مفت اردو ادب وٹسپ چینل

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

سب رس کا تعارف اور تنقیدی جائزہ


"سب رس” از ملا وجہی: اردو نثر کی پہلی تمثیلی داستان کا جامع تجزیہ

"سب رس” اردو ادب کے اس ابتدائی دور کی یادگار ہے جب نثر اپنی شکل و صورت ترتیب دے رہی تھی۔ ملا وجہی کی یہ تمثیلی داستان نہ صرف دکنی ادب کا شاہکار ہے بلکہ اردو نثر کے ارتقاء میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی ادبی، لسانی اور فکری اہمیت کو سمجھنے کے لیے ہمارے گروپ کے اراکین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں۔

سب رس کا تعارف اور تنقیدی جائزہ

تعارف

"سب رس” ملا وجہی کی 1635ء میں تحریر کردہ پہلی تمثیلی اردو نثر ہے، جو دکنی زبان اور قدیم قصہ گوئی کا اہم نمونہ سمجھی جاتی ہے۔ یہ تمثیل "حسن و دل” سے ماخوذ ہے اور عشقِ حقیقی، نفس کی پاکیزگی اور روحانی سفر کو علامتی کرداروں٫دل، حسن، عقل اور غیر٫کے ذریعے بیان کرتی ہے۔

تنقیدی جائزہ

تنقیدی طور پر یہ اردو نثر کی ابتدائی بنیادوں میں سے ہے، جس کی زبان سادہ، رواں اور دکنی محاورات سے بھرپور ہے۔ اس کی تمثیلی ساخت انسان کی باطنی جدوجہد کو پیش کرتی ہے، اور اگرچہ اس میں بعد کی داستانوں جیسی پیچیدگی نہیں، لیکن لسانی و فکری اہمیت کے باعث اسے اردو ادب کا بنیادی اور تاریخی متن مانا جاتا ہے۔

اس بارے میں ڈاکٹر جمیل جالبی یوں رقم کرتے ہیں کہ؛
"سب رس اردو نثر کی پہلی مکمل اور فنی طور پر منظم کتاب ہے، جس نے اردو داستان کی بنیاد فراہم کی اور دکنی زبان کے خالص رنگ کو محفوظ رکھا۔” (تاریخِ ادبِ اردو، جلد اول)

(𝐒𝐇𝐄𝐄𝐌𝐀 𝐈𝐍𝐀𝐘𝐀𝐓)
(𝐌𝐏𝐡𝐢𝐥 𝐔𝐑𝐃𝐔)

اسلوب اور کردار نگاری

سب رس ملا وجہی کی ایک تمثیلی داستان ہے جو 1635ء میں لکھی گئی۔ اس میں انھوں نے عقل، عشق، نظر جیسے مجرد کرداروں کے ذریعے واقعات کو بیان کیا ہے۔ یہ اردو میں پہلی نثری تمثیلی داستان ہے۔ اس کا اسلوب عمدہ ہے۔ اس میں جو عبارت ہے وہ کچھ مقفیٰ اور مسجع ہے۔ اس میں انھوں نے کسی جگہ پر محاوروں کو بھی استعمال کیا ہے۔

(ایک رکن کی رائے)

سب رس: اسلوب اور پسِ پردہ حقائق

’’سب رس‘‘ کے بارے میں ایک کم معروف حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب ایک داستان سے بڑھ کر دکنی دربار کی داخلی ثقافت اور وہاں کے فکری ذوق کی جھلک اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے۔ ملا وجہی نے اسے محمد قلی قطب شاہ کے حکم پر نہیں بلکہ اُس ادبی فضا سے متاثر ہو کر لکھا جو گولکنڈہ کے محلوں میں موسیقی، رقص، اور فارسی و دکنی شعری مجلسوں سے بنتی تھی۔

اس کتاب کے کئی مقامات پر رومانوی کیفیت کے پیچھے ایک نہایت باریک طنز موجود ہے۔ خصوصاً وہ طنز جو درباری زندگی کی مصنوعی شائستگی پر خاموش اشارہ کرتا ہے۔ ایک اور کم دیکھی جانے والی بات یہ ہے کہ ’’سب رس‘‘ میں عورت کا کردار بظاہر لطیف اور نرم دکھائی دیتا ہے مگر اندرونی سطح پر وہ داستان کے بہاؤ کو قابو میں رکھنے والی اصل قوت ہے؛

یعنی واقعات کی سمت اکثر عورت کی خواہش، فیصلہ یا خاموش رویے سے بدلتی ہے، جو اُس دور کی داستانوں میں ایک غیر معمولی بات تھی۔ اس کے علاوہ ’’سب رس‘‘ میں ایسی دکنی ترکیبیں چھپی ہوئی ہیں جو دوسرے کسی متن میں نہیں ملتیں، جیسے بعض محاورے جو اصل میں مقامی قبائلی بولیوں سے آئے تھے اور صرف گولکنڈہ کے اندر سمجھے جاتے تھے۔۔۔۔ یہ الفاظ آج کے ادب میں تقریباً معدوم ہو چکے ہیں۔

مزید یہ کہ ملا وجہی نے کہیں صاف طور پر نہیں بتایا، مگر کتاب کے اندر ایک مسلسل اشارہ ملتا ہے کہ انہوں نے اپنے بچپن میں سنی ہوئی کچھ دیسی کہانیوں کو بھی اس داستان کے دھاگے میں ملا دیا تھا؛ اسی لیے ’’سب رس‘‘ کے بعض حصوں میں حیرت کا رنگ درباری نہیں، بلکہ بالکل دیہی اور قدیم سا محسوس ہوتا ہے، جیسے کسی پرانی لوک کہانی کی دھند ابھی تک متن کے کناروں میں ٹھہری ہوئی ہو۔

امان بشیر


معاونین

  • SHEEMA INAYAT (MPhil URDU)
  • امان بشیر
  • ایک رکن

Disclaimer

The content of this blog post is a compilation of messages from a discussion held in a private WhatsApp group. The text has been reproduced verbatim to preserve the original contributions of the members

The opinions expressed belong to the individual contributors and are presented here as a collective analysis of the literary work "Sab Ras

Abstract

This article presents a comprehensive analysis of "Sab Ras,” the first allegorical prose tale in the Urdu language, written by Mulla Wajhi in 1635. Sourced from a collaborative group discussion, the post delves into the book’s critical appraisal, its allegorical characters, unique stylistic elements, and lesser-known facts about its cultural and historical context. Featuring insights from multiple contributors, including literary scholar Sheema Inayat and writer Aman Bashir, this piece highlights the significance of "Sab Ras” as a foundational text in Urdu literature that captures the essence of Deccani culture and language.

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں