مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

افسانہ پری کا جھوٹ

افسانہ پری کا جھوٹ

پر یوں کی شہزادی اپنا در بار لگائے بیٹھی تھی ۔ راگ رنگ ہو رہے تھے کہ دربان نے آکے خبر دی کہ ایک مسافر پری سیر کرنے√ آئی√ ہے۔ وہ اندر آنے کی اجازت مانگتی √ہے، شہزادی نئی پریوں کو دیکھ بہت خوش ہوئی تھی ۔ جھٹ آنے والی کو اندر بلا لیا۔
پری نے جھک کر سلام کیا اور شہزادی نے اپنے دائیں پر کا سرا اونچا کر کے اسے خیر و برکت کی دعا دی۔
شہزادی نے پری کو اپنے پاس ہی بائیں پہلو میں بٹھا لیا اور غلام پر یوں کو حکم دیا کہ جاؤ تمام بہشتی کھانے مہمان کے لئے تیار کرو۔

تھوڑی ہی دیر میں کھانے تیار ہو کر آگئے اور دعوت شروع ہو گئی۔

شہزادی نے پو چھا اے پری ! تم کون ہو اور آج کہاں سے آئی ہو؟

پری نے کہا میں تجربے کی رانی ہوں اور پاتال اور آسمان کی تمام ولا یتیں دیکھتی پھر رہی ہوں ۔ ابھی میں زمین کی سیر کر کے آئی تھی۔

کیا دیکھی ؟ شہزادی یہ بیان سن کر بڑی خوش ہوئی اور کہنے لگئی اے پری! مجھے بتاؤ کہ دنیا میں تم نے سب سے انوکھی بات کیا دیکھی √ پری نے بصد احترام (سے×) سر جھکا کر کہا۔ اے√ شہزادی میں√ نے دنیا میں بہت ساری عجیب عجیب باتیں دیکھی√ ہیں مگر سب سے انوکھی بات جو میں نے دیکھی وہ یہ تھی کہ دنیا والے جس چیز کو بہت چاؤ سے ڈھونڈتے ہیں، تھوڑے عرصے بعد ہی اس سے تنگ آجاتے ہیں اور کئی ایک تو رو نے بھی لگ جاتے ہیں لیکن مجھے زیادہ حیرانی اس لئے ہوئی کہ
اگر یہ شے ان کے ہاتھ سے نکل جائے تو پھر بھی وہ بنتے نہیں بلکہ روتے ہیں۔ انسان کا سبھاؤ بدلنے والا ہے۔

شہزادی√ یہ سن کر ہنس پڑی اور کہنے لگی تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین والوں کا چاؤ بس اس وقت تک ہی ہوتا ہے جس وقت تک وہ کسی چیز کو حاصل نہیں کر لیتے اور حاصل کرنے کے بعد تنگ آجاتے ہیں اور پھر جب کھو جائے تو روتے رہتے ہیں۔

حب شہزادی نے اپنی پریوں کی جانب دھیان کرتے ہوئے کہا کیوں یہ ہے کہ نہیں ؟ ٹھیک√ نہیں یہ√ بات ؟

ساری پریوں نے ہنستے ہنستے سر بلائے اور (کہلائے اور ×) کہا ” حضور ٹھیک فرما رہی ہیں۔

شہزادی بھی نہیں رہی تھی ۔ تھوڑی دیر بعد شہزادی کہنے لگی :

اے پری زاد یو ! میرا ارادہ ہے کہ ہم دنیا والوں کی یہ بات آپ چل کر دیکھیں ۔ سو یوں کرو کہ کچھ پریاں ان ساری باتوں کا روپ دھار لیں جو دنیا والوں کو کسی نہ کسی طرح اچھی لگتی ہیں اور زمین پر اتر جائیں ۔ دیکھو کہ دنیا والے کیا کرتے ہیں۔ اتنا وقت دنیا والوں کے پاس رہو جس وقت تک وہ تمہیں حاصل نہیں کر لیتے ۔ جس وقت وہ حاصل کر لیں اور جب یہ سمجھ رہے ہوں کہ تم ان کے قابو میں ہو تو واپس آجاؤ، ہم دنیا والوں کا تماشا دیکھنا چاہتے ہیں۔

ایک پری نے کہا حضور سنا ہے دنیا میں عشق سے بچنا بہت مشکل ہے۔ اگر وہاں کسی کا دل لگ گیا تو ؟ ساری پریاں ایک دوسرے کو چھیٹر چھیڑ کر ہنسنے√ لگیں مگر شہزادی نے بڑی سمجھداری سے کہا پہلے تو مشکل ہے کہ ایک پری کا دل انسان کے ساتھ لگے اور اگر لگ بھی جائے تو انسان کا تغیر پسند مزاج ایک پری کو بھی اس کے ساتھ نہیں رہنے دے گا مگر ہماری طرف سے اجازت ہے کہ اگر کسی پری کا جی چاہے تو بے شک وہیں رہے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

شہزادی نے فورا ایک سحر پھونکا اور ساری پریوں نے روپ بدل لئے ۔ تمام زمین پر اتر آئیں ۔

دنیا میں پریاں خوبصورت، (ہائی×) ، رسیلی لڑکیوں کا بھیس بدل کر آئیں۔ دنیا والوں نے انہیں دیکھا تو بھنوروں کی طرح ان کے گرد پھرنے لگے۔ سارے مست تھے ، سارے ان کی خاطر زندگی داؤ پر لگانے کے لئے تیار تھے، وہ جہاں جاتیں وہ ان پر صدقے قربان ہو جاتے ، دن رات انہی کے خوابوں اور انہی کے خیالوں میں رہتے ۔ کھانا پینا سب انہی پروار بیٹھے۔ دیوانوں کی طرح انہیں حاصل کرنے کا چاؤ ہر وقت ان کے دلوں کو خون کرتا رہتا تھا۔

پریاں یہ سب کچھ دیکھ کر دل ہی دل میں ہنستیں ۔ پہلے پہل تو ساری کی ساری پریاں اکٹھی رہتی تھیں مگر آہستہ آہستہ انہوں نے ایک ایک آدمی چن لیا۔ کبھی کبھی اس پر مہر کی نظر کر دینا کبھی کبھی اسے پیار سے جواب دے دینا اور کبھی کبھی اسے پاس بلا کر کوئی بات کر لینا۔

سارے آدمی ایک پری کے پیچھے ہو گئے۔ پہلے وہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے ۔ اب الگ الگ رہتے اور کئی بار جب ایک پری اور آدمی کسی دوسری پری اور آدمی سے ملتے تو آپس میں ایک دوسری کو دیکھ کر ٹھٹھک جاتیں مگر آدمی اکثر ایک دوسرے کو گھورتے ، ایک دوبار تو دو تین آدمیوں میں لڑائی بھی ہوئی لیکن پریاں ان کے سامنے تو اپنے اپنے آدمی کا ساتھ ہی دیتیں مگر ا ایک طرف ہو کر کہتیں: یہ آدمی بھی کیا ہیں ، کوئی پاگل√ لگتے ہیں۔

کتنا عرصہ یہی ہوتا رہا۔ پریاں دلا سے دیتی رہیں مگر کسی کے ساتھ شادی نہ کی اور بے چارے آدمی ان کے لئے جلتے ، مرتے اور کڑھتے رہے۔ پریاں ان آدمیوں کو اپنی ہی آگ میں جلتا دیکھ کر خوش ہوتیں ۔ آدمی راتوں کو ان کے نام لے لے کر بڑ بڑاتے اور یہ ہنستیں ، آدمی چھپ چھپ کر روتے اور یہ√ پیدل چل کر گیت گاتیں√ ۔

پتہ√ نہیں کتنا عرصہ یہی حال رہا مگر ایک دن√ پریوں نے مشورہ کیا کہ اب√ اس کھیل کو ختم کر دیں ۔ آدمیوں نے اس بات کا بہت زیادہ ثبوت دے دیا ہے کہ جس چیز کو وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کی خاطر اپنی جان ہتھیلی پرلۓ√پھرتے ہیں۔ یار ،دوست ، ماں ، باپ، بہن، بھائی بلکہ ہر شے وہ اپنی خواہش کی دیوی کے قدموں پر قربان کر دیتے ہیں ۔ آؤ اب ہم شہزادی کی دوسری بات کے لئے آگے قدم بڑھائیں اور انسان کے سبھاؤ کا دوسرا رنگ بھی دیکھیں۔

سارا√ نقشہ بدل گیا ۔ آدمیوں نے اپنی اپنی پریاں حاصل کر لیں ۔

بیاہ ہو گئے تو سارے اپنے اپنے گھروں میں بسنے لگے۔

کچھ دیر تو آدمی پہلے کی طرح ہی رہے مگر رفتہ رفتہ چراغ سحری کی طرح نئے سورج کے مقابل ان کی لو جاتی رہی ۔ نہ وہ پرانا چاؤ ربانہ وہ پہلی کشش، نہ وہ پہلی سی گفتگو رہی نہ وہ پہلی باتیں ۔ آہستہ آہستہ آدمی اپنی اپنی سندریوں سے یا تو تنگ آگئے یا پھر ان کی حد سے زیادہ بے قدری کرنے لگے۔ کئی تو√ ان سندریوں کے ہوتے ہوئے دوسریوں کے پیچھے لگ√ گئے ۔ پریاں یہ سارا تماشا دیکھتیں اور کہتیں کہ مسافر پری نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ انسان (بیچ بیچ×) نہ ہی ایک چیز سے خوش ہوتے ہیں اور نہ ہی ایک چیز سے ان کے جی بھرتے ہیں۔ مسافر پری نے جو کچھ دیکھا، ٹھیک دیکھا ۔ اب پر یوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ دنیا والوں کا دامن چھوڑیں اور چل کر شہزادی کو سارا حال سنائیں۔

پر یاں اپنے اپنے آدمی کو چھوڑ آئیں اور جب آدھے آسمان میں جا کر دیکھا کی نیچے ان کے آدمی رونے پیٹنے میں مصروف ہیں تو وہ ہنس پڑیں۔ مسافر پری کی بات انہیں یاد آگئی۔

پریاں ایک بار پھر شہزادی کے دربار میں آگئیں ۔ شہزادی نے ان کی بہت آؤ بھگت کی ، سب کو ملایا اور کہا: ” آؤ پر یوں ! تم نے دنیا میں کیا دیکھا ؟؟؟

پہلی پری اٹھی اور کہنے لگی حضور دنیا میں دولت بن کر گئی تھی۔ میرا آدمی پہلے پہل میرے لئے دن رات مرتا رہا، اپنا کھانا پینا میرے لئے قربان کر دیا۔ یہاں تک کہ میری خاطر اپنے سگے بھائی بہنوں کے گلے کاٹنے کو تیار ہو گیا۔ مگر جب اس نے مجھے حاصل کر لیا تو وہ بے قدری کرنے لگا۔ مجھے اجاڑ دیا اور بر باد کیا۔ یوں لگتا تھا کہ اس کے نزدیک میری کوئی قدرو قیمت نہیں ، میری کوئی عزت اور احترام نہیں ۔ مگر اسے شہزادی جب میں اس آدمی کو چھوڑ آئی تو جو مسافر پری نے کہا تھا بالکل ٹھیک ثابت ہوا، میرا آدمی رونے پیٹنے لگا۔

شہزادی نے دوسری پری کو بلایا اور اس نے کہا ” ” شہزادی ! میں دنیا میں حکومت بن کر گئی تھی اور میں نے وہی دیکھا جو پہلی پری نے بتایا ہے ۔

اسی طرح ساری پریاں اٹھیں جن میں سے کوئی طاقت کوئی جوانی ، کوئی کام، کوئی حرص، کوئی حسرت اور کوئی اسی طرح کے دیگر روپ دھار کر گئی تھی ۔ ساری پریوں نے پہلی پری کی کہانی دہرائی اور ساری پریوں نے مسافر پری کے تجربے کی تعریف کی۔

شہزادی اپنی پر یوں پر بہت خوش تھی۔ انھیں بلا کر پاس بٹھا یا مگر تھوڑی دیر بعد شہزادی کہنے لگی : ہاں مگر تم میں سے ایک پری واپس نہیں آئی ۔ وہ کہاں ہے ؟

پہلی پریوں نے اس طرف دھیان دیا۔ اپنے آپ میں کچھ شرمندہ ہو ئیں کہ انھوں نے پہلے کیوں خیال نہ کیا پر شہزادی نے کیا کوئی ہرج نہیں۔ تم میں سے کوئی ابھی جائے اور مجھے اس کی خبر لا کر دے ۔

ایک√ پری آنکھ جھپکتے√ میں اڑ کر گئی ۔ ساری پریاں دکھ کے ساتھ اس کے آنے کے انتظار میں تھیں ۔ دربار بالکل خاموش تھا ۔ شہزادی کچھ سوچ رہی تھی ۔ ذراسی√ دیر میں واپس آگئی ۔ وہ اکیلی تھی، اس کے چہرے پر اداسی تھی ، ساری پریاں اس کے منہ کی طرف دیکھنے لگیں ۔ وہ شہزادی کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوگئی ۔ شہزادی نے پوچھا: ” تم کیوں اکیلی آئی ہو؟ پری نے جواب دیا:
حضور میں نے اسے بہت کہا پر اس نے انکار کر دیا۔ وہ دنیا میں محبت بن کر گئی تھی اور ایک شاعر نے اسے پسند کر لیا ۔ جو دن رات اس کی تعریف میں گیت لکھتا رہتا اور لوگ یہ گیت گاتے اور روتے اور ہنستے رہتے۔ میں نے اسے کتنا ہی سمجھایا پر اس نے ایک نہ سنی کہتی تھی کہ مسافر پری نے جھوٹ بولا ہے۔ یہ دنیا والے سارے ایک جیسے نہیں۔
میں واپس نہیں جا سکتی ، دنیا کو میری بہت ضرورت ہے ۔
شہزادی نے جب یہ بات سنی تو پہلے سہم گئی پھر اپنے آپ کو سنبھال کر کہا:ٹھیک، وہ تھی ہی اس طرح کی۔ اگر وہ دنیا میں محبت بن کر گئی ہے تو مجھے کوئی فکر نہیں۔ میں اس کے وہاں رہنے پر خوش ہوں ۔ مجھے کوئی افسوس نہیں ۔
در بارختم ہو گیا ، شہزادی اور پریاں اپنی اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑی ہوئیں ۔ اٹھتے ہوئے شہزادی نے ایک بار مسافر پری کی طرف دیکھا، اس نے شرمندگی سے سر جھکا رکھا تھا۔

پروف ریڈر: محمد عرفان ہاشمی

حواشی

کتاب کا نام ۔۔۔۔پاکستانی زبانوں کا ادب اا،کوڈ۔۔۔۔۔5618،صفحہ نمبر ۔۔۔284سے281،موضوع ۔۔۔افسانہ: پری کا جھوٹ
مرتب کردہ ۔۔۔اقصئ

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں