اقبال کا فن پس منظر
علامہ اقبال کا شمار دنیا کے عظیم ترین شعراء میں ہوتا ہے ان کے فکروفن نے بیسویں صدی کے اردو شعر و ادب پر بہت گہرے اور اثرات مرتب کئے اردو شاعری کو انہوں نے فکری اور فنی اعتبار سے کئی نئی جہتوں سے آشنا کیا وہ ادب برائے ادب کے قائل نہیں تھے بلکہ ادب برائے زندگی کے نظریے کے پر جوش ترجمان تھے۔
موضوعات کی فہرست
فکر و فلسفہ کی دنیا میں ان کے نظریہ خودی کو زبردست اہمیت اور پذیرائی حاصل ہوئی ان کا نظریہ فن ان کے تصور خودی ہی کا حصہ ہے ان کے نزدیک تخلیقی فنون کو جن میں شعر و ادب کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے خودی کا ترجمان اور انسانی شخصیت و انفرادیت کا معمار اور محافظ ہونا چاہیے۔ جوفن شخصیت کو کمزور کرتا ہے وہ ان کے بقول اٹیلا اور چیکو سے زیادہ ہلاکت خیز ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: علامہ اقبال: شاعر مشرق کے نظریات اور شاعری
چنانچہ بلند پایہ اور حیات بخش شاعری وہی ہے جو انسانوں کے باطن میں مقاصد عالیہ کی تخلیق کر سکتے فرد اور معاشرے کو ان مقاصد عالیہ کے حصول کے لئے ہر نوع کی جدو جہد پر آمادہ کر سکے۔ اقبال کے نزدیک فن وہی ہے جو انسانی زندگی (خودی) کو ایسے سوز و ساز سے بہرہ مند کرے جس کا ثمر تہذیب انسانی کی تعمیل کی صورت میں حاصل ہو سکے۔ اقبال کے نظریہ فن کی رو سے فن تحمیل ذات کا ذریعہ ہے۔
مقصود بالذات نہیں اس اعتبار سے اقبال کے نزدیک شاعری کے معنوی ( فکری اخلاقی ) اور تعمیری پہلو زیادہ اہم ہیں یہ نسبت اس کے فنی پہلوؤں کے ۔ اسی لیے اقبال نے خود کو عام اور رسمی مفہوم میں شاعر کہلوانے سے گریز کیا بلکہ ایک فارسی شعر میں اس حد تک کہا کہ اس آدمی سے خیر کا ظہور نہیں ہو سکتا جس نے مجھ پر شاعر ہونے کی تہمت لگائی ۔
کچھ تو اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنے آپ کو عام معنوں میں شاعر کہلوانا پسند نہیں کیا اور اس سبب سے کہ ان کی شاعری کے فکری پہلوؤں یعنی ان کے فلسفہ حیات اور نظریہ خودی کی تفہیم و تشریح نے عصر حاضر کے بعض غیر معمولی اذہان کو مصروف کار رکھا ۔
ان کی شاعری کے فنی پہلوؤں پر زیادہ توجہ نہ دی جاسکی لیکن یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ ان کے فن کو سمجھا نہیں گیا البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس موضوع کے حوالے سے تشریحاتی مواد زیادہ سامنے آیا۔
اقبال کا نظریہ فن
اقبال کے نظر یہ فن کا ان کے نظریہ جمال کے ساتھ گہرا تعلق ہے ان کے نظریہ جمال کی اساس بھی استحکام خودی کے تصور پر ہے وہ صرف حسن کو حیات یا تخلیقی عمل کی جامع اور کامل صورت قرار نہیں دیتے بلکہ اس کے ساتھ قوت اور توانائی کے عصر کی آمیزش کو ضروری خیال کرتے ہیں اسی لئے ان کے نزدیک قاہری کے بغیر دلبری جادوگری” سے زیادہ کچھ نہیں ۔
گویا ان کے نزدیک معیاری فن وہی ہے جس میں جمال و جلال کا امتزاج پایا جائے ۔ چونکہ ان کے نزدیک خودی کی تخلیقی فعلیت کی نمود ہے اس لئے خودی کے امکانات کی رونمائی اور ان کی تعمیل کے لیے جہد فیہم کی تحریک تخلیقی فنون ہی فراہم کرتے ہیں جن میں شاعری سر فہرست ہے یہی وجہ ہے کہ اقبال ایک عظیم مفکر اور مصلح قوم ہونے کے باوجود تخلیقی فنون کی اہمیت وفنون کے شدت سے قائل تھے۔
اقبال کے نزدیک فن کی تخلیق فطرت سے رہائی پانے کے مترادف ہے یہ غیر موجود کو موجود کرنے کا عمل ہے اسی لئے ہر اعتبار سے قابل قدر ہے اقبال کے اپنے الفاظ میں ” جو آرٹسٹ زندگی کا مقابلہ کرتا ہے وہ انسانیت کے لیے باعث برکت ہے وہ تخلیقی عمل میں خدا کا رفیق کار ہے ۔ اس کی روح میں زمانہ اور ابدیت کا تو منعکس ہوتا ہے۔
( مرقع چغتائی کا انگریزی دیباچہ ) اقبال بھی کیٹس کی طرح) اس بات کے قائل ہیں کہ حقیقت حسن اور حسن حقیقت ہے، لیکن ان کے نزدیک آرٹ کا منتہا ، روحانی اور اخلاقی اقدار و تصورات کا احساس و ادراک ہے جس کے ذریعے وہ انسانیت کی بڑی سے بڑی خدمت سر انجام دے سکتا ہے۔ اقبال کی رائے میں شاعری ) دوسرے تخلیقی فنون کی طرح ) خوب سے خوب تر کی تلاش کا دوسرا نام ہے۔
غرض ، اقبال کا تصور شاعری مثالی بھی ہے اور حقیقت پسندانہ بھی تاہم وہ مقصدیت کو ہر حال میں مقدم رکھنے کے ساتھ ساتھ خالص فنی تقاضوں سے بھی غافل نہیں رہتے، حقیقت یہ ہے کہ ان کا کلام شاعری کے بلند ترین معیاروں پر پورا اترتا ہے بلکہ انہوں نے اپنے منفرد تخیل اور دلکش طرز بیان سے شاعری کے تصور میںان گراں قدر اضافہ کیا ہے۔
معاون عارفہ راز
حواشی
کتاب: علامہ اقبال کا خصوصی مطالعہ۔1
کورس کوڈ۔ 5613
صفحہ.. 44تا45
مرتب کردہ۔ ثناء فاطمہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔