اقوام کی خودی اور اقبال

اقوام کی خودی

ہر شاعر ( اور ہر فلسفی بھی) اولین خطاب اپنے لوگوں ہی سے کرتا ہے اس کے ہاں مثالیں واقعات اور حوالے اپنی ہی تاریخ سے پھوٹتے ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔

موضوعات کی فہرست

سریج بہادر سپرو نے یہی کہا تھا کہ اقبال کے ہاں اسلامی استعارے و واقعات اور اسلامی تاریخ کے حوالے انہیں محدود نہیں کر دیتے کیونکہ اس کا خطاب مسمانوں سے ہوتا ہوا عالم انسانیت کے لیے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام کا تصور اجتہاد کلام اقبال کی روشنی میں | PDF

پیام مشرق کے دیباچے میں علامہ نے کہا :

"حقیقت یہ ہے کہ اقوام عالم کا باطنی اضطراب (جس کی اہمیت کا صحیح اندازہ ہم اس وقت اس وجہ سے نہیں لگا سکتے کہ خود اس اضطراب سے متاثر ہیں) ایک بہت بڑے روحانی اور تمدنی اضطراب کا پیش خیمہ ہے

یورپ کی جنگ عظیم ایک قیامت تھی جس نے پرانی دنیا کے نظام کو تقریبا ہر پہلو سے فنا کر دیا تھا اور اب تہذیب و تمدن کی خاکستر سے فطرت زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اقبال کے اردو کلام میں اصطلاحات کی تدوین | PDF

مشرق اور بالخصوص اسلامی مشرق نے صدیوں کی نیند کے بعد آنکھ کھولی ہے مگر اقوام مشرق کو یہ محسوس کر لینا چاہیے کہ زندگی اپنے خوابی میں کسی قسم کا انقلاب نہیں پیدا کر سکتی جب تک کہ اس کا وجود پہلے انسانوں کے ضمیر میں متشکل نہ ہو

فطرت کا یہ اٹل قانون جس کو قرآن نے ان الله لا يغر ما بقوم حتى يغرو ما بانفسهم كے سادہ اور بلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے۔

زندگی کے فردی اور اجتماعی پہلو پر حاوی ہے۔ اس وقت دنیا میں اور بالخصوص ممالک مشرق میں ماہر ایسی کوشش جس کا مقصد افراد و قوم کی نگاہ کو جغرافی حدود سے بالا تر کر کے ان میں ایک صحیح اور قوی انسانی سیرت کی تجدید یا تولید ہو قابل احترام ہے۔“

اقبال نے مشرق اور مغرب کو اسی عظیم اور صحیح انسانی سیرت کی تولید و تجدید کا پیغام دیا۔ اس انسانی سیرت کی تولید اور تجدید کی صورتیں دنیا نے امت مسلمہ کے ہاتھوں عظیم ترین سطح پر بھی دیکھیں اور اس امت کے ممکنات سے آج بھی یہ عمل بعید نہیں

کیونکہ اسلام نے کسی زوال یافتہ بنیاد پر انسانوں کو متحد نہیں کیا تھا وطن یا نسل یا ک اسلامی دعوت کی بنیاد نہیں بنتے لکہ انسانوں کا یقین اور فیصلہ ان کے مجتمع ہونے کی بنیاد بنتے ہیں اور یہ آج بھی سب سے جدید ترین نقطہ نظر ہے جو سوسائٹی کو محترم کر سکتا ہے۔

ملت کی مقصدیت مرکزیت اور اس کے مشترکہ قانون کی یک رنگی سب مل کر اس کو تو انا وحدت میں ڈھال دیتے ہیں ۔ اپنی مشتر کہ تاریخ اور عظیم روایات ان کی مشترکہ یا داشت بن جاتے ہیں یہ اجتماعی حافظہ ان کی پر افتخار تاریخ بن جاتا ہے۔

تصور خدا اور معنی دعا پر بنی خطبہ میں خدا کے شخصی وجود کی بات کی اللہ کی ذات انائے بسیط اور وجود مطلق ہے اقبال اللہ کو صاحب وجود کہہ کر زمان ومکاں سے ماورا قرار دیتے ہیں۔ اللہ ان کے مطابق ہر گھڑی نئے جلوے میں ہے۔ سو متحرک فعال لما یرید ہے۔

اللہ کی حرکت سے وہ اپنے فر دیا مرد مومن میں بھی حرکت کا لازمہ مسلسل دیکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حرکت سارے جہاں میں موجود ہے۔

فریب نظر ہے سکون و ثبات

تڑپتا ہے ہر ذرہ کائنات

گویا کہ اب بے خودی کی ایک اور منزل رو برو ہے یعنی جب فرد اور جماعت دونوں انائے مطلق یعنی ذات الہی سے ملاتی ہوتے ہیں اقبال دریا سے اس وصل میں اپنی قطرے والی حیثیت تم نہیں کرتے تخلق با خلاق اللہ کے مطابق اس قطرے نے اپنی تربیت خدائی راستے پر قدم اٹھاتے ہوئے کی اب:

افلاک سے آتے ہیں نالوں کے جواب آخر
کرتے ہیں خطاب اول اٹھتے ہیں حجاب آخر

نطشے نے کہا تھا خدا مر گیا ہے اقبال نے کہا :

اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں

تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے

ٹھہرتا نہیں کاروان وجود

کہ ہر لحظہ ہے تازہ شان وجود

وہ خود اپنی ذات کو بے کنار کرنے کے آرزو مند ہیں

تو ہے محیط بے کراں میں ہوں ذرا سی آبجو
یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر

یہاں وہ مقام آتا ہے جب کہا جائے کہ

يا ايها النفس المطمنة ارجعي إلى ربك راضية مرضياه فادخلى عبادی و دخلی جنتی (اے نفس مطمنہ لوٹ چل اپنے رب کی طرف راضی خوشی پس داخل ہو جا میرے بندوں میں اور داخل ہو میری جنت میں

(القرآن)

ڈاکٹر سید عابد حسین صاحب نے کیا عمدہ بات کی :

اس نے دیکھا کہ ایشیاء قوائے ذہنی کو ماؤف اور اس کے دست عمل کو شل کرنے والا نفی خودی اور نفی کا ئنات کا فلسفہ ہے۔ اب رہا یورپ تو اس میں شک نہیں کہ اس نے اثبات خودی کی اہمیت کو سمجھ کر میدان عمل میں قدم بڑھایا اور فرد و جماعت کے ربط سے اپنی زندگی کو استوار بنایا لیکن چونکہ اس ربط کی بنیاد کسی عالم گیر روحانی عقیدے پر نہیں بلکہ نسل و وطن کے تنگ مادی نظریے پر تھی۔

اس لیے بہت جلد اس کے اندر انتشار کی تو تمہیں نمودار ہو گئیں ۔ صحیح نصب العین اقبال کے نزدیک اسلام ہے جس نے ایشیاء کی روحانیت اور یورپ کی عملیت کو سمو کر دنیا کو دین فطرت کی راہ دکھائی مگر گردش زمانہ سے اسلام کے پیرو بھی وحدت الوجود کے عقیدے کی بدولت جو نفی خودی اور فنی کائنات کی تعلیم دیتا ہے۔

اسی غلفت اور جمود کا شکار ہو گئے جو ایشیاء کی قوتوں پر طاری تھا۔ اس کی سزا انہیں ی ملی کہ یورپ کی ذہنی اور سیاسی غلامی کی زنجیروں میں گرفتار ہو کر ذلت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان حقائق کو سمجھنے اور سمجھانے کے بعد اقبال اپنے جاں بخش اور جاں افزا نغمہ امید سے ملت اسلامی کو غفلت سے جگاتا ہے تا کہ وہ دنیا کو اس روحانی اور مادی ہلاکت سے جو آج چاروں طرف منڈلا رہی ہے نجات دے۔

اقبال کی نظر مشرق و مغرب میں ایک زبردست سیاسی اور اقتصادی انقلاب کے آثار دیکھتی ہے اور اسے صحیح راہ پر لگانے کے لیے وہ پہلے مسلمانوں کے اور پھر کل اقوام عالم کے قلوب میں ایک روحانی انقلاب پیدا کرنا چاہتا ہے۔

اپنے چھٹے خطبے الاجتہاد فی الاسلام میں اقبال اس امر پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ اسلامی ممالک میں جمہوریت کی طرف قدم اٹھ رہا ہے ۔ بلاد اسلامیہ میں جمہوری روح کا نشو و نما اور قانون ساز مجالس کا بتدریج قیام ایک بہت بڑا ترقی آفریں قدم ہے

پاکستان کہہ کر ہم نے جس خطہ ملک کو پکا را وہ اقبال کے خوابوں کی سرزمین ہے جسے وہ جمہوری خطوط پر استوار د یکھنا چاہتے تھے تا کہ اسے اسلام کے اقتصادی اور معاشرتی نظام کی تجربہ گاہ بناتے ہوئے اس میں عام سے عام آدمی کے مفاد کی نگہ داری بھی ہو اور اس کی حس قومی کی شراکت بھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ملک ( پاکستان ) کے ذریعے اسلام کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اس چھاپ سے نجات پا سکے جو عرب ملوکیت نے اس پر لگا رکھی ہے اور یوں یہ اپنے قانون اپنی تعلیم اور اپنی ثقافت کو تحریک دے کر انہیں اپنی اصل روح اور روح عصر سے قریب تر لا سکے گا“ گزشتہ پچاس سے زائد برسوں میں کسی حکومت یا حکمران طبقے نے پاکستان میں پاکستانی خودی کے ظہور
کی کوئی کوشش نہیں کی ۔

سو ہمیں پاکستان کے وجود کے وہ اقتصادی فائدے تو نظر آتے ہیں جو انفرادی طور پر حاکموں نے سمیٹے مگر اجتماعی طور پر نہ اسلام کی نمود نظر آتی ہے نہ پاکستانی فرد کی خودی کو مستحکم کرنے والے عناصر ۔ آنے والے دنوں میں ہمیں خود شناس افراد کو جنم دینے والا معاشرہ بر پا کرتا ہے۔ جس کے بغیر ہماری داستان بھی داستانوں میں نہ ہوگی ۔ علامہ نے کہا تھا۔

اسلام کے مطابق زندگی کی بنیاد از لی وابدی روحانی قدروں پر ہے۔ لیکن زندگی کی نشو و نمانت نئے قالبوں میں ہوتی ہے جو معاشرہ اس حقیقت کی بنیاد پر ابھرے گا۔

اس کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ زندگی کے نظم وضبط کی خاطر مستقل اور ابدی اصولوں (وحی) کی پیروی کرے لیکن اگر ان ابدی اصولوں کے متعلق یہ سمجھ لیا جائے کہ ان کے مفہوم میں پھیلاؤ کا امکان ہی نہیں تو اس سے زندگی جو اپنی فطرت میں متحرک واقع ہوئی ہے جامد ہو کر رہ جائے گا۔”

ہمارے معاشرے میں جاری ہوس زر نے مغرب پرستی کے ساتھ مل کر ایسی ہی صورت پیدا کر دی اب تک اتنا تو ہونا چاہیے تھا جیسا کسی نقاد نے کہا تھا۔

پاکستانی نہ صرف دوسرے ممالک کے لئے لا الہ الا اللہ کی بھر پور عملی تفسیر پیش کریں بلکہ لا اور الا کے درمیان سرگرداں سوشلسٹ معاشروں کے لیے بھی مشعل راہ بنیں ۔

حواشی

کتاب کا نام: علامہ اقبال کا،تصور خودی ،کوڈ: 5613،صفحہ: 32 تا 35،موضوع: اقوام کی خودی ،مرتب کردہ: ثمینہ شیخ

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں