اقبال اور عشقِ رسول ﷺ
اقبال اور عشقِ رسول ﷺ،عشقِ رسول ﷺ مشرقی اور مغربی ادب کا محبوب اور مقبول موضوع رہا ہے۔ عربی، فارسی اور اردو میں اس کثرت اور تنوع سے اس موضوع پر لکھا گیا ہے کہ اس کا احاطہ کرنا بھی طوالت کا موجب ہے۔ یہاں منتخب اور جید اہلِ قلم کا ذکر کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: علامہ اقبال: شاعر مشرق کے نظریات اور شاعری
موضوعات کی فہرست
یہ موضوع اپنے اندر اتنی جاذبیت اور کشش رکھتا ہے کہ ہر ذی علم اور صاحبِ استطاعت نے اسے اپنے لیے باعثِ سعادت اور ذریعۂ نجات خیال کیا ہے۔ اردو میں شاید ہی کوئی شاعر یا نثر نگار ایسا ہو جس نے اس موضوع پر اظہارِ خیال نہ کیا ہو۔
عربی میں حضرت حسان بن ثابتؓ اولین شاعر ہیں جن کا محبوب مشغلہ حضورِ سرورِ کائنات ﷺ کی مدح و ثناء تھا۔ حضور اکرم ﷺ نے بارہا حضرت حسانؓ کے نعتیہ کلام کو پسند فرمایا اور تعریف کی۔ ان کے بعد قصیدۂ بردہ کا ذکر آتا ہے۔
عربی میں نعتیہ قصیدہ اس درجہ مقبول و معروف ہوا کہ دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا گیا۔ خود اقبالؒ نے بھی اپنے کلام میں خیر و برکت کے لیے قصیدہ بردہ کا ذکر کئی جگہ کیا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے،
اس قصیدے کے مصنف شرف الدین بوصیری فالج کا شکار ہوئے، اور اس مرض نے ان کی زندگی تلخ کر دی۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر، جب صاحبِ قصیدہ بردہ نے بارگاہِ رسالت ﷺ میں اپنے مرض کے ازالے کے لیے رجوع کیا، اور نہایت اخلاص اور عقیدت سے چند اشعار پیش کیے، تو بارگاہِ نبوت ﷺ میں ان اشعار کو شرفِ قبول ملا۔
حضرت محمد ﷺ نے عالمِ رؤیا میں اپنی چادرِ مبارک شرف الدین پر ڈال دی۔ جب ان کی آنکھ کھلی تو وہ فالج کے مرض سے نجات پا چکے تھے۔ اقبالؒ نے بوصیری کے خواب اور اس کی خوش بختی پر یوں اشارہ کیا:
"اے بوصیری را درد بخشیدہ”
یہی واقعہ قصیدہ بردہ کی مقبولیت اور مقبولِ عام ہونے کا سبب بنا۔
فارسی میں جید شعراء نے نعتِ رسولِ مقبول ﷺ پر خوب طبع آزمائی کی ہے۔ مثنوی معنوی میں جا بجا حضور اکرم ﷺ کی مدح و ثناء میں اشعار موجود ہیں۔ یہی نہیں، مثنوی معنوی میں بے شمار احادیثِ نبویہ کے حوالے بھی ملتے ہیں۔
صاحبِ مثنوی کو جو عشق رسول ﷺ کی ذاتِ گرامی سے تھا، وہ مثنوی سے پوری طرح عیاں ہے۔ قرآنی مفاہیم کو رومیؒ نے جس خیر و خوبی سے پیش کیا ہے، وہ انہی کا خاصہ ہے۔ آخر یوں ہی مثنوی کو "ہست قرآن در زبانِ پہلوی” نہیں کہہ دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: شاعر مشرق: علامہ محمد اقبال کی شخصیت و شاعری
سعدیؒ نے حضرت محمد ﷺ کی شانِ رفیع میں ایک ایسا بلند پایہ قطعہ کہا ہے، جو اپنی معنویت اور بلاغت کی بنا پر ضرب المثل بن چکا ہے۔ ان دو شعروں میں جو کچھ ہے، وہ سعدیؒ جیسا قادرالکلام ہی کہہ سکتا تھا۔ ملاحظہ کیجیے:
بَلَغَ العُلیٰ بِکَمالِہٖ
کَشَفَ الدُّجٰی بِجَمالِہٖ
حَسُنَت جَمیعُ خِصالِہٖ
صَلُّوا عَلَیہِ وَآلِہٖ
اب اس کا اردو منظوم ترجمہ ملاحظہ ہو:
پہنچے بلندیوں پہ وہ اپنے کمال سے
تاریکیاں سمٹ گئیں ان کے جمال سے
تھی خصلتیں حسین محمد ﷺ کی سر بسر
ان پر درود بھیجے، اور ان کی آل پر
حواشی
پروف ریڈر: اقصٰی سیف اللہ
کتاب کا نام: علامہ اقبال کا خصوصی مطالعہ
کورس کوڈ: 5613
موضوع: اقبال اور عشقِ رسول ﷺ
صفحات: 82 تا 83
مرتبہ: سمعیہ مزمل