موضوع۔ – علامہ اقبال اور اردو نظم
کتاب کا نام۔اردو ادب کا پاکستانی دور1۔
ص۔111تا112
کورس کوڈ۔5615
مرتب کردہ۔Hafiza Maryam.
علامہ اقبال اور اردو نظم
بیسوی صدی کے آغاز سے پہلے ہی جدید وقدیم کے مابین تصادم عمل میں آنے لگا تھا۔ اس وقت ادب کی کلاسیکی روایت کے ساتھ جڑے ہوئے اور جدید روایت کو تشکیل دینے والے شعراء بھی موجود تھے۔ جدید سائنسی انکشافات اور نئے فلسفیانہ تصورات کی وجہ سے معاشرے میں نئی صورت حال جنم لے رہی تھی اور تغیر و تبدل کا عمل تیزی پکڑ رہا تھا۔
اردو نظم بھی تغیرات کو قبول کر رہی تھی ۔ علامہ اقبال ان بدلتے ہوئے رجحانات کا نقطہ عروج ہیں۔ اقبال نے اُردو ادب کے دھارے کا رخ موڑ دیا اور اُردو نظم کو تقریبا ہر پہلو سے متاثر کیا۔ انہوں نے نظم کے موضوعات کو بے پناہ وسعت دی۔ اسلوب کی سطح پر بھی انہوں نے پابند نظم کو اوج کمال تک پہنچا دیا ،
جو اسالیب اور تکنیکیں انہوں نے اپنی شاعری میں برتیں ، ان کا سراغ دوسرے شعرا کے ہاں نہں ملتا۔ اُردو کا شعری اسلوب ان کی وجہ سے اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ ان کی نظموں میں اسلوب اور موضوع میں مکمل مطابقت پائی جاتی ہے۔
ان کے ہاں فکری حقائق کا بیان بہترین شاعرانہ زبان میں ہوا ہے۔ بہترین شاعرانہ اسلوب کے باوجود ان کے بیان کردہ عملی حقائق ایک مربوط نظام فکر کا درجہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے علامتوں کو اپنے خاص پیغام سے ہم آہنگ کر کے برتا اور بحور کو اپنے خاص مطالب کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ انہوں نے خاص اوزان، خاص کیفیات و احساسات کے لیے اختیار کیے اور مختلف اصناف کا انتخاب بھی اسی نقطہ نظر سے کیا۔
البتہ اقبال نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے پرانے اور مروجہ سانچوں کو برقرار رکھا۔ اُردو شاعری میں اقبال سے بہتر پابند ہٸیت میں نظم کسی اور شاعر نے تخلیق نہیں کی ۔
انہوں نے پابند نظم کے ہیتی امکانات کو کھنگالا اور انہیں وسعت دی۔ لیکن انہوں نے نظم کی شاعری میں کلاسیکی ہیت سے انحراف نہیں کیا۔
اقبال کی مقبولیت سے متاثر ہو کر متعدد شعراء نے نظم نگاری کی طرف خصوصی توجہ کی اور ایسی نظمیں تخلیق کیں، جن کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ بہت سے شعراء نے مناظر فطرت ، تہذیبی زندگی اور قومی مسائل پر نظمیں تحریر کیں۔ اقبال نے شعراء میں سوچنے کا نیا انداز اور اپنی بات کو نئے ڈھنگ سے پیش کرنے کا حوصلہ بخشا۔
اقبال کے آخری چند برسوں میں بعض ایسی تحریکیں بھی رونما ہو ئیں جو نئے خیال کے ساتھ نئی ہیتوں کو روشناس کرانے میں سرگرم عمل تھیں۔
تقریبا ایک ہی زمانے میں آگے پیچھے کے معمولی فرق سے کئی ایک ادبی تحریکوں نے جنم لیا اور نظم میں موضوعاتی اور ہیتی سطح پر بہت سی تبدیلیاں معرض وجود میں آئیں۔ اسی دور میں رومانی تحریک بھی مقبول ہو چکی تھی۔ چنانچہ اختر شیرانی ، جوش ملیح آبادی، حفیظ
جالندھری، احسان دانش و غیرہ نے رومانی نظم نگار کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔
اقبال ہی کے دور میں غیر ملکی زبانوں کی شاعری کے اثرات نیز خود اپنی جدت پسند طبیعت کے تقاضوں کے باعث اُردو شعراء نے جو مختلف اور متنوع تجربات کئے ، ان میں ایک اہم تجربہ پابند نظم میں . بحور و اوزان کے آزادانہ استعمال اور بندوں کی ساخت میں جدت طرازی کی شکل میں ظاہر ہوا۔ اس تجربہ کی کوکھ سے دیگر ہیتی تجربات نے جنم لیا۔
گویا اس تجربہ کو بہت سے متفرق تجربات کا مجوعہ کہاجاسکتا ہے۔ اس سلسلہ کی ابتداء غالبا عبد الرحمن بجنوری کی نظم ”نٹ راجا سے ہوتی ہے۔ یہ نظم ان کی موت کے بعد رسالہ ” اُردو جنوری 1924ء میں مولوی عبدالحق کے تعارفی نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی۔ اس نظم میں بحر کے استعمال میں مروجہ قاعدے سے انحراف کرتے ہوئے بحر کے ارکان میں تخفیف کی گئی تھی۔ (۲)
بحر کے ارکان میں ترمیم و اضافہ فہ سے مصرعوں کی تشکیل اور مصرعوں کی ترتیب سے نئے انداز کے بندوں کی ساخت میں جن شعراء نے تجربات کئے ۔ ان میں نظم طباطبائی، وحید الدین سلیم، افسر میرٹھی ، اختر شیرانی، حفیظ جالندھری، ساغر نظامی، مخدوم محی الدین ، احمد ندیم قاسمی خاص کر قابل ذکر ہیں۔ البتہ ان تمام شعراء میں حفیظ جالندھری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی نظمیں اور گیت اپنی جدتوں کی وجہ سے ساز و آواز اور رنگ و آہنگ کا دلفریب منظر پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے موضوعات کے زیر اثر مصرعوں اور اوزان کے ارکان کی تعداد گھٹا نے بڑھانے سے نئی ہئیتوں کی ترویج کی کوششوں میں اہم کردار ادا کیا۔ اُردو شاعری میں نظم اور گیت کو ایک دوسرے کے قریب تر کر دینے کے یہاں اُردو عروض کی پابندیوں میں آزادیوں کی کارفرمائی جس سلیقے سے پائی جاتی ہے، اس کی مثال کسی اور شاعر کے ہاں کم ہی ملتی ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں