آتش کی غزل (انتخاب)
شعر 1
چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
یقین ہو گیا شبنم کو آفتاب آیا
لفت:
چمن؛ باغ
بے نقاب؛ بے پردہ
شوخ؛ چنچل مراد محبوب
تشریح:
مطلع میں آتش اپنے دوست کا موازنہ سورج سے کر رہا ہے یعنی تشبیہ کا استعمال ہے جو علم بیان کی ایک قسم ہے۔ رات کے وقت جب وہ حسین و جمیل شخص باغ میں آ نکلا تو اس کے نور سے اندھیرا چھٹ گیا گویا دن نکل آیا اور شبنم فنا کے گھاٹ اتر گئی۔ شبنم صرف سورج کی کرن سے اپنی ہستی کھو بیٹھتی ہے لہذا اسے یقین کرنا پڑا کہ واقعی سورج طلوع ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خواجہ حیدر علی آتش کی غزل گوئی | بی ایس اردو
علم بدیع کی رو سے دیکھیں تو اس میں صنعت مبالغہ بھی موجود ہے۔ اتنا خوبصورت محبوب ہے کہ رات کے اندھیرے میں رخ سے پردہ ہٹا دے تو ہر سمت روشنی پھیل جاتی ہے۔ اسی طرح کی صورت حال کو میر تقی میر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
وہ آئے بزم میں اتنا تو ہم نے دیکھا میر
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
شعر 2:
اسیر ہونے کا اللہ رے شوق بلبل کو
جگایا نالوں سے صیاد کو جو خواب آیا
لغت:
اسیر؛ قیدی
نالہ؛ فریاد کرنا/ رونا دھونا
صیاد؛ شکاری / شکار کرنے والا
تشریح
بلبل اردو شاعری میں بہت زیادہ آیا ہے اور یہ پھول کے عاشق کے طور پر شعر میں باندھا جاتا ہے۔ گلستان کی محبت میں وہ کوئی بھی قیمت چکانے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اس شعر میں شاعر نے کہا ہے کہ کیسی عجیب بات ہے کہ بلبل کو قید ہونے کی اس قدر تمنا ہے کہ سوئے ہوئے شکاری کو اپنی آہ و بکا سے جگا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خواجہ حیدر علی آتش سوانح اور شاعری کی خصوصیات
شکاری جب گہری نیند میں تھا اور خواب دیکھ رہا تھا تب اسے بیدار کر دیا اور اپنے قید ہونے کا خود ہی انتظام کر دیا۔ یعنی محبوب (پھول) کی محبت میں وہ ہر خطرہ مول لینے پر آمادہ تھا۔ یہ عاشق کے اس جذبے کی طرف اشارہ ہے جس میں وہ اپنے دوست کی خاطر بڑی بڑی مشکلات جھیلنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور نتائج کی پروا نہیں کرتا۔
شعر 3
ہمیشہ بلبل و قمری سے بحث نالہ رہی
کسی کماں سے چھٹا تیر میں جواب آیا
لغت:
قمری (پرندہ بلبل کی مانند )
تشریح
عاشق کی اس بات پر بلبل اور قمری سے بڑی تکرار ہوتی رہی ہے کہ رونے کی درد بھری آواز میں اور غم کی صدا میں جو معشوقوں کے فراق میں ابھرتی ہیں وہ اثر کیوں نہیں رکھتیں۔ البتہ جب آہیں بلند ہوتی ہیں تو نامعلوم کہیں سے تیر جواب میں آ جاتے ہیں۔ یہ تیر کون برسا رہا ہے اور کس طرف سے یہ ستم ہو رہا ہے کچھ علم نہیں۔ یہ معشوق کی ان بے وفائیوں اور جفاؤں کی طرف اشارہ ہے جو وہ اپنے چاہنے والوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔
دنیا کے ظلم کا بیان ہو رہا ہے۔ معصوم عاشقوں کو بے قصور سزائیں دی جاتی ہیں اور سزا دینے والا بھی نامعلوم رہتا ہے۔ جب وہ اپنی آہ و بکا کو بلند کرتے ہیں ظلم کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو ان کی دادرسی کی بجائے ان پر تیر برسائے جاتے ہیں، یعنی ان پر مزید ظلم کیا جاتا ہے۔ نامعلوم سمت اور بے نام شخص ہی کے لیے کسی اور شاعر نے یوں کہا ہوا ہے.
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
شعر 4:
شب فراق میں مجھ کو سلانے آیا تھا
جگایا میں نے جو افسانہ گو کو خواب آیا
لغت:
فراق: جدائی
افسانہ گو: کہانی سنانے والا ، دادرسی کرنے والا، غم بانٹنے والا
تشریح
اس شعر میں شاعر نے جدائی کی رات کا ذکر کیا ہے کہ ایک جدائی والی رات جب میں اکیلا غمگین حالت میں تھا تو میرا دوست، میرا غم خوار مجھے سلانے کے لیے، میرا غم بانٹنے کے لیے آیا۔
اس کا ارادہ تھا کہ مجھے کوئی کہانی سنائے گا اور یوں میں سنتے سنتے سو جاؤں گا مگر عجیب بات ہے کہ خود کہانی کار سو گیا اور عاشق جاگتا رہا۔ عاشق نے اپنے یار( افسانہ گو) کو گہری نیند سے بیدار کیا اور اسے آنے کا مقصد یاد کرایا یعنی وہ آرام پہنچانے آئے تھے، الٹا تکلیف بڑھا گئے۔ میر تقی میر نے بھی ایک جگہ اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
سرگزشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا
سو گئے تم نہ سنی آہ کہانی اس کی
شعر5:
جو علم کو چاہے تو ہو اہل علم کا پیرو
کمر سے زلف کو اہل پیچ و تاب آیا
لغت:
پیرو: پیچھے چلنے والا
پیچ و تاب: لچک اور بل
تشریح
علم کا شوق ہو تو ضروری ہے کہ عالموں سے رجوع کیا جائے ایسے لوگ جو اپنے پاس بے پناہ علم کا خزانہ رکھتے ہوں پھر انھی کے نقش قدم پر چل کر ہی کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ (محبوب) کی کمر بہت باریک اور لچکدار ہے۔ بالوں نے بل کھانے اور لچکنے کے سب انداز اس کی کمر سے ہی سیکھے ہیں۔
دوسرا مصرع پہلے کے لیے مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسے کسی عالم سے علم لیا جاتا ہے۔ بعینہ محبوب کی زلفیں لچکنے اور بل کھانے کے سبق اس کی کمر سے لیتی ہیں۔ اس شعر میں کمر کی تعریف کی گئی ہے، جو نسوانی حسن میں ایک اہم عضو کا درجہ رکھتی ہے۔ محبوب کی کمر کی نازکی اور شاعر کی نازک خیالی کا حسین امتزاج اس شعر میں درج ہے۔
پروف ریڈنگ: وقار حسین
حواشی
موضوع۔آتش کی غزل
کتاب کا نام۔شعری اصناف،تعارف اور تفاہیم۔
کورس کوڈ۔9003
ص۔112تا114
مرتب کردہ۔Hafiza Maryam.
پروف ریڈنگ: وقار حسین