیٹی برائے پاکستان، برکلے اُردو پروگرام ، برکلے یونیورسٹی ، امریکہ
ممبر ہجرہ کمیٹی ، اسلام آباد
ممبر نیشنل کونسل آف دی آرٹس،اسلام آباد
اعزار چیف ایڈیٹر ماہنامہ”سکھی سکھر” لاہور
ممبر نیشنل بُک فاؤنڈیشن ، اسلام آباد
ممبر افیاکی مجلس علمی ، لاہور
ممبر پاکستان اسٹینڈرڈ انسٹیٹیوشن ، کراچی
ممبر پبلک لائبریریز ، لاہور
ممبر اُردو ڈکشنر ی بورڈ ، لاہور
ممبر پاک مشاوراتی کمیٹی
ممبر ایگزیکٹو باڈی، لوک ورثہ ، اسلام آباد (34)
وفات
علم و دانش محبت و خدمت کا یہ استعاره 7 ستمبر 2004 ء بروز منگل اس جہاں فانی سے کوچ کر گیا۔ 8 ستمبر 2004ء کو پاکستان کے ہر انگریزی وار دو اخبار میں یہ سنسنی خیز خبر موجود تھی۔
جس پر ساری قوم افسردہ تھی۔ اشفاق احمد ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ ان کی وفات پر حکمران ، سیاست دان، دانش ور، صوفی اور ادیب سب رنجیدہ اور شکستہ دل دکھائی دیتے تھے۔
ان کی وفات پر اشفاق احمد ایک اجمال "گمشدہ لوک دانش کا کھوجی”، "تلقین شاہ کی آواز مرگئی”، "خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا”۔” داستان سرائے کا داستان گو….. ہمیشہ کیلئے سوگئے داستان کہتے کہتے”، "چوپال اجڑ گئے”۔” اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا” جیسے تعزیت نامے شائع ہوئے۔
علمی وادبی حلقوں میں آوو بکا کا شور مچ گیا۔ ہر سال ان کے نام پر ان کا مشہور پروگرام ”تلقین شاہ“ اور زاویہ کے کچھ پروگرام ( اصلاحی پروگرام) ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتے ہیں۔
روز نامہ مساوات کے مطابق
"معروف مصنف اور دانشور اشفاق احمد منگل کو لاہور میں انتقال کر گئے ان کی عمر 80 سال تھی۔ ” (64)
منگل کی شام کو اشفاق احمد کو ماڈل ٹاون قبرستان میں دفنایا گیا۔
"He was laid to rest on Tuesday evening at graveyard of Model Town.” (65)
اشفاق احمد ان خوش نصیب ادباء میں شامل ہیں جنھیں ان کے ادبی آغاز میں ہی بے پناہ شہرت ملی ، وہ جب تک زندہ رہے ۔ ہر خواص و عام میں یکساں مقبول رہے ۔ آپ کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کہتے ہیں کہ :
” کسی کو عہد ساز کہا جا سکتا ہے تو وہ بلاشبہ اشفاق احمد ہیں جن کے افکار و خیالات نے دوستوں کو متاثر کیا۔ "(66)
جب کے اشفاق احمد کے بارے میں امجد اسلام امجد اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کرتے
ہیں۔
” اشفاق احمد ہمارے دور کے Greats میں شامل تھے، اُردو ادب میں ان کی حیثیت”آل راؤنڈ” کی تھی۔”(67)
ڈاکٹر وحید قریشی کا کہنا ہے کہ :
” اس کی محبت دوستوں تک محدود نہیں رہی بلکہ ہر شخص کے لیے اس کے دل میں محبت کا جذبہ بیدار رہتا تھا۔ اور آج اس کی فکر کا کوئی ادیب مجھے دکھائی نہیں دیتا۔”(68)
ڈاکٹر اختر شمار کے مطابق:
” آپ ایک پہلو وار شخصیت کے مالک تھے ان کی موت ایک عہد کی موت ہے۔”(69)
اے جی جوش کہتے ہیں :
” انھوں نے جو لکھا اور جتنا لکھا آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔” (70)