علامہ اقبال کی حالات زندگی مختصر نظر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

علامہ اقبال کی حالات زندگی مختصر نظر | Allama Iqbal ke Haalaat-e-Zindagi: Mukhtasir Nazar

علامہ اقبال کی مختصر سوانح

پیدائش

علامہ اقبال سیالکوٹ میں 9 نومبر ۱۸۷۷ء میں پیدا ہوئے ۔

تعلیم

اقبال نے ابتدائی تعلیم اپنے شہر سیالکوٹ سے حاصل کی۔
وہاں انھیں سید میر حسن جیسے استاد میسر آئے ۔
اقبال میر حسن جیسے استادوں سے آخری وقت تک متاثر رہے۔
ایف اے کے بعد اقبال لاہور چلے آئے ، جہاں انھوں نے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا۔

یہ بھی پڑھیں: اقبال کی شخصیت اور فکر و فن پر اعتراضات مکمل | pdf

اسی کالج میں وہ پروفیسر آرنلڈ اور شیخ عبدالقادر سے متعارف ہوئے ۔ اقبال نے فلسفہ انگریزی اور عربی زبان و ادب میں اسی کالج میں تعلیم حاصل کی!

ادبی زندگی کا آغاز

سر عبد القادر کے رسالے ” مخزن (۱۹۰۱ء) میں ان کی نظم ” چاند شائع ہوئی ۔ کچھ ہی عرصے بعد ان کی پختہ نظمیں مخزن میں تواتر سے آنے لگیں، جنھوں نے اقبال کو سنجیدہ ادبی حلقوں میں متعارف کروایا۔

یہی وہ زمانہ تھا جب اقبال فلسفہ اور سیاسیات میں تعلیم حاصل کر چکے تھے۔ گورنمنٹ کالج میں ہی اقبال لیکچرر تعینات ہو گئے!

اعلیٰ تعلیم

کچھ برسوں بعد اقبال ۱۹۰۵ء میں برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے چلے گئے۔
لندن سے بارایٹ لا کے ساتھ ہی انھیں میونخ یونیورسٹی جرمنی میں The development of Metaphysics in Persia کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر ڈگری حاصل کی ۔

اقبال ۱۹۰۸ ء میں وطن لوٹے ۔ اس دوران انھوں نے اسلام ، مشرق اور مغربی تمدن کا خوب تقابلی مطالعہ کیا۔
اقبال کے ذہن و فکر پر مغرب نے گہرے اثرات ڈالے۔

رو لے اب دل کھول کر اے دیدہ خونابہ بار

وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار

وطن واپسی

واپس آکر انھوں نے انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں نظمیں پڑھنا شروع کر دیں۔
انھی نظموں کی بدولت اقبال کو ملک گیر شہرت ملی ،
ان نظموں میں شکوہ، جواب شکوه، ترانه ہندی“ اور ”ترانه ملی “ وغیرہ شامل تھیں ۔

۱۹۱۴ء میں جنگ عظیم اول نے دنیا بھر پر گہرے اثرات ڈالنے شروع کیے تو اقبال نے مشرقی اقوام پر گہرے غور خوض کا آغاز کیا۔ انھی دنوں میں انھوں نے ” اسرار خودی” ، لکھی جس کا انگریزی ترجمہ اقبال کے استاد ڈاکٹر نکلسن نے کیا!

۱۹۲۴ء میں ان کا اردو کلام با نگ درا شائع ہوا۔ ان کے دوسرے اردو اور فارسی شعری مجموعوں میں بال جبریل، ضرب کلیم، پیام مشرق، ارمغان حجاز ، جاوید نامه، زبور عجم ، رموز بے خودی اور پس چہ باید کرد شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: شاعر مشرق: علامہ محمد اقبال کی شخصیت و شاعری

شاعری کے علاوہ ان کے خطبات ، مقالات اور مکتوبات خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ مدر اس میں انھوں نے جو خطبات پیش کیے The Reconstruction of Religious Thought in Islam ( تشكيل جديد الهيات اسلامیہ ) کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ ان خطبات کی تشریح اور تسہیل کے لیے کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔

اقبال اپنے آخری وقتوں میں مختلف عوارض کا شکار رہے مگر انھوں نے لکھنا ختم نہ کیا۔ نظریہ خودی :

بالِ جبریل اور ضربِ کلیم میں اقبال نے نظریہ خودی کو بہت واضح انداز میں پیش کیا ہے۔ اقبال نے قوم کو خودی کا پیغام دیا۔

یہ بھی پڑھیں: اقبال کی شخصیت اور شاعری مجموعہ مقالات از پروفیسر حمید احمد خان | pdf

وفات

ان کی وفات ۲۱ ۔ اپریل ۱۹۳۸ء میں ہوئی۔ ان کی وفات کے بعد ان کی کتاب ارمغان حجاز ، شائع ہوئی جو اردو اور فارسی دو زبانوں میں ہے۔

سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید!
سر آمد روزگارے ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید!

علامہ اقبال کی نظم ساقی نامہ

علامہ اقبال کی شاعری کا آغاز ان کے زمانہ طالب علمی ہی سے ہو گیا تھا۔ مگر اقبال کی شاعری کے بنیادی طور پر تین ادوار بنائے جاسکتے ہیں۔
اقبال کے یورپ جانے سے پہلے کا دور ۔
دوسرا دور قیام یورپ ۔
تیسرا دور خاصا طویل ہے

یورپ سے واپسی کے بعد تقریباً ۱۹۳۰ تک پھیلا ہوا۔ آخری دور جاوید نامہ اور اس کے بعد کی شاعری پر مشتمل ہے۔

اقبال بنیادی طور پر شاعر تھے۔ شاعری میں بھی ان کا محور رومانویت بنتا ہے۔ اقبال کو ایک فلسفی، متکلم، سیاسی مبصر، تاریخ دان، عالم دین اور دیگر کئی ایسے اعزازات کے ساتھ تو دیکھا گیا ہے مگر ان کی اصل پہچان ان کی شاعری پر توجہ کم دی گئی۔ ایک شاعر کے ہاں سب تصورات اور خیالات فکری نظام کے طور پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ اقبال نے فکری سطح کو ہمیشہ تھامے رکھا ، اسی وجہ سے ان کی فکر اور شعری جذبے گندھے ہوئے ملتے ہیں۔

ساقی نامہ

ساقی نامہ اقبال کی طویل نظموں میں ایک اہم نظم ہے جو انھوں نے اپنے آخری دور میں لکھی۔
ہئیت.
ساقی نامہ مثنوی کی ہئیت میں لکھی گئی ہے۔ مثنوی کلاسیکی شاعری میں منظوم داستانوں کے لیے بہت استعمال کی جاتی رہی ہے۔ اقبال نے اس صنف کو ایک نئے انداز سے فکر و فلسفہ کی پیش کش کے لیے استعمال کیا ہے۔

مثنوی کا لفظ ( عربی زبان میں مثنیٰ سے ہے جس کے معنی ہیں دو۔ اصطلاحی معنوں میں مثنوی ایسی نظم ہے جس کے ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں۔ مثنوی کو مسلسل نظم بھی کہا جاتا ہے۔ چوں کہ یہ پابند ہئیت میں لکھی جاتی ہے اس لیے ہر شعر میں قافیہ لانا اور ردیف میں بات کہنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔ مثنوی میں شعروں کی کوئی مخصوص تعداد نہیں ہوتی ۔ ہزاروں اشعار پر مشتمل مثنویاں بھی لکھی گئی ہیں۔

ساقی نامه ۱۹۹ اشعار پر مشتمل طویل نظم ہے جس میں اقبال نے حیات رواں میں خودی کے مقام کو پہچاننے اور اُس کے ادراک پر زور دیا ہے۔

اس نظم میں فطرت کے حسین مناظر بھی دکھائے گئے ہیں۔ اقبال نے کائنات کے حرکی فلسفے کو بیان کیا ہے۔ آخر میں وہ خودی کو تمام جہات سے افضل قرار دیتے ہوئے اس کی ماہیئت اور حیثیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔

پروف ریڈر نائمہ خان

حواشی

کتاب کا نام۔۔۔بنیادی اردو
کورس کوڈ۔۔ 9001
مرتب کردہ۔۔! زائرہ تسنیم
صفحہ نمبر, 223،تا،224
موضوع۔۔! اقبال ، عہد آفریں شاعر

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں