مضمون الوِداع اردو
از۔۔۔۔۔ضیا ترک
اردو پاکستان کی قومی زبان نہ صرف پاکستان۔بھارت۔بنگلہ دیش میں بولی جاتی ہے بلکہ خلیجی و یورپی ممالک کے علاوہ امریکہ میں بھی اردو بولنے اور سمجھنے والوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ اس وقت بی۔بی۔سی۔ Voice of America۔آل انڈیا ریڈیو۔ ریڈیو جرمنی کے علاوہ China Radio سے بھی اردو زبان میں پروگرام نشر ہو رہے ہیں۔ماہرینِ لسانیات کے مطابق اردو بولنے والوں کی تعداد تقریبا60ً سے80 ملین ہے (یہ اعدادوشمار کافی سال پرانے سروے کے مطابق ہیں) ۔
ایس۔آئی۔ایل نژادیہ کے 1999ءمیں حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں بولی جانے والی بڑی زبانوں میں اردو کا نمبر پانچواں ہے۔ Language Today میں جارج ویبر کے تحقیقی مقالے کے مطابق اردو دنیا میں بولی جانے والی چوتھی بڑی زبان ہے۔
متحدہ ہندوستان میں عربی اور فارسی کی طرح اردو کو بھی مسلمانوں کی زبان سمجھا جاتا تھا کیونکہ اردو زبان کی ترویج واشاعت اور ترقی مسلمان مصنفین کی مرہونِ منت ہی رہی ہے۔دہلی۔لکھنو اور دکن کے مسلمان حکام نے ہمیشہ اردو زبان کی سرپرستی کی۔
اردو کو جنگ آزادی کے بعد پہلی بار 1867ءمیں ہندوؤں کے تعصب کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے بنارس کی سرکاری عدالتوں اور دفاتر میں اردو کی جگہ ہندی کورائج کرنے کا مطالبہ کیا۔یہ وہ رویہ تھا جس کی بدولت سرسیداحمدخان جیسی روشن خیال اور صلح پسند شخصیت بھی ہندو مسلم اتحاد پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوئی۔
سرسید نے محسوس کیا ہے مسلمانوں کو الگ شناخت برقرار رکھنے کیلیے اقدامات کرنے ہوں گے اسی بنا پر انہوں نے واضح کیا کہ ہندو اور مسلم دو الگ قومیں ہیں جس وجہ سے سرسید احمد خان کو دوقومی نظریہ کا بانی کہا جاتا ہے اس کا محرک بھی ہماری قومی زبان اردو ہی تھی۔
اب مسلمانوں نے اردو کی ترقی بارے سوچنا شروع کیا اور 1903ء میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں کانفرنس کے مختلف شعبوں میں ایک شعبہ ”شعبہ ترقیِ اردو“ کے نام سے قائم کیا جس کے تحت مولانا شبلی نعمانی جو ”انجمن ترقی اردو“ کے بھی سیکرٹری رہ چکے تھے اردو کی ترقی پر خصوصی توجہ دی۔
1912ء میں جب مولوی عبدالحق کو سیکرٹری منتخب کیا تو اردو کے زریں دور کا آغاز ثابت ہوا۔ انگریز مصنفین نے بھی اردو کی ترویج واشاعت کیلیے بہت کام کیا جو ناقابلِ فراموش ہے۔
انگریز حکمرانوں نے 1846ء میں ریاست جموں وکشمیر اور 1849ء میں پنجاب میں اردو کو دفتری زبان کے طور پر نافذ کیا۔ اردو اس وقت بھی بھارت کی 6 ریاستوں کی دفتری زبان ہے اور 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو انڈیا کی چھٹی بڑی زبان ہے۔
تحریکِ پاکستان میں بھی اردو اخبارات۔ اردوشعرا اور مصنفین کا بڑا جاندار کردار رہا ہے۔ قائداعظم نے جلسہِ عام میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہی ہو گی مگر افسوس کہ قیامِ پاکستان کے بعد قومی زبان کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو قومی دولت کے ساتھ کیا گیا۔ پاکستان میں اردو اور سندھی بولنے والوں کے درمیان تنازعہ اس لسانی تعصب کی بنیاد ثابت ہوا جس کا خمیازہ آج بھی پاکستانی بھگت رہے ہیں۔
دفتری زبان کے طور پر انگریزی اور زریعہ تعلیم کے طور پر صوبائی زبانوں کو اردو پر ترجیح دی جانے لگی جس وجہ سے پورے پاکستان میں بولی اور سمجھی جانے والی زبان اردو حقیقی معنوں میں قومی زبان نہ بن سکی۔ ایک مشہور مصنفہ نے بڑی اچھی بات کہی کہ” یہ فیصلہ کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی یہ فیصلہ انگریزی میں لکھا جائے تو اس سے بڑھ کر افسوسناک بات کیا ہوسکتی ہے“
اردو زریعہ تعلیم ہونی چاہیئے یا نہیں یہ بحث آج تک جاری ہے جو لوگ انگریزی کو ہی زریعہِ تعلیم بنانے پر زور دیتے ہیں ان سے عرض ہے کہ انگریزی تو صرف 32 کروڑ لوگوں کی مادری زبان ہے۔ چینی یا فرانسیسی انگریزی کو زریعہ تعلیم کیوں نہیں بناتے؟؟
اگر عربی۔ہندی۔فرانسیسی۔چینی اور ترکی زبانوں میں تعلیم دی جاسکتی ہے تو اردو میں کیوں نہیں؟؟
ویسے بھی 75 سال سے انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود دنیا کی بہترین یونیورسٹیز میں کسی پاکستانی یونیورسٹی کا نام نہیں ۔75 سال سے ریاضی اور سائنس انگریزی میں پڑھنے کے باوجود کوئی اعليٰ پایہ کا ریاضی دان یا سائنس دان پاکستانی تعلیمی ادارے نہیں دے سکے۔
بطور ایک قوم ہماری مثال ”کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا“ کی جیسی ہے جب ایک ماں اپنے بچے کو ڈانٹے کہ کتے کو کتا نہیں کہنا dogi کہنا ہے تو اردو کو الوداع ہی کہنا ہوگا۔ جب انگریزی میڈیم سکول میں بچے پر اس لیے جرمانہ ہو کہ اس نے اپنے ہم جماعت سے اردو میں بات کی ہے تو اردو کو الوداع کہنا ہوگا۔
اردو کو الوداع ہی کہ دیں جب کرکٹ ورلڈ کپ کی کمنٹری بھارت والے ہندی میں بھی کریں لیکن پاکستانی P.S.L کی کمنٹری بھی انگریزی میں کریں۔
گلابی انگریزی کے بعد ایک نئ ایجاد رومن اردو نے تو سچ میں زبان کا ستیاناس کردیا ہے عجیب بات کہ اب موبائل کمپنیز بھی سروس کے میسجز رومن اردو میں بھیجتے ہیں۔ فیسبک پر کسی نے پوسٹ لگائی تھی ” اس قوم کی جہالت کب ختم ہوگی جہاں خوبصورتی کامعیار گورا رنگ اور مہذب ہونے کا معیار انگریزی بولنا ہے“۔ انگریزوں سے جسمانی طور پر آزادی تو 1947ء میں حاصل ہوگئ مگر ذہنی طور پر غلامی آج بھی برقرار ہے جو انگریز ثقافت۔لباس اور زبان سے عیاں ہے۔
ایک شاعر نے اس حالتِ زار کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔
سنو یہ فخر سے اک راز بھی ہم فاش کرتے ہیں۔
کبھی ہم منہ بھی دھوتے تھے مگر اب واش کرتے ہیں۔
تھا بچوں کیلیے بوسہ مگراب کِس kiss ہی کرتے ہیں۔
ستاتی تھیں کبھی یادیں مگراب مِس ہی کرتے ہیں۔
چہل قدمی کبھی کرتے تھے اور اب واک کرتے ہیں۔
کبھی کرتے تھے ہم باتیں مگر اب ٹاک کرتے ہیں۔
کبھی جو امی ابو تھے وہی اب ماما پاپا ہیں۔
دعائیں جوکبھی دیتے تھے وہ بڈھے سیاپا ہیں۔
کبھی تھا جو غسل خانہ بنا وہ باتھ روم آخر۔
بڑھا جو اور اک درجہ بنا وہ واش روم آخر۔
کبھی تو درد ہوتا تھا مگر اب پین ہوتا ہے۔
پڑھائی کی جگہ پر اب نالج گین ہوتا ہے۔
الوداع الوداع اردو الوداع
وفاقی ادارہِ شماریات کے مطابق گزشتہ 19 سال میں اردو بولنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے 2017 کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان بولنے والوں کی تعداد 1998 کی نسبت کم ہوگئ ہے جو بطور ایک قوم انتہائی افسوسناک ہے۔
کاش ایسا ہو کہ ہم بھی اپنی ثقافت۔ لباس۔ ملکی مصنوعات۔ رہن سہن کے انداز اور قومی زبان پر فخر کریں نا کہ احساسِ شرمندگی و احساس کمتری کا شکار ہوں۔
