علامہ اقبال کی ذہنی و فکری ارتقاء کی چوتھی منزل
علامہ اقبال کی ذہنی و فکری ارتقاء، بیسویں صدی کا تیسرا عشرہ فکری کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی اقبال کی زندگی کا ایک اہم دور تھا۔ اس زمانے میں انہوں نے فکرِ اسلامی کی تنظیم نو کے سلسلے میں غور و فکر کیا اور علماء، خصوصاً سید سلیمان ندوی سے اجتہاد کے حوالے سے رابطے شروع کیے۔ انہوں نے مختلف مجالس میں اپنے ان خیالات کا اظہار بھی کیا، جو بعد ازاں "تشکیلِ جدید الہٰیاتِ اسلامیہ” کی صورت اختیار کر گئے۔
موضوعات کی فہرست
یہ خطبات اقبال نے 1929 میں تین مدارس اور تین علی گڑھ میں دیے، جبکہ ساتواں خطبہ 1932 میں لندن کی Aristotelian Society میں پیش کیا۔ یہ ساتوں خطبات مطبع آکسفورڈ نے 1934 میں:
"The Reconstruction of Religious Thought in Islam”
کے عنوان سے شائع کیے۔
عملی سیاست میں حصہ لیتے ہوئے اقبال نومبر 1926 میں حلقۂ شہر لاہور سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، مگر تین سال کے تجربے کے بعد انہوں نے اس راہ کو خیر باد کہا۔ تاہم فکری لحاظ سے وہ عصری سیاست سے دستبردار نہیں ہوئے۔
تیسرے عشرے کے آخر میں ان کا ایک اہم کارنامہ دسمبر 1930 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس الہ آباد کی صدارت ہے۔ صدارتی خطبے میں انہوں نے اہم سیاسی مسائل پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا، جس میں شمال مغربی ہند میں ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کا تصور بھی شامل تھا — جو آگے چل کر حقیقت بن گیا۔
گول میز کانفرنس میں شمولیت کے دوران سفر کے دوران اقبال اندلس (سپین) اور یروشلم (فلسطین) بھی گئے اور مؤتمر اسلامی کانفرنس میں بھی شریک ہوئے۔ ان اسفار کی یادگار دو لافانی نظمیں "مسجد قرطبہ” اور "ذوق و شوق” ہیں۔
1933 میں اقبال نے نادر شاہ کی دعوت پر سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے ہمراہ افغانستان کا سفر کیا۔ اس دوران انہوں نے فارسی میں مثنوی "مسافر” لکھی، اور حکیم سنائی کے مزار کی زیارت کے موقع پر اردو میں ایک طویل نظم کہی جو بالِ جبریل کا حصہ ہے۔
جاوید نامہ کی اشاعت کے بعد اقبال دوبارہ اردو شاعری کی طرف مائل ہوئے اور ان کے دو اہم اردو مجموعے بالِ جبریل (جنوری 1935) اور ضربِ کلیم (اگست 1936) شائع ہوئے۔
نومبر 1936 میں ان کی فارسی مثنوی "پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق” بھی منظر عام پر آئی، اور اسی سال ان کی مشہور اردو نظم "ابلیس کی مجلسِ شوریٰ” تخلیق ہوئی، جو اقبال کے آخری اردو و فارسی مجموعہ ارمغانِ حجاز میں شامل ہے۔ یہ مجموعہ ان کی وفات کے بعد 1938 میں شائع ہوا۔
ان شعری مجموعوں کی اشاعت سے بھی اقبال کے ذہنی سفر کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کے ذہن و فکر کا آخری بڑا کارنامہ وہ خطوط ہیں جو انہوں نے علالت کے دوران قائداعظم محمد علی جناح کو جنوبی ایشیا کے سیاسی مسائل کے حوالے سے لکھے۔ مسٹر جناح نے ان خطوط کی 1943 کی اشاعت کے پیش لفظ میں اعتراف کیا کہ ان خطوط نے انہیں فکری رہنمائی دی۔
قراردادِ لاہور کی منظوری کے بعد، جب قائداعظم علامہ اقبال کی تربت پر دعا کے لیے گئے تو فرمایا:
"Iqbal is no more amongst us. But had he been alive, he would have been happy to know that we did exactly what he wanted us to do.”
سید نذیر نیازی کے مطابق:
"حضرت علامہ ایک زندہ انسان تھے اور ان کا فکری ارتقاء تادمِ مرگ جاری رہا۔”
تاہم، ان کی فکری بنیاد ابتدا سے انتہا تک مستحکم رہی، جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر کامل ایمان اور عشقِ رسول ﷺ پر مبنی تھی۔ ان کا تمام فکری و ذہنی سفر انہی دو عناصر کے گرد گھومتا ہے۔
بعض ناقدین نے وطنیت کے حوالے سے اقبال کے خیالات میں تضاد کا الزام لگایا۔ اس کی ایک مثال 1911 کے علی گڑھ خطبے میں کہی گئی بات ہے:
"In the Punjab, the essentially Muslim type of character has found a powerful expression in so-called Qadiani sect.”
اس کا اردو ترجمہ ظفر علی خان نے "ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر” میں یوں کیا:
"پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں۔”
اقبال نے اپنی وفات سے چند سال قبل قادیانی فرقے کی اصل حقیقت واضح کرتے ہوئے اپنی پرانی رائے سے رجوع کیا۔ جب اس فرقے کے ترجمان جریدے The Light نے اقبال کے خیالات میں تضاد کا الزام لگایا، تو اقبال نے ایک نمائندے کو وضاحت دیتے ہوئے کہا:
"As far as I remember the lecture was delivered in 1911 or perhaps earlier. I have no hesitation in admitting that about a quarter of a century ago, I had hopes of good results following from this
movement…
Personally, I became suspicious of the movement when the claim of a new Prophethood — superior even to the Prophethood of the founder of Islam — was definitely putforward…
If my present attitude is self-contradictory, then well — only a living and thinking man has the privilege of contradicting himself. Only stones do not contradict themselves, as Emerson says.”
اسی زمانے (1935) میں اقبال کو اپنے کاغذات میں اس خطبے کا اصل مسودہ بھی ملا، جس پر انہوں نے تحریر کیا:
"This lecture was delivered at Aligarh in 1911. The remark about the Qadianis in this lecture must be revised in the light of the revelation of the spirit of the movement since 1911… Outwardly they look Muslim and anxious to look so, but inwardly their whole mentality is Magian…”
علامہ اقبال نے 21 اپریل 1938 کو رحلت سے چند ماہ قبل آل انڈیا ریڈیو لاہور اسٹیشن سے سالِ نو کے موقع پر مشرق و مغرب اور انسانیت کے نام جو پیغام دیا، وہ دراصل جاوید نامہ کے اس شعر کی تفسیر تھا:
آدمیت احترامِ آدمی
باخبر شہباز، مقامِ آدمیحواشی
پروف ریڈر: اقصٰی سیف اللہ کتاب کا نام: علامہ اقبال کا خصوصی مطالعہ کورس کوڈ: 5613موضوع: ذہنی و فکری ارتقاء کی چوتھی منزل صفحہ: 16 تا 18 مرتبہ: سمعیہ بی بی