آمنہ ابوالحسن کی فکشن نگاری | Amna Abul Hasan ki fiction nigari
آمنہ ابوالحسن کی فکشن نگاری
(۱۹۴۱-۲۰۰۵)
صغرا مہدی کی خواتین فکشن نگاروں میں ایک اہم نام آمنہ ابوالحسن کا بھی ہے۔ یہ 10 مئی ۱۹۴۱ میں حیدر آباد کے ایک تعلیم یافتہ سادات گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ابو الحسن سید علی نامور قانون اور سیاست داں تھے۔ ان کی والدہ کا انتقال بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔ انھوں نے اپنے والد کے زیر سایہ تعلیم و تربیت پائی۔
اپنے تعلیم یافتہ والد کے زیر سایہ پرورش پانے سے بچپن سے ہی ان میں لکھنے پڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا۔ ان کی پہلی کہانی رسالہ ساقی “ میں شائع ہوئی ۔ جس سے باقاعدہ ان کی ادبی زندگی کا آغاز ہوا۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”کہانی“ نام سے ۱۹۶۵ میں منظر عام پر آیا۔ اس میں کل دس افسانے شامل ہیں ۔
آمنه ابوالحسن ۱۹۶۵ میں دہلی آگئیں ۔ دہلی میں قیام کے بعد ہی ان کی تخلیقات شائع ہوئیں۔ ان کی شادی دوران تعلیم ہی جناب مصطفی علی اکبر سے ہوئی جو آل انڈیا ریڈیو نیوز دہلی میں تھے۔ آمنہ ابوالحسن کی آٹھ کتابیں منظر عام پر آئیں ۔ ان میں دو افسانوی مجموعے اور چھ ناول شامل ہیں۔ افسانوی مجموعے میں ” کہانی (۱۹۶۵) اور بائی فوکل (۱۹۹۰) ہے۔ جب کہ ناول میں سیاہ سرخ سفید (۱۹۶۸)، ” تم کون ہو (۱۹۷۴) ” واپسی“ (۱۹۸۱) آواز (۱۹۸۵) پلس مائی نس“ (۱۹۸۷) اور یادش بخیر (۱۹۹۴) ہے۔
آمنہ ابوالحسن کے افسانوی مجموعے اب مشکل سے ملتے ہیں مگر ان کے افسانے ادھر اُدھر بکھری صورت میں مل جاتے ہیں۔ ان میں تجدید ، میری میا، خالق ، سچائی کا بوجھ اور دل ، کہانی اندھیرے کا خوف ، دل، پتھر کی قیمت روشنی آشیرواد ، سرگوشی ” کا تب تقدیر ، دریچہ ” معذرت ، میرا ناچی رئے،
بر مزار ما، اندھیرا روشنی ، ٹرمین، گیت ، منظر ،نام بر جو ،تین لڑکیاں“ منزلیں دار کی چاپ ،ایک بوند کی عطر، آوا، ننکو ،لیبل ایکس وائی زید، وہ عورت، بائی فوکل راسته، موتی، شیشے کی دیوار، خوشبو کی منزل، گہن، پر تو، پہچان ، عفریت ، طوائف ، کرسی ،حاصل حیات، اور پہلا پھول وغیرہ ہیں۔
آمنہ ابوالحسن نے اپنے افسانوں میں اپنی مصوری اور موسیقی سے دلچسپی کا ثبوت دیتے ہوئے کئی افسانے میں اس کی خوبصورت عکاسی کی ہے ۔ اسی طرح کا ایک افسانہ ” تجدید ہے۔ اس کا مرکزی کردار اسٹیشن ماسٹر شیام ہے۔ جب وہ اس قصے میں آتا ہے تو پچیس سال کا تو انا نو جوان ہوتا ہے۔ شیام کو مصوری کا شوق ہوتا ہے یہ ڈیوٹی سے فارغ ہو کر تصویریں بنایا کرتا اور دیواروں پر آویزاں کرتا ہے۔
ایک روز ایک لڑکی اپنے گھر سے بھاگ کر اسٹیشن پر آجاتی ہے۔ شیام اس کو پناہ دیتا ہے اور اس کی تصویر بناتا ہے پھر وہ لڑکی چلی جاتی ہے۔ شیام اس کا انتظار کرتا رہتا ہے مگر وہ نہیں آتی ۔ ۲۵ سال بعد وہ اپنی بیٹی کے ساتھ اسٹیشن پر آتی ہے، اس کی بیٹی وہاں اپنی تصویر آویزاں دیکھ کر کس قدر حیران رہ جاتی ہے۔
اس کی ماں بتاتی ہے کہ یہ تمہاری نہیں میری جوانی کی تصویر ہے ۔ تب اس عورت کو سارے واقعات یاد آ جاتے ہیں۔ پھر وہ کہتی ہے معلوم نہیں وہ اسٹیشن ماسٹر کہاں ہے۔ ان دونوں ماں بیٹی کی باتیں شیام خاموشی سے سنتا ہے تبھی اسٹیشن پر دھما کہ ہوتا ہے کیوں کہ شیام نے ایک ہی پڑی پر دوٹرینوں کو آنے کی اجازت دے دی تھی۔
آمنہ ابوالحسن کے یہاں رومانیت کا غلبہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ان کو مختلف رنگوں اور قدرتی مناظر سے حد درجہ دلچسپی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں کے کرداروں کا محبوب مشغلہ عموماً مصوری اور موسیقی ہوتا ہے ۔ اس طرح کے افسانے ” معذرت“ اور ” میرا نا چی رئے ہے۔ دونوں میں وہی موسیقی اور مصوری عورت کے حسن کے دیوانوں کو مرکز میں رکھ کر کہانی بیان کی گئی ہے۔
افسانہ معذرت سات صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں چند سہیلیاں سوفیا ، رضیہ، ناہید ،ممتاز سلمی اور مینا جامن توڑنے کے لیے جامن کے گرد اکٹھا ہوتی ہیں۔ محمود نامی ایک نوجوان کی مینا سے چھیڑ چھاڑ ہوتی ہے۔ محمود مینا کی ساری سہیلیوں کی تصویر میں بناتا ہے اور گھما پھرا کر لاتا ہے۔
آخر میں محمود کی شادی مینا کی بجائے سونیا سے ہو جاتی ہے۔ اس شادی کی خبر اخبار کے ذریعے جب دیگر سہیلیوں کو معلوم ہوتی ہے تو ساری سہیلیاں مینا کا غم دور کرنے جاتی ہیں تو مینا حسب معمول چوئنگم چباتے ہوئے کہتی ہے ۔ ” معذرت کی مطلق ضرورت نہیں، ۔ افسانہ میرا نا چی رے عشق و محبت میں تڑپنے والوں کی داستان ہے
آمنه ابوالحسن نے اپنے افسانوں میں نچلے طبقے کے مسائل کی عکاسی بھی کی ہے۔ اس موضوع پر ان کا افسانہ ”میری میا“ ہے۔ اس میں ایک پھیری والے ونا ایک کی کہانی بیان کی گئی ہے جو اپنی دن بھر کی کمائی دوستوں کے ساتھ سنیما د یکھنے اور شراب پینے میں ضائع کر دیتا ہے۔
اس کی ماں ریشمی کو ہمیشہ اس سے پیسے نہ ملنے کی شکایت رہتی ہے۔ ایک دفعہ ونا ایک اپنی ماں کو کچھ پیسے دیتا ہے۔ اس کی ماں ایک لڑکی دیکھ کر دنا ایک کی شادی طے کر دیتی ہے۔
شادی کے جشن کے دن ہی داروغہ ایک کانسٹبل کے ساتھ آکرونا ایک کو گرفتار کر لیتا ہے۔ سارے مہمان حیران و پریشان ہو جاتے ہیں تب ونا یک فخر سے کہتا ہے کہ اس نے اپنی بیوی شکنتلا کے دشمن کا قتل کیا ہے جو اس پر الزام تراشیاں کیا کرتا تھا۔ ایسے حالات میں ایک ماں کی بے لوث محبت دیکھی جاسکتی ہے جو اولاد کی جان بچانے کے لیے بڑی سے بڑی تکلیف بھی اٹھا سکتی ہے:
ریشی نے آگے بڑھ کر جمعدار کی کلائی میں اپنے دانت گڑو دیئے۔ لوگوں نے بمشکل اسے الگ کیا۔ جمعدار نے اس کلائی سے کس کر ایک جھانپر ریشمی کے گال پر رسید کیا۔
اس افسانے میں حقیقی چیزوں کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے ۔ آمنہ ابوالحسن کا ایک افسانہ ” خالق خالص فلمی انداز کا افسانہ ہے۔ اس میں زرینہ کی زندگی میں تین مرد آتے ہیں اور زرینہ کا دل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رفعت نامی مرد زرینہ کا زندگی بھر ساتھ دینے کا وعدہ کر کے شہر سے باہر چلا جاتا ہے۔ بہت عرصے بعد جب وہ واپس آتا ہے تو زرینہ رفعت کو پہچاننے سے انکار کر دیتی ہے مگر رفعت زرینہ کی بیٹی کی طرف ہاتھ پھیلا کر میری بچی کہتے ہوئے گلے لگا لیتا ہے۔
آمنہ ابوالحسن نے شہری زندگی کے علاوہ اپنے افسانوں میں دیہاتی زندگی کی بھی بھر پور عکاسی کی ہے۔ اس طرح کے ان کے افسانوں میں ” آوا بر جو سبیل “ اور ” میری میا“ کا شمار ہوتا ہے۔ آمنہ ابوالحسن کے افسانے بیانیہ تکنیک میں پیش کیے گئے ہیں۔ اس تکنیک کے ذریعہ وہ قاری سے بلا واسطہ مخاطب ہوتی ہیں یا پھر کسی تیسرے فرد کے ذریعے کرداروں کا تعارف پیش کر کے کہانی کا سماں باندھ دیتی ہیں۔
اسی طرح کا افسانہ لحاف“ ہے جس میں انھوں نے بڑی چابکدستی سے ایک عورت کے جذبات کو بیان کیا ہے کہ اسے اپنی شادی کے سامان سے کس قدر جذباتی لگاؤ ہوتا ہے۔ اس کیفیت کو بیا نیہ انداز میں اس طرح پیش کیا گیا ہے: وہ اس کے بیاہ کا لحاف تھا جس میں اس کی سہاگ رات محفوظ تھی۔ تشکیل کی جیتی جاگتی مردانہ خوشبو اب بھی کہیں نہ کہیں دبی سانسیں لے رہی تھی۔ خود اس کی اپنی بھر پور نسائیت کا افتخار شکیل سے افشاں کا حاصل کرنا اور افشاں کے بچپن کی معصوم بھینی مہک اور مٹھاس کے
افسانہ لحاف صرف تین کرداروں کے ارد گرد گھومتا نظر آتا ہے۔ مہر شکیل اور ان کی بیٹی افشاں ۔ مہر ایک جذباتی عورت ہوتی ہے۔ اپنے جہیز میں ملے ہوئے لحاف سے اسے بہت انسیت ہوتی ہے۔ جب اس کی بچی پیدا ہوتی ہے اور لحاف بدرنگ ہو جاتا ہے تب بھی وہ اسے جدا نہیں کرنا چاہتی اور اسے بڑے سلیقے سے دھوپ دکھاتی ہے۔
جب اس کی بیٹی افشاں بڑی ہو جاتی ہے تو اپنے شوہر کے اصرار پر نیا لطاف خرید تو لاتی ہے مگر نئے لحاف کو خریدتے وقت اس کو اپنے جہیز کے لحاف پر بڑا ترس آتا ہے اور رات کے پہر وہ نئے لحاف کو اتار کر پرانا لحاف اوڑھ لیتی ہے۔ اس افسانے میں نسائیت کا شدید احساس ہوتا ہے کہ عورت اپنی کچھ پرانی چیزوں سے متعلق کس قدر جذباتی ہوتی ہے۔
آمنہ ابوالحسن کے افسانوں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے بعض افسانوں میں تکنیک پر کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے۔ بس واقعات کو بہت سادہ اور سپاٹ صورت میں پیش کر دیا ہے ۔ اکثر کرداروں کو خیالی طور پر اجاگر کیا ہے۔ سچائی کا بوجھ افسانے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ سلمی اور جاوید جو اس کہانی کے ہیرو ہیروئن کے طور پر سامنے آتے ہیں جن کی صرف دو ملاقاتیں ہوتی ہیں، اس ملاقات میں دونوں ایک دوسرے سے محبت کر بیٹھتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے محبت کا اظہار نہیں کر پاتے اور ان کی شادی دوسری جگہ ہو جاتی ہے۔
دونوں ہی اپنے شریک سفر کے ساتھ خوش نہیں رہ پاتے کیوں کہ اب انھیں اپنی محبت کی شدت کا احساس ہوتا ہے۔ جاوید سلمی کو گھمانے لے جاتا ہے اور اس کی بانہوں میں اسے سکون محسوس ہوتا ہے۔ کہانی میں اس وجہ سے جان نظر نہیں آتی کہ محض ایک دو ملاقات میں اگر ان دونوں کو محبت ہو جاتی ہے تو پھر دوسری جگہ شادی کرنے پر دونوں آمادہ کیوں ہوتے ہیں۔ کہانی میں سلمی کا کردار ایسا ہے جس کا شوہر اس سے محبت کرتا ہے مگر وہ جاوید کے خیال میں کھوئی رہتی ہے جس کو وہ اچھی طرح سے جانتی بھی نہیں ہے۔
اسی طرح انہوں نے ایک افسانے ” چاپ“ کی کہانی میں اخبار کی خبر سے پیدا ہونے والے تاثرات کو افسانہ بنا دیا۔ اس میں ایک اخبار کی خبر پڑھ کر ماں باپ تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ کہیں ان کے بچے بھی ان کے ساتھ ایسا سلوک نہ کریں۔ آمنہ ابو الحسن اس طرح کے معمولی معمولی واقعات کو افسانے کی چادر اوڑھا دیتی ہیں۔ ان کی بعض فنی خامیوں سے قطع نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے افسانے اردو کے افسانوی ادب میں اپنی مخصوص پہچان رکھتے ہیں۔
آمنہ ابوالحسن کے چھ ناول منظر عام پر آئے ہیں۔ ان میں سیاہ سرخ سفید پلس مائنس واپسی تم کون آواز“ اور ” یادش بخیر شامل ہیں۔ ان ناولوں میں دہلی اور حیدرآباد کے پس منظر میں کہانی بیان کی گئی ہے جس میں عورت کی نفسیات اور جنسی مسائل کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سیاہ سرخ سفید ان کا پہلا ناول ہے جو ۱۹۶۸ میں شائع ہوا۔ یہ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ سیاہ ہے، جس میں انھوں نے ناول کی ہیروئن کے جذبات اس کی محرومی اور شوق کو پیش کیا ہے۔ دوسرا حصہ سرخ ہے جس میں ہیروئن کی شادی شدہ زندگی اور جنسی خواہشات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اسی حصہ میں اس کی موت ہو جاتی ہے۔ تیسرا حصہ سفید ہیروئن کی یادوں پر مشتمل ہے۔ ناول کا اہم کردار نشاط ہے۔ اس کی ماں کی بچپن میں موت ہو جاتی ہے جب اس کی شادی فرخ سے ہوتی ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی محرومی دور ہو جائے گی ۔
فرخ ایک مصروف ترین انسان ہوتا ہے۔ شادی کے بعد یہ نشاط کو ہر طرح کا عیش و آرام دیتا ہے مگر اپنی مصروفیت کی وجہ سے وہ نشاط کو وقت نہیں دے پاتا۔ یہی مصروفیت دونوں کی زندگی میں خلا پیدا کر دیتی ہے۔ فرخ اپنے دوست الطاف سے نشاط کی ملاقات کرواتا ہے تا کہ نشاط اپنی مصوری کے فن کو ابھار سکے۔
الطاف مصوری سکھانے کے لیے ان کے گھر آنے لگتا ہے۔ آہستہ آہستہ نشاط اور الطاف ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیں اور یہی قربت دونوں میں محبت پیا نے پیدا کر دیتی ہے اور نشاط کو لگتا ہے جیسے اسے زندگی کی ہر خوشی مل گئی ہو۔ فرخ کی غیر موجودگی میں نشاط اور الطاف باہر گھومنے جاتے ہیں لیکن یہ راز فرخ سے زیادہ دن پوشیدہ نہیں رہ پاتا۔ ایک دن فرخ پہاڑی پر دونوں کو ساتھ دیکھ لیتا ہے اور غصے سے بے قابو ہو کر ایک بڑا پتھر اٹھا کر الطاف کو مارتا ہے لیکن بیچ میں نشاط آکر الطاف کو بچالیتی ہے اور خود ڈھلان سے نیچے گر
جاتی تی ہے مگر عین موقع پر الطاف اس کو بچانے کے لیے بھاگتا ہے مگر فرخ نشاط کو بچا کر گھر لے آتا ہے۔ نشاط ہوش میں آنے کے بعد اپنی غلطی محسوس کرتی ہے اس کے ازالے کے لیے فرخ کو خوش کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر نشاط کی محبت کو فرخ دکھا وا سمجھتا ہے۔ نشاط احساس جرم میں مبتلا ہو کر اپنی جان دے دیتی ہے۔ نشاط کے مرنے کے بعد الطاف اور فرخ اس کو بہت یاد کرتے ہیں اور نشاط کے نام پر ایک اسکول کھولتے ہیں۔
آمنہ ابوالحسن کا دوسرا ناول ۱۹۸۱ میں واپسی“ شائع ہوا۔ یہ ایک رومانی ناول ہے جو بیانیہ کے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس میں یاسمین کے عشق کی داستان بیان کی گئی ہے۔ یاسمین شہریار کے عشق میں گرفتار ہوتی ہے۔ ایمن نامی کردار یاسمین سے محبت کرتا ہے۔ اس ناول میں تکون عشق پیش کیا گیا ہے۔ اس میں ایسی کہانی بیان کی گئی ہے جو حقیقت سے بہت دور ہے۔ ناول میں کچھ بھی فطری معلوم نہیں ہوتا کیوں کہ ناول کی ہیروئن یاسمین بہت جذباتی اور کسی حد تک بیوقوف اور جنونی ہوتی ہے۔
جب اس کا محبوب شہر یارا سے چھوڑ کر دوسری لڑکی سے شادی کر لیتا ہے تب بھی یاسمین اس کو بھول نہیں پاتی حالانکہ اس کی شادی ایمن سے ہو جاتی ہے مگر اس کے باوجود وہ شہر یار کو اپنے گھر میں رکھتی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ ہر خواہش کی طرح ایمن اس کی یہ خواہش بھی پوری کرے گا۔ شہر یار اس کے گھر میں رہنے لگتا ہے۔ اس کے رہنے سے یاسمین بہت خوش رہنے لگتی ہے مگر اس کی اس حرکت سے ایمن اندر ہی اندر گھٹنے اور اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے دلشاد نام کی لڑکی کا سہارا لیتا ہے۔
تب یاسمین کے دل کو گہری چوٹ لگتی ہے اور اس کو احساس ہوتا ہے کہ اس کے گھر شہر یار کے رہنے سے ایمن کے دل پر کیا گزری ہوگی ، پھر اپنے دل پر پتھر رکھ کر ایمن کی دوسری شادی دلشاد سے کرا دیتی ہے۔ دلشاد اور ایمن کے دوسرے ملک چلے جانے سے یاسمین سخت بیمار ہو جاتی ہے۔ اس کی بیماری کا ذمہ دار اس کی بیٹی اپنے والد کو قرار دیتی ہے تو یاسمین سے برداشت نہیں ہوتا۔ آخر کا روہ موت کو گلے لگا بیٹھتی ہے۔
واپسی ایک دلچسپ ناول ہے۔ یہ ابتدا سے اختتام تک قاری کے ذہن کو باندھ کر رکھتا ہے کہ آخراب کیا ہوگا ؟ انجام طلاق یا کچھ اور لیکن اس کا اختتام اس پر ہوتا ہے کہ ایمن کے بغیر یا مین پوری نہیں اور یاسمین کے بغیر ایمن ادھورا ہے۔ دونوں کا ایک دوسرے کی حقیقت کو سمجھنا اور ایک دوسرے کی طرف واپس آنے کی وجہ سے اس ناول کا نام واپسی رکھا گیا۔
آمنہ ابوالحسن کا تیسرا ناول ” آواز ہے جو ۱۹۸۵ میں منظر عام پر آیا۔ اس کا موضوع پہلے دو ناولوں سے مختلف ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ارم ہے۔ اس کے والد ہندو اور ماں مسلم ہیں۔ ماں کا انتقال ہو جاتا ہے۔ یہ اپنے والد کے ساتھ دہلی میں رہتی ہے اور شادی کو پیر کی زنجیر بجھتی ہے کیوں کہ اس کی ماں نے ایک غیر مذہبی انسان سے شادی کی تھی جس کی وجہ سے معاشرے میں اس کو بہت گری ہوئی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ارم کا شادی پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے:
میرے ماں باپ نے کتنے اعتماد سے خود کو ایک دوسرے کے حوالے کیا مگر دنیا نے اس اعتماد کو نہیں مانا۔ ان کے رشتہ کی پاکیزگی کو قبول نہیں کیا۔ اس سے رشتے میرے ذہن میں نہیں رہے۔ میں لاشعوری طور پر دشمن ہوں ان کی اور یہ میرا عزم ہے کہ دنیا کو اعتماد کی اہمیت سمجھا کر رہوں گی ۔ رنج یہ ہے کہ دنیا تو دنیا رشتہ داروں نے بھی میرے والدین کو سچا نہ سمجھا۔ اس لیے رشتوں سے نفرت ہو گئی ہے مجھے ۔“
اس ناول میں ہندو مسلم اور سکھ تینوں مذہب کے کرداروں کو جگہ دی گئی ہے۔ یہ کسی خاص مقصد کے تحت نہیں لکھا گیا ہے البتہ کردار نگاری کے اس میں اچھے مظاہرے دیکھے جا سکتے ہیں ۔
چوتھا ناول پلس مائنس ہے جو ۱۹۸۷ میں شائع ہوا۔ یہ ناول دوسرے ناولوں سے زیادہ مقبول ہوا۔ یہ نفسیاتی ناول ہے۔ اس کا اہم کردار یاسمین ہے۔ اس کے والدین کی وفات ہو جاتی ہے اس کی سر پرستی اس کے بھائی فصیح کرتے ہیں۔ یاسمین کی زندگی میں شکیل نام کا ایک لڑکا آتا ہے جس کا محبوب مشغلہ خوبصورت لڑکیوں کو بیوقوف بنانا ہوتا ہے۔
یہ یاسمین سے عین شادی کے دن انکار کر دیتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد یا کمین کا مردوں پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ ایمن نام کا ایک لڑکا یا آمین کو پھر سے زندگی کی طرف لاتا ہے، اس کو ایمن سے محبت ہو جاتی ہے مگر اس کے بھائی فصیح فوجی افسر مسعود خاور سے اس کی شادی کر دیتے ہیں ۔ مسعود خاور ایک خوش اخلاق انسان ہوتا ہے مگر یاسمین اپنے عاشق کے خیالوں میں کھوئی رہتی ہے۔
بیوی کی توجہ نہ پا کر خاور مسعود کلب جانے لگتا ہے اور بری عادتوں کو اپنا لیتا ہے۔ اپنے شوہر کو غلط راستے کا راہی دیکھ کر یا مین بیمار رہنے لگتی ہے ۔ شکیل کا بھائی جمیل اس کا علاج کرتا ہے مگر وہ صحت یاب نہیں ہو پاتی ۔ مسعود خاور کی اچانک ہارٹ اٹیک سے موت ہو جاتی ہے۔ یاسمین کے دونوں بیٹوں کی شادی ہو جاتی ہے مگر یا سمین خوش نہیں رہ پاتی ۔ ادھر ایمن یاسمین کو بھول نہیں پاتا اور یاسمین سے شادی کا مطالبہ کرتا ہے
مگر جب اسے ملنے جاتا ہے تو یاسمین کی لاش پڑی ملتی ہے۔ یہیں پر ناول اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔ پورا ناول داستانی انداز میں لکھا گیا ہے۔ کوئی بھی کر دار مکمل طور پر ابھر کر سامنے نہیں آتا۔ اس میں ایمن ایسا کردار ہے جو یا آمین سے عشق تو کرتا ہے مگر اس کے برے حالات میں کبھی اس کے ساتھ نہیں ہوتا ہے۔ فنی اعتبار سے اس میں کچھ خامیاں رہتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود یہ دلچسپ ناول کہا جا سکتا ہے۔
آمنہ ابو الحسن کا آخری ناول یادش بخیر ۱۹۹۴ میں شائع ہوا۔ اس میں حیدر آباد کے امیر گھرانوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ پورے ناول میں زندگی کی ہنگامہ آرائیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ناول میں کئی گھر اور ان کے ماحول سامنے آتے ہیں۔
ان گھرانوں میں امیرانہ شان و شوکت کے کبھی عناصر مکمل شکل میں موجود ہوتے ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کی ہنگامہ آرائی، امیر خاندانوں کے پر تکلف ماحول ، خاطر مدارات ، رہن سہن اور شادی کی رسومات کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ ارم اور صنم اس کے اہم کردار ہیں۔ ارم کی شادی ہو جاتی ہے جبکہ صنم اپنے دوست کے بھائی ماجد کو پسند کرتی ہے۔
مگر یہ تعلق کسی انجام تک نہیں پہنچ پاتا۔ ناول میں امیر کبیر خاندانوں کی عیش پرستی پر تو روشنی ڈالی گئی ہے مگر ان کے مسائل سے احتراز کیا گیا ہے جس کے باعث یہ فطری معلوم نہیں ہوتا کیونکہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کی عکاسی کے بغیر کوئی بھی ناول کا میاب نہیں مانا جا سکتا۔ اس ناول کی یہ بہت بڑی خامی ہے۔ البتہ اس میں قومی یکجہتی کے عمدہ مظاہرے دیکھے جاسکتے ہیں۔
مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ آمنہ ابوالحسن نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں عورتوں کی جنسی نفسیات کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ان میں عورتوں کے مسائل ضرور ہیں مگر نقطہ نظر محدود نہیں ہے۔
پی ٹی ایف سے تحریر: محمد احمد رضا
نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں